حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۱) طریق عبودیت و بندگی کے حصول کے لئے امام صادق‏ عليه السلام کے مواعظ

 (۱)

طریق عبودیت و بندگی کے

حصول کے لئے امام صادق‏ عليه السلام کے مواعظ

    علّامه بزرگوار جناب مجلسى ‏قدس سره کتاب «بحار الأنوار» مىں لکھتے ہیں: مجھے ایک نسخہ ملا کہ جو شيخ بہائى ‏قدس سره  کی تحریر تھی اور اس نسخہ میں لکھا تھا:

    شيخ شمس الدين محمّد بن مكّى کہتے ہیں: میں شيخ احمد فراہانى کے ہاتھ کا لکھا ہوا نقل کر رہا ہوں اور انہوں نے عنوان بصرى سے نقل کیا ہے کہ جو 94 سال کے ضعیف العمر شخص تھے۔

    عنوان بصرى کہتے ہیں: کئی سال سے مالك بن انس کے ہاں میری آمد و رفت تھی اور جب امام جعفر صادق ‏عليه السلام مدينہ تشریف لائے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں بھی مالك کی طرح ان سے مستفید ہونا چاہتا تھا۔

    ایک دن آنحضرت نے مجھ سے فرمایا:

 میں ایسا شخص ہوں کہ جو حکومت کی نظروں میں ہے اور میں شب و روز ہر ساعت میں کچھ ورد کرتا ہوں لہذا مجھے میرے ورد سے نہ روکو، تم مالک کے پاس جاؤ اور اس سے استفادہ کرو کہ جس طرح تم پہلے بھی اس کے ہاں آتے جاتے ہو۔

    میں اس بات سے بہت پریشان اور محزون و غمگین ہوا، آنحضرت کی خدمت سے رصکت ہوا اور میں نے اپنے آپ سے کہا: اگر وہ مجھ میں کوئی خوبی دیکھتے تو ہر گز مجھے اپنی بارگاہ سے نہ نکالتے، اور آمد و رفت اور کسب فیض کے لئے یقیناً کوئی راستہ چھوڑتے۔

    میں اسی خیال سے مسجد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم میں داخل ہوا، آنحضرت کی خدمت اقدس میں سلام کیا،اور اس سے اگلے دن پھر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے روضۂ مہر کی زیارت سے شرفیاب ہوا، میں نے دو رکع نماز ادا کی اور دعا کرتے ہوئے کہا: بار الٰہا! بار الٰہا! میں چاہتا ہوں کہ حضرت جعفر عليه السلام کے قلب کو میرے بارے میں مہربان کر اور مجھے ان کے علوم سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ میں بھی ان کے وسیلہ سے راہ مستقیم کی ہدایت پا سکوں۔

    اس دع اکے بعد مغموم دل کے ساتھ گھر لوٹ آیا ماور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ آج کے بعد مالك بن انس کے گھر نہیں جاؤں گا کیونکہ میرا دل امام صادق‏ عليه السلام کی محبت سے بھر چکا ہے اور کبھی بھی واجب نماز کے علاوہ گھر سے نہیں نکلتا تھا۔

    اسی کیفیت میں کچھ دن گذر گئے اور مجھ میں طاقت نہ رہی اور میرا صبر جواب دے گیا اور میرا دل آنحضرت کی زیادت کے لئے بے چین ہو گیا، نماز پڑھنے کے بعد تیار ہوا، جوتے پہنے، عبا اوڑھی اور حضرت امام صادق ‏عليه السلام کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا، اور جب آنحضرت کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دستک دی اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔

ایک خادم آیا اور اس نے کہا: کیا چاہتے ہو؟

    میں نے کہا: میں آنحضرت کی خدمت میں سلام عرض کرنا چاہتا ہوں اور اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔

اس نے کہا: آنحضرت اس وقت مصلٰی عبادت پر نماز میں مشغول ہیں۔

    میں آپ کے آستانہ کے دروزہ پر بیٹھ کیا، کچھ دیر نہیں گذری تھی کہ خادم باہر آیا اور اس نے کہا: خدا کی برکت سے داخل ہو جاؤ۔

میں گھر میں داخل ہوا اور سلام عرض کیا۔

آنحضرت نے فرمایا:بیٹھ جاؤ، خدا تمہیں بخش دے۔

 میں بیٹھ گیا اور آپ تھوڑی دیر تک اپنا سر جھکا کر بیٹھے رہے اور سر اٹھایا اور فرمایا: تمہاری کنیت کیا ہے؟

میں نے عرض كیا: ابو عبداللَّه۔

فرمایا: خداوند تمہیں تمہاری کنیت پر ثابت قدم رکھے اور تمہیں توفیق دے۔ اے ابا عبداللَّه! تمہارا سوال کیا ہے؟

 میں نے اپنے آپ سے کہا: اگر آقا کی زیارت، ان کی خدمت میں سلام اور ان کی دعا کے علاوہ اور کچھ نہ بھی ہو تو میرے لئے یہی کافی ہے۔

 پھر آپ نے اپنا سر مبارك اٹھایا اور پوچھا: تمہارا سوال کیا ہے؟

میں نے عرض کیا: میں نے خدا کی بارگاہ میں دعا و التماس کی کہ میرے بارے میں آپ کا قلب مبارک مہربان کرے، اور مجھے آپ  کے علم سے عطا فرمائے۔ مجھے امید ہے کہ خداوند کریم نے میری دعا قبول فرمائی ہو گی۔

 يا أباعبداللَّه! ليس العلم بالتعلّم ، إنّما هو نور يقع في قلب من يريد اللَّه تبارك وتعالى أن يهديه، فإن أردت العلم فاطلب أوّلاً في نفسك حقيقة العبوديّة واطلب العلم باستعماله، واستفهم اللَّه يفهمك .

 اے ابا عبداللَّه ! علم یاد کرنا اور سیکھنا نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسا نور ہے کہ خداوند متعال جس کی ہدایت کرنا چاہتا ہے، اس کے دل میں قرار دے دیتا ہے۔ اگر تم علم کے در پر ہو تو پہلے دل میں حقیقت بندگی طلب کرو، علم کو عمل سے حاصل کرو اور خداوند تعالی سے سمجھنے کی دعا کو تا کہ سمجھ سکو۔

 میں نے عرض كیا: اے میرے آقا و مولا!

 فرمایا: کہو، اے ابا عبداللَّه!

 میں نے عرض كیا: يا أبا عبداللَّه ! ما حقيقة العبوديّة؟

 اے ابا عبداللَّه! حقيقت بندگى و عبودیت کیا ہے؟

 فرمایا: ثلاثة أشياء : أن لا يرى العبد لنفسه فيما خوّله اللَّه ملكاً ، لأنّ العبيد لايكون لهم ملك يرون المال مال اللَّه يضعونه حيث أمرهم اللَّه به ، ولا يدبّر العبد لنفسه تدبيراً ، وجملة اشتغاله فيما أمره تعالى به ونهاه عنه .

 تین چیزیں حقيقت بندگى و عبودیت ہیں:

 1 -  خدا نے اپنے فضل وکرم سے جو کچھ عطا کیا ہے، بندہ اس میں اپنی ملکیت کا احساس نہ کرے کیونکہ بندوں کے لئے ہرگز کوئی ملکیت و مال نہیں ہے، وہ مال کو خدا کا مال سمجھتے ہیں، اور اس جگہ خرچ کرتے ہیں کہ جہاں اس نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

 2 – اور بندہ اپنے نفس کے لئے ہرگز کسی طرح کی کوئی تدبیر نہیں کرتا۔

 3 – اس کی تمام مصروفیات خداوند متعال کے احکام و اوامر کی انجام دہی اور اس کے منہيّات سے اجتناب ہے۔

جب کوئی بندہ اس چیز کو اپنی ملکیت نہ سمجھے جو خدا وند متعال نے اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائی ہے تو ان موارد میں انفاق کرنا آسان ہو جاتا ہے جن کے بارے میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے۔

 اور جب کوئی بندہ اپنی تدبیر اپنے مدبر یعنی خدا کے سپرد کر دے تو اس دنیا کے مصایب آسان ہو جاتے ہیں۔

جب کوئی بندہ احکام خدا کی اطاعت اور منہیات الٰہی سے اجتناب میں مشغول ہو جائے تو اس کے لئے خود نمائی، فخر فروشی اور لوگوں سے جنگ و جدال کے لئے وقت ہی باقی نہیں بچتا۔

جب خداوند ان تین خصلتوں سے کسی بندہ کو عظمت عطا فرمائے تو دنیا میں زندگی گذارنا، ابلیس اور دوسرے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنا آسان ہو جاتا ہے، اگر ایسا ہو تو دنیا کو تكاتر، زياده ‏طلبى اور دوسروں پر فخر و مباہات کرنے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اسے اپنی عزت اور دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لئے طلب نہیں کرتا اور اپنی زندگی بے کار نہیں گذارتا۔

 اور یہ تقویٰ کا پہلا درجہ ہے کہ خداوند متعال فرماتا ہے:

 «تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذينَ لايُريدُونَ عُلُوّاً فِي الْأَرْضِ وَلا فَساداً وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقينَ»(59) ؛

 «یہ دار آخرت وہ ہے کہ جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلب گار نہیں ہوتے اور عاقبت تو صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے » .

 میں نے عرض کیا: اے ابا عبداللَّه! مجھے کچھ نصیحت فرمائیں!

 آپ نے فرمایا:

میں تمہیں نو چیزوں کی نصیحت کرتا ہوں اور یہ ان نصیحتوں میں سے ہیں کہ جو راہ خدا کی جستجو میں ہیں، میں خداوند سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان نو نصیحتوں میں سے تین ریاضت اور تہذیب نفس کے متعلق ہیں، تین حلم و بردباری اور تین علم کے بارے میں ہیں۔ ان نصیحتوں کو محفوظ کر لو، اور ان پر عمل کرنے میں کسی طرح کی سستی نہ کرو۔

 أمّا اللواتي في الرياضة : فإيّاك أن تأكل ما لاتشتهيه ، فإنّه يورث الحماقة والبله ، ولاتأكل إلّا عند الجوع ، وإذا أكلت فكل حلالاً وسمّ اللَّه ، واذكر حديث الرسول صلى الله عليه وآله وسلم : ما ملأ آدمي وعاءاً شرّاً من بطنه ، فإن كان ولابدّ فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه.

رياضت اور تہذيب نفس کے تین موارد یہ ہیں:

 بھوک کے بغیر کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ حماقت اور بیوقوفی ہے اور غذا اس وقت تک نہ کھاؤ کہ جب تک بھوک نہ لگے اور جب غذا کھنا چاہو تو ایسی کھاؤ جو حلال ہو اور بسم اللہ پڑھو اور رسول خداصلى الله عليه وآله وسلم کی حدیث یاد رکھو کہ آپ نے فرمایا:

 «انسان اپنے شکم سے بدتر کسی ظرف کو نہیں بھرتا، اگر اسے بھرنے پر مجبور ہو تو پھر اس کا ایک تہائی کھانے، دوسرا تہائی پانی اور تیسرا حصہ ہوا سے بھرو».

 وأمّا اللواتي في الحلم : فمن قال لك : إن قلت واحدة سمعت عشراً فقل : إن قلت عشراً لم تسمع واحدة ، ومن شتمك فقل له : إن كنت صادقاً فيما تقول فأسأل اللَّه أن يغفر لي ، وإن كنت كاذباً فيما تقول فاللَّه أسأل أن يغفر لك ، ومن وعدك بالخناء فعده بالنصيحة والرعاء .

اور جو حلم و بردباری کے موارد ہیں؛ وہ یہ ہیں:

جب بھی تم سے کوئی کہے کہ اگر ایک کہو گے تو دس سنو گے تو تم اس کے جواب میں کہو: اگر تم دس کہو گے تو ایک بھی نہیں سنو گے۔ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو اس سے کہا: اگر تم اپنی بات پر سچے ہو تو خدا سے دعا ہے کہ مجھے معاف فرما دے اور اگر جھوٹے ہو تو خد تمہیں بخش دے۔ اگر کوئی تم سے جھوٹا وعدہ کرتا ہے تو تم اسے نصیحت و خیر خواہی کا وعدہ دو۔

 وأمّا اللواتي في العلم : فاسأل العلماء ما جهلت ، وإيّاك أن تسألهم تعنّتاً وتجربة ، وإيّاك أن تعمل برأيك شيئاً ، وخذ بالإحتياط في جميع ما تجد إليه سبيلاً واهرب من الفتيا هربك من الأسد ، ولاتجعل رقبتك للناس جسراً .

اور علم و دانش کے بارے میں موارد یہ ہیں:

جو نہیں جانتے اس کے بارے میں علماء سے پوچھو، اور ہرگز کسی کا امتحان لینے اور اس سے مجادلہ کرنے کے لئے نہ پوچھو۔

ہرگز اپنی رائے پر عمل نہ کرو، اور وہ تمام موارد کہ جن میں مختلف راستہ ہوں، ان میں احتیاط کی راہ اختیار کرو اور فتویٰ دینے سے ایسے ڈرو جیسے شیر سے فرار کرتے ہو اور اپنی گردن کو لوگوں کے لئے پل نہ بناؤ۔

اے عبداللَّه! اب اٹھو۔ بیشک میں نے تمہیں وعظ و نصیحت کی ہے اور اب میرے ورد کو ضائع مت کرو کیونکہ میں ایسا شخص ہوں جو اپنے نفس کے بارے میں بہت سخت ہے، سلام ہو اس پر کہ جو ہدایت کی جستجو میں ہے۔(60)


59) سوره قصص ، آيه 83 .

60) بحار الأنوار : 224/1 ح 17 .

 

منبع: فضائل اهلبیت علیهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص 624

 

ملاحظہ کریں : 1132
آج کے وزٹر : 131996
کل کے وزٹر : 286971
تمام وزٹر کی تعداد : 148556050
تمام وزٹر کی تعداد : 101900604