حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(2) معاویہ پر لعنت کے بارے میں معتضد کا خط یا خطبہ

(2)

معاویہ پر لعنت کے بارے میں معتضد کا خط یا خطبہ

   پسندیدہ خطوط میں سے ایک وہ خط بھی  ہے جو ابوالعبّاس احمد بن موفّق ابو احمد طلحة بن متوكّل معروف به المعتضد باللَّه نے سنہ ۲۸۴ ہجری میں لکھا کہ عبيداللَّه بن سليمان اس کا وزير تھا۔ ہم تاريخ ‏ابوجعفر محمّد بن جرير طبرى سے اس خط کو اختصار کے ساتھ نقل کرتے ہیں:

   ابوجعفر طبرى کہتے ہیں: اس سال معتضد نے منبروں سے معاوية بن ابى‏ سفيان پر لعنت کرنے کا ارادہ کیا اور اس نے حکم دیا کہ ایک خط لکھا جائے اور اسے لوگوں سے سامنے پڑھا جائے. اس کے وزیر عبداللَّه بن سليمان نے اسے عامہ لوگوں  کے آشوب سے ڈرایا اور کہا: مجھے خوف ہے کہ کہیں اس سے فتنہ نہ پھیل جائے لیکن معتضد نے اس کی بات کو اہمیت نہ دی.

   اس سلسلہ میں معتضد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ عام لوگ اپنے کام میں مصروف رہیں اور اکٹھے ہو کر تصعب کا اظہار کرنے، اس بارے میں بات چیت کرنے اور سلطان کے پاس گواہی دینے سے گریز کریں مگر یہ کہ ان سے اس بارے میں گواہی طلب کی جائے.

   اس نے قصہ گو اور داستانیں نقل کرنے والوں کو اس چیز سے منع کیا کہ وہ عام مقامات اور راستوں میں بیٹھ کر اس بارے میں بات کریں اور اس نے حکم دیا کہ اس بارے میں خط لکھا جائے اور اس کے چند نسخہ فراہم کئے جائیں اور انہیں مدینۃ السلام - بغداد – کے دونوں اطراف میں بازاروں اور محلوں میں بیان کیا جائے اور یہ کام اس سال بدھ کے دن انجام پایا کہ جب جمادی الاوّل کے آنے میں ابی چھ دن باقی تھے، اور جمادی الاوّل کے آنے سے چار دن پہلے جمعہ کے دن اس نے قصہ گو اور داستان بیان کرنے والے افراد اور حلقہ کی صورت میں بیٹھنے والے افراد کو بغداد کے دونوں جانب بیٹھنے اور دو مساجد میں جمع ہونے سے منع کر دیا. جامع مسجد میں بھی یہ اعلام کر دیا گیا کہ یہاں لوگوں کا اجتماع منع ہے۔ قصہ گو اور حلقہ نشین افراد کو اجتماع کی صورت میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ مناطرہ اور جدل کے لئے جمع ہونے والوں سے حرمت کا حکم اٹھا لیا گیا ہے. نیز جو لوگ جامع مساجد میں لوگوں کو پانی پلاتے تھے اور جن کی یہ عادت تھی کہ وہ پانی پلاتے وقت معاویہ کے لئے طلب رحمت و مغفرت کرتے تھے !! انہیں بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس کام سے گریز کریں اور معاویہ کے لئے رحمت طلب نہ کریں اور اسے نیکی سے یاد نہ کریں.

   لوگ کہتے تھے: معتضد نے معاویہ پر لعنت کے سلسلہ میں جو خط لکھنے کا حکم دیا ہے اسے جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد منبر سے پڑھا جائے گا، اسی وجہ سے نماز جمعہ کے بعد لوگ مسجد کے ایوان بالا کی طرف آئے تا کہ وہ خط سن سکیں لیکن وہ خط نہ پڑھا گیا.

   کہا گیا: عبيداللَّه بن سليمان نے خليفه کو اس کام سے منصرف کر دیا تھا اور اس نے ‏يوسف بن يعقوب قاضى کو طلب کیا اور اس سے کہا: معتضد کو اس کام سے روکنے کے لئے کچھ سوچو.

   قاضى يوسف؛ معتضد کے پاس گیا اور اس سے کہا: مجھے اس چیز کا خوف ہے کہ کہیں لوگ اس خط کو سن کر بغاوت نہ کر دیں اور کوئی فتنہ برپا نہ ہو جائے.

   معتضد نے کہا: اگر ایسا ہوا تو میں ان پر تلوار چلا دوں گا.

   قاضى نے کہا: اے اميرالمؤمنين! طالبين (علويین) کا کیا کریں گے کہ جو ہر دن کسی نہ کسی طرف سے قیام کرتے ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرابت کی وجہ سے لوگ بھی ان کی طف مائل ہو جاتے ہیں؟ جب کہ اس خط میں ان کی اس قدر مدح ثناء اور ستائش بیان کی گئی ہے؟. لوگ جیسے ہی یہ خط سنیں گے وہ ان کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ طالبین کی زبان بھی بہتر ہے اور آج سے ان کی دلیل و برہان مزید محکم ہو جائے گا.

   معتضد نے قاضى يا اس جیسی دوسری باتیں سن کر اس کام سے گریز کیا اور اسے کوئی جواب نہ دیا اور اس کے بعد اس خط کے بارے میں بھی کوئی حکم نہ دیا.

   اس خط میں خدائے عزّوجلّ کی حمد و ثناء اور محمد و آل محمد پر درود و سلام کے بعد یوں لکھا گیا تھا:

   امّا بعد؛ اميرالمؤمنين!! تک یہ خبر پہنچی ہے کہ عامہ میں سے ایک گروہ اپنے دین میں شبہہ اور اپنے اعتقاد میں فساد میں مبتلا ہے اور ہوس کا غلبہ ہو جانے کی وجہ سے تعصب کا شکار ہو چکا ہے کہ جو شناخت اور غور و فکر کے بغیر بات کرتے ہیں اور برہان و دلیل کے بغیر اپنے گمراہ پیشواؤں کے بارے میں بات کرتے ہیں (2632) اور وہ سنت حسنہ وکو چھوڑ کر ہوا و ہوس کی وجہ سے وجود میں آنے والی بدعتوں کے طرف مائل ہو چکے ہیں اور خدائے عزّوجل نے فرمایا ہے: «اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے کہ جو خدا کی ہدایت کے بغیر اپنی ہوا و ہوس کی پیروی کرے؟ اور بیشک خداوند اس قوم کی ہدایت نہیں کرتا کہ جو ظالم ہے » مزید بر آں؛وہ یہ کام ایک جماعت کے خروج، فتنہ کی طرف مائل ہونے، تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے انجام دیتےہیں اور اس شخص سے دوستی و محبت کا اظہار کرتے ہیں کہ جس سے خدا نے دوستی کو کو برطرف کر دیا اور اس سے عصمت کو دور رکھا اور دین سے خارج کیا اور اس کے لئے لعنت و نفرین کو واجب قرار دیا لیکن وہ لوگ اس شخص کو بزرگ شمار کرتے ہیں جسے خدا نے ذلیل و رسوا، ناتوان اور جس کا اعمال کو باطل قرار دیا ہے. اور اس شخص کو محترم مانتے ہیں جو خاندان بنی امیہ میں سے ہے کہ جو شجر ملعونہ ہیں اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ جن کے وسیلہ سے خدا نے انہیں ہلاکت سے نجات دی ہے اور جن پر نعمتیں تمام کی ہیں اور وہ خاندان رحمت و برکت سے ہے اور خداوند جس پر چاہے اپنی خاص رحمت فرمائے اور خداوند صاحب فضل و کرم ہے.

   اميرالمؤمنين!! - معتضد – نے جو کچھ سنا اسے اہم سمجھا اور ان کا یہ نطریہ ہے کہ اس کا انکار اور اسے برا شمار کرنا دین میں حرج کا باعث ہے  اور یہ ان کی تباہی کا موجب بنے گا کہ خدا نے اپنے امور جن کے سپرد کئے ہیں اور جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پر لانے، جاہلوں کو تعلیم دینے، شک کرنے والوں کے لئے دلیل لانے اور دشمن کے امور کا سد باب کرنے کا باعث ہیں اور خدا نے یہ سب امور ان پر واجب فرمائے ہیں.

   اب اے مسلمانوں کے گروہ؛ اميرالمؤمنين! تمہیں یہ خبر دے رہا ہے کہ جب خدائے ‏عزّوجلّ نے محمّد صلى الله عليه وآله وسلم کو اپنے دین کے ساتھ مبعوث کیا اور انہیں حکم دیا کہ اپنے امور اور حکم خدا کو آشکار کریں تو آپ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے افراد سے آغاز کیا اور انہیں وعد و وعید دی اور انہیں خدا کے آئین کی طرف دعوت دی، انہیں وعظ و نصیحت کی۔ آپ کی دعوت کو قبول کرنے والوں اور آپ کی باتوں کی تصدیق کرنے والوں اور آپ کے فرامین کی پیروی کرنے والوں میں آپ کے کچھ قریبی رشتہ دار تھے اور وہ بھی دو گروہوں میں تقسیم تھے ان میں سے بعض اس چیز پر ایمان رکھتے تھے کہ جو آپ خدا کی طرف سے لائے اور ان میں سے بعض افراد اگرچہ مؤمن نہیں تھے لیکن آپ کو عزیز شمار کرتے تھے، آپ سے محبت کرتے، آپ کی تائید کرتے اور آپ کی مدد کرتے تھے.

   اس بناء پر ان کا مؤمن بصیرت اور تفکر سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مدد کرتے تھے اور کافر ان کی غیرت اور احترام کی وجہ سے ان کی مدد کرتے تھے.

 كسانى را كه با پيامبر ستيز و دشمنى و كارشكنى مى ‏كردند دفع و از ياران و يارى ‏دهندگان او حمايت مى‏ كردند و از كسانى كه‏ نصرت او را مى ‏پذيرفتند بيعت مى‏ گرفتند و از اخبار دشمنان پيامبر تجسّس مى‏ كردند و در غياب پيامبر صلى الله عليه وآله وسلم همچون هنگام حضور او براى كارهاى او تدبير و چاره‏ انديشى ‏مى ‏كردند، تا آنكه مدّت به سر آمد و گاهِ هدايت فرارسيد و آنان هم با بينشى پايدار دردين خدا و اطاعت حق تعالى و تصديق پيامبر و گرويدن به آن حضرت درآمدند و اين ‏كار را با بهترين حالت هدايت و رغبت انجام دادند.

   خداوند نے انہیں اہلبیت رحمت و دین قرار دیا اور ان سے پلیدی و رجس کو دور رکھا اور انہیں پاک و پاکیزہ فرمایاانہیں معدن حکمت اور وارث نبوت و خلافت قرار دیا اور خداوند کریم نے ان کے لئے فضیلت کو مقرر کیا اور بندوں پر ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم فرمایا.

   اکثر و بیشتر افراد نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کی مخالفت کی، آپ کو جھٹلایا، آپ سے جنگ کی ، آپ کی سرزنش کی، آپ کو تکالیف پہنچائیں اور ڈرایا دھمکایا، آپ سے اپنی دشمنی کو آشکار کیا اور آپ سے جنگ کے لئے گئے۔ نیز جو لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملحق ہونے کا ارادہ رکھتے تھے انہیں اس کام سے روکا اور آپ کے پیروکاروں کو بھی تکالیف پہنچائیں.

ان میں سے جو شخص آپ کا سب سے زیادہ دشمن تھا، جس نے آپ کی مخالفت کی اور جو ہر جنگ میں پیش پیش رہا اور جو ہر فتنہ میں سالار اور لشکر کو جمع کرتا تھا، جو اسلام کی مخالفت میں ہر پرچم کا علمدار اور اسلام کے مخالف ہر گروہ کا سربراہ تھا اور وہ ابوسفیان بن حرب تھا کہ جو جنگ احد و خندق اور دوسری جنگوں میں سالار لشکر تھا اور اس کے پیروکار خاندان بنی امیہ میں سے تھے کہ جن پر کتاب خدا اور متعدد مرتبہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ خدا ان کے کفر و نفاق کو جانتا تھا اور اس کے سلسلہ میں حکم مقرر ہوا تھا.

   ابوسفيان – خدا اس پر لعنت کرے – نے اس طرح ہر طرح سے جنگ کی کوششیں کیں، مکاری سے دشمنی کی، اور جنگ کے لئے لشکر تیار کیا یہاں تک کہ خدا نے اس کی تلوار کو مغلوب کیا اور حکم خدا غالب آیا لیکن انہیں یہ بات پسند نہیں تھی، انہوں نے مجبوراً ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھا لیکن اپنے کفر کو اسی طرح مخفی رکھا  اور کبھی بھی خود کو کفر سے خارج نہیں کیا.

   پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے اور اس کے بیٹوں کو قبول کیا اگرچہ آپ ان کے حال و احوال سے باخبر تھے اور پھر خدا نے قرآن میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آیت نازل فرمائی کہ جس کے ضمن میں ان کے حال و احوال کو بھی بیان فرمایا  اور وہ آیت خداوند متعال کا یہ فرمان ہے کہ خدا نے فرمایا: «اور قرآن میں  شجرهٔ ‏ملعونه »(2633) اور اس بارے میں کسی میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ خداوند نے اس آیت سے ان کا ارادہ کیا ہے.

   اس بارے میں سنت میں جو مطالب وارد ہوئے ہیں اور جنہیں قابل اعتماد افراد نے روایت کیا ہے ؛ان میں سے ابوسفیان کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک فرمان ہے کہ جو آپ نے اس وقت بیان فرمایا تھا کہ جب ابوسفیان گدھے پر سوار دیکھا اور معاویہ نے گدھے کی لگام پکری ہوئی تھی اور اس کا بھائی یزید گھوڑے کو چلا رہا تھا، پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم ‏نے فرمایا:

خداوند اس سوار، قائد اور اسے چلانے والے پر لعنت فرمائے(2634).

   ان موارد میں دیگر وہ مطالب ہیں کہ جنہیں راویوں نے ابوسفیان کے قول سے روایت کیا ہے؛اس نے عثمان کی بیعت کے دن کہا: اے بنی عبد شمس! خلافت آپس میں ایک دوسرے کو سونپتے رہو کہ جس طرح گیند ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور خدا کی قسم! نہ تو کوئی جنت ہے اور نہ ہی دوزخ.

   اور یہ واضح و صریح کفر ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر خدا کی لعنت ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں سے کافر ہونے والوں پر خدا نے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے لعنت کی کیونکہ ان لوگوں نے معصیت کی (2635).

  نیز اس سے ایک دوسرا مطلب بھی نقل ہوا ہے کہ وہ اندھا ہو جانے کے بعد احد کی چوٹی پر کھڑا ہوا اور اس نے اس شخص سے بیان کیا کہ جس نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا: اسی جگہ ہم نے محمّد صلى الله عليه وآله وسلم کو پتھر مارے اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا.

   فتح مکہ سے پہلے ابوسفیان کا ایک دوسرا قول بھی ہے کہ اس نے سپاہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کو دیکھنے کے بعد عباس سے کہا: بیشک تمہارے بھتیجے کی بادشاہی مستحکم اور استوار ہو گئی ہے. عبّاس نے اس سے کہا: واى ہو تم پر؛ یہ بادشاہی نہیں ہت؛ پیغمبری ہے (2636).

   اس کا ایک اور قول یہ ہے کہ جب اس نے فتح مکہ کے دن بلال کو فراز كعبه پر دیکھا کہ وہ اذان دے رہے ہیں اور بلند آواز سے «أشهد أنّ محمّداً رسول اللَّه» کا اعلان کر رہے تو اس نے کہا: خداوند عتبة بن ربيعه کو سعادتمند بنایا کہ جس نے یہ چیز نہیں دیکھی.

   اس بارے میں ایک دوسرا واقعہ وہ خواب ہے جو پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے دیکھا کہ جس کے بعد آنحضرت افسردہ اور پریشان ہو گئے اور کہا گیا ہے کہ اس خواب کے بعد پیغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کبھی مسکراتے ہوئے دکھائی نہیں دیئے اور وہ خواب کچھ یوں تھا کہ آپ نے خواب میں بنی امیہ کے چند افراد کو دیکھا کہ جو آپ کے منبر پر بندروں کو طرح ناچ رہے ہیں (2637).

   منجملہ یہ کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے حكم بن ابى العاص کو ملک بدر کر دیا کیونکہ آنحضرت نے اسے چلتے وقت آپ کی نقل کرتے ہوئے دیکھا تھا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفرین کی وجہ سے خدا نے حکم بن ابى العاص کو دائمی مرض میں مبتلا کر دیا. جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ آپ کو دیکھ کر عمداً لرز رہا ہے اور آپ کے چلنے کی نقل اتار رہا ہے تو آپ نے فرمایا:«اسی حالت میں رہو ». وہ پوری زندگی اسی حالت پر باقی رہا. اس سے بڑھ پر اس کے بیٹے مروان نے اسلام میں پہلا فتنہ ایجاد کیا، اس فتنہ اور اس کے بعد اسلام میں جو بھی ناحق خون بہایا جائے وہ مروان کے اعمال کا نتیجہ ہے.

   ان میں سے ایک یہ مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا کہ: «شب ‏قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے » اور کہا گیا ہے کہ:ہزار مہینوں سے بنی امیہ کی بادشاہی مراد ہے (2638).

   ایک اور مطلب یہ ہے کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے معاويہ کو طلب کیا کہ آؤ تا کہ کوئی چیز لکھے لیکن اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو اہمیت نہ دی اور کھانا کھانے کا بہانہ بنایا تو پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم‏ نے فرمایا: «خداوند اس کے شکم کو سیر نہ فرمائے»  اور پھر ایسا ہی ہوا اور وہ ہزگز سیر نہیں ہوتا تھ اور کہتا تھا: خدا کی قسم! میں پیٹ بھر جانے کی وجہ سے کھانے سے ہاتھ نہیں اٹھاتا بلکہ مں تھک جانے کی وجہ سے کھانے سے ہاتھ اٹھاتا ہوں (2639).

   نیز ان میں سے ایک اور مورد یہ ہے کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «اس درّہ سے میری امت کا ایک ایسا شخص آئے گا جو میرے دین پر محشور نہیں ہو گا » اور وہاں سے معاويہ نمودار ہوا.

   نیز پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی یہ حدیث کہ آپ نے فرمایا:

جب بھی معاویہ کو میرے منبر پت دیکھو تو اسے قتل کر دو (2640).

   منجملہ یہ حديث مرفوع مشهور ہے كہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

معاویہ آگ کے تابوت میں جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہے اور وہاں فریاد کرے گا: يا حنّان و يا منّان. اور اس کے جواب میں کہا جائے گا: «اب تم یہ کہہ رہے ہو ھالانکہ اس سے پہلے تم نے نافرمانی کی اور تم تباہ کاروں تھے»(2641).

   نیز معاویہ کے کرتوتوں میں سے ایک یہ ہ ے کہ وہ علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام سے جنگ کرنے کے لئے آیا جب کہ اسلام میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا مقام سب بلند ہے، وہ مسلمانوں میں سب سے مقدم اور سب سے زیادہ مؤثر اور نامور تھے.معاویہ نے اپنے باطل کے ذریعہ علی علیہ السلام کے حق کے خلاف سازشیں کیں۔ سرکشوں اور گمراہوں کے ساتھ مل کر علی علیہ السلام اور آپ کے اصحاب سے جنگ کی. معاویہ اور اس کے باپ ہمیشہ نور خدا کو خاموش کرنے اور دین پروردگار کا انکار کرنے کے لئے کوشاں رہا«و خداوند نمى‏ خواهد جز آنكه نور خويش را كامل و رخشان فرمايد هر چند كافران را ناخوش آيد«(2642).

   معاويہ نادان لوگوں کو دھوکہ و فریب دیتا تھا اور جاہل لوگوں کو خطا میں مبتلا کرتا تھا، یعنی رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے پہلے سے جس گروہ کے بارے میں خبر دی تھی اور (جناب) عمار سے فرمایا تھا: «تمہیں سرکش گروہ قتل کرے گا »(2643)، تم انہیں جنت کی طرف دعوت دو گے لیکن وہ تمہیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔ اس نے دنیا کا انتخاب کیا اور دوسری دنیا کی نسبت سے کافر ہو گیا اور وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو گیا. معاويہ خون حرام کو حلال شمار کرتا ہے اور معاویہ کی طرف سے وجود میں لائے جانے والے فتنہ اور گمراہی کے نتیجہ میں (جناب) عمار قتل ہو گئے۔(جناب) عمار  اور بے مسلمانوں خون ناحق بہایا گیا کہ جو دین خدا کا دفاع کر رہے تھے اور حق کا ساتھ دے رہے تھے.

   معاویہ خدا سے دشمنی کے لئے کوشاں تھا اور اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ وہ خدا کی معصیت ہوتی رہے ، اس کی اطاعت نہ ہو، خدا کے احکام معطل ہو جائیں، وہ مستحکم نہ ہوں، گمراہی اور باطل کی دعوت کا علم بلند ہو لیکن وہ اس چیز سے غافل تھا کہ کلمۂ خدا برتر ہے، دین پروردگار منصور ہے، اس کا حکم نافذ ہے اور اس کا فرمان غالب ہے اور خدا سے دشمنی کرنے والا اور فریب دینے والا ہمیشہ مغلوب ہے، معاویہ اپنے زمانے اور اس کے بعد ہونے والی جنگوں میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار ہے، اس نے ناپسندیدہ امور کو رائج کیا، نہ صرف ان امور کا گناہ بلکہ ان پر عمل کرنے والے ہر شخص کا گناہ اسی کے ذمہ ہے. اس نے حرام کاموں کا انجام دینے والوں کے لئے محرمات کو حلال کر دیا اور ان کے اہل سے حقوق کو سلب کر دیا.

   جی ہاں! آرزؤوں نے اسے فریب دیا اور مہلت نے اسے گناہوں میں مبتلا کیا اور اس کے مقام کو نیست و نابود کر دیا.

   اس کے علاوہ دوسرے وہ امور کہ جن کی وجہ سے خدا نے اس پر لعنت کو واجب قرار دیا ہے؛ وہ یہی ہیں:اصحابم تابعین، دیندار اور بافضیلت افراد کو قتل کرنا جیسے عمرو بن‏ حمق خزاعى، حجر بن عدى كندى اور ان جیسی دوسری بزرگ شخصیات۔ اور اس نے انہیں صرف اس لئے قتل کیا کہ قدرت و طاقت، غلبہ اور بادشاہی اسی کے پاس  رہے (2644).

مزید برآن؛ اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ زياد بن سميّہ اس کا بھائی ہے اور یہ کہ وہ اسے اپنے باپ یعنی ابوسفیان کا بیٹا سمجھتا تھا حالانکہ خداوند متعال نے فرمایا ہے:

«پسرخواندگان را به نام پدرانشان بخوانيد كه اين به نزد خدا منصفانه ‏تر است»(2645).

   اور پيغمبر خدا ‏صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ہے:

جو کوئی بھی اپنے باپ کے علاوہ کسی کا دعویٰ کرے اور اپنے نسب کے علاوہ کسی اور سے نسبت دے وہ ملعون ہے.

   نیز آنحضرت نے فرمایا ہے:

فرزند بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے سنگسار ہے.

   معاويہ نے واضح و آشکار طور پر خداوند متعال اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی  اور اس نے بستر والے کے علاوہ کسی اور کا فرزند قرار دیا اور غیر زانی کے لئے سنگسار (کا حکم) قرار دیا۔ اس کام سے اس نے امّ حبيبه -ز رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم – اور دوسرعی عورتوں کے بالوں اوے چہرے کو نامحرموں کے لئے محرم بنا دیا اور ایسی قرابت ثابت کی کہ جسے خدا نے دور فرمایا تھا اور دین میں ایسا خلل اور اسلام میں ایسی تبدیلی واقعہ نہیں ہوئی تھی (2646).

  معاويہ کے دیگر کارناموں میں سے کچھ یہی ہیں کہ اس نے اپنے شراب خور، دائم الخمر، مرغ باز اور بندر باز بیٹے یزید کو خدا کے بندوں پر خلافت خدا کے لئے منتخب کیا اور اس کے لئے مسلمانوں سے طاقت  کے زور پر اور ڈرا دھمکا کر زبردستی بیعت لی گئی جب کہ معاویہ اس کی پلیدی، جہالت اور نیچ پنے سے آگاہ تھا اور اس نے خود بارہا اپنے بیٹے یزید کو کفر، مستی اور ناشائستہ کام انجام دیتے ہوئے دیکھا تھا. اور جیسے ہی یزید لعنۃ اللہ علیہ کو طاقت و قدرت ملی تو وہ من مانی کرتے ہوئے ہر چیز پر مسلط ہو گیا اور اس نے مسلمانوں سے مشرکوں کے خون کا انتقام لینا شروع کیا اور واقعۂ حرہ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مدینہ کے لوگوں سے ایسی جنگ کی کہ اسلام اس سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی اور جنگ نہیں تھی اور اس نے اس کام سے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور خدا کے دوستوں سے انتقام لیا اور خدا کے دشمنوں کے لئے انتقام لیا جب کہ وہ بطور آشکار اپنے شرک و کفر کا اظہار کرتا تھا: «اے كاش! جنگ بدر میں موجود میرے بوڑھے بزرگ ہوتے تو وہ تلوار کی ضرب سے اہل خزرج کی بے تابی دیکھتے».

   یہ اس شخص کو قول ہے کہ جو خدا، دین، پیغمبر اور کتاب خدا کا بالکل معتقد نہیں تھا اور خدا کی طرف سے آنے والے احکام پر ایمان نہیں رکھتا تھا.

   وہ جس بدترين اور ناپسندیدہ اور سب سے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا وہ حسين بن‏ على‏ عليہما السلام کا خون بہانا تھا،جب کہ وہ (امام) حسین علیہ السلام کی رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم سے نسبت، دین خدا میں آپ کے مقام و منزلت اور فضیلت کو جانتا تھا نیز وہ آپ اور آپ کے بھائی کے بارے میں پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی گواہی کو جانتا تھا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے سردار ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے آپ (امام) حسین علیہ السلام سے ایسا سلوک کیا، اور اس نے خدا کی شان میں گستاخی کرنے، دین کے سلسلہ میں اپنے کفر اور پيغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی عترت کی ہتک حرمت کرنے کے لئے یہ کام انجام دیا؛ گويا اس نے (امام) حسين ‏عليه السلام اور آپ کے خاندان کو قتل کر کے ترک اور دیلم کے کفار کو قتل کیا ہے اور اس بارے میں اسے خدا کے عذاب اور جلال کا کوئی خوف نہیں تھا۔ خدا نے اس کی عمر کی جڑوں کو  کاٹ دیا، اس کی طاقت کو سلب کر دیا  کیونکہ وہ  خدا کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق تھا اور خدا نے اس لئے عذاب مہیا فرمایا.

   یہ سب کچھ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بنى ‏مروان كتاب خدا کے احکام اور ‏پروردگار کے فرمان کو تبدیل کیا اور خدا کے اموال( بیت المال) کو اپنے لئے مخصوص کیا، خانۂ خدا کو تباہ و ویران کیا، اس کی حرمت کو پامال کیا اور منجنیقیں نصب کرکے کعبہ پر آگ برسائی گئی.

   انہوں نے کعبہ کو جلانے، اسے تباہ و برباد کرنے اور اس کی حرمت کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، نیز انہوں نے خانہ کعبہ میں پناہ لینے والوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہ کیا اور جن کے ذریعہ خدا نے انہیں امان دی تھی؛ انہیں پراکندہ اور منتشر کر دیا گیا یہاں تک کہ ان کے لئے عذاب خدا مقرر ہو گیا اور انہوں نے زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا اور انہوں نے خدا کی زمین پر خدا کے تمام بندوں پر ظلم روا رکھا.

   اسی دوران وہ خدا کے انتقام کے مستحق بن گئے اور ان پر غضب الٰہی نازل ہوا اور خدا نے خاندان و وارثان پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم ( کہ جن کے لئے خدا نے خلافت کو مخصوص فرمایا تھا) میں سے کسی کو ان کے مقابلہ کے لئے تیار فرمایا کہ جس طرح خدا نے مؤمنوں اور مجاہدوں  کے اجدادکو کافروں کے اجدادسے مقابلہ کے لئے تیار کیا تھا.

   خداوند نے ان کے ہاتھوں سے مرتد ہو جانے والوں کا خون بہایا کہ جس طرح ان کے اجداد کا خون بہایا تھا کہ جب وہ مشرک تھے«و خداوند دنباله گروهى را كه ستم‏ كرده بودند قطع فرمود و سپاس خداوند پروردگار جهانيان را»(2647).

اے لوگو! خدا نے حکم دیا ہے کہ اچاعت کی جائے اور حکم دیا گیا ہے کہ اسے نافذ کیا جانا چاہئے  اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور خداوند متعال نے یوں فرمایا ہے: «همانا خداوند كافران را لعنت فرموده و براى آنان آتش دوزخ را آماده كرده است»(2648)، نیز فرمایا ہے: «آنان را خداوند لعنت مى‏ كند و لعنت‏ كنندگان آنان را لعنت مى ‏كنند»(2649).

   اس بناءپر اے لوگو! جس پر خدا اور اس کے پیغمبر نے لعنت کی ہے؛ اس پر لعنت کرو اور ان لوگوں سے دوری اختیار کرو کہ جن سے دوری اختیار کئے بغیر خدا کا تقرب حاصل نہیں ہو سکتا.

   بارالٰہا! ابوسفيان بن حرب بن اميّه،معاوية بن ابى سفيان، يزيد بن معاويه، مروان بن حكم، اس کے بیٹوں اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں پر لعنت فرما.

   بارالٰہا! کفر کے پیشواؤں، گمراہی کے رہبروں، دین کے دشمنوں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے برسرپیکار رہنے والوں، احکام کو معطل کرنے والوں، ختاب خدا کو بدلنے والوں اور ناحق کون بہانے والوں پر لعنت فرما.

   بارالٰہا! ہم تیرے دشمنوں سے دوستی اور تیری معصیت و گناہ کرنے والوں سے چشم پوشی سے تبرّی کرتے ہیں؛ جیسا ہ تو نے خود فرمایا ہے: «گروهى را كه به خدا و روز رستاخيز گرويده‏ اند نخواهى يافت كه با ستيزگران خدا و رسولش دوستى كنند»(2650).

   اے لوگو! حق کو پہچانو تا کہ اس کے اہل کو پہچان سکو اور گمراہی کے راستوں کو دیھو تا کہ ان پر چلنے والوں کو پہچان سکو۔ خدا نے تمہیں جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے دور رہو اور جنہیں انجام دینے کا حکم دیا ہے اسے انجام دو.

   امير المؤمنین! خدا سے آپ کے لئے مدد اور توفیق کے لئے دعاگو ہے اور آپ کی ہدایت کے لئے خدا سے امید رکھتا ہے اور خدا کے سپرد کرتا ہے اور اسی پر توکل کرتا ہے اور خدائے علی و عظیم  کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے.»

* * *

 (ابن ابى الحديد) کہتے ہیں: طبرى نے اسے اسی طرح خط کی صورت میں بیان کیا ہے لیکن میری نطر میں یہ خطبہ ہے کیونکہ جسے کوئی پڑھے یا لوگوں کے لئے پڑھا جائے وہ خطبہ ہے نہ کہ خط.اور خط اسے کہا جاتا ہے کہ جو فرمانروا یا مأمور یا ان جیسے دوسرے افراد کے لئے لکھا جائے، البتہ کبھی خط کو منبر سے بھی پڑھا جاتا ہے اس صورت میں وہ خطبہ کی مانند ہو گا لیکن درحقیقت خطبہ نہیں ہو گا بلکہ وہ ایسا خط ہے کہ جو لوگوں کے لئے پڑھا جاتا ہے۔ شاید اس خط کے مطالب حکم نامہ کے عنوان سے ہوں اور انہیں اس لئے انشاء کیا گیا ہو تا کہ انہیں ہر جگہ پہنچایا جائے اور لوگوں کے لئے پڑھا جائے اور یہ بغداد کے لوگوں کے لئے پڑھے جانے کے بعد ہے.

   نیز جو چیز اس کے خط ہونے کی تائید کرتی ہے اور طبری کے قول کے محکم ہونے کا باعث بنتی ہے وہ یہ ہے کہ اس خط کے آخر میں یوں ذکر ہوا ہے:«اسے عبيداللَّه بن سليمان نے سنہ ۲۸۴ ہجری میں تحریر کیا ہے » اور یہ چیز خطبوں میں رائج نہیں تھی بلکہ خطوط میں رائج تھی لیکن طبری نے یہ نہیں کہا کہ اسے مختلف شہروں کے لئے لکھنے کا حکم صادر ہوا ہے، حتی کہ یہ بھی نہیں کہا ہے کہ ایسا کوئی ارادہ کیا گیا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں: فقط اس بات کا ارادہ کیا گیا تھا کہ اسے بغداد کی مساجد میں پڑھا جائے.(2651)


2632) بہت افسوس کا مقام ہے کہ عوام کے استقبال اور سراہنے کی وجہ سے برسراقتدار آنے والے عباسی خلفاء  کے زمانے میں (کہ جنہیں ایرانیوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی) میں پانی پیتے وقت معاویہ کے لئے طلب رحمت کی جاتی!! اور اس تاریخ سے سو سال پہلے ابوعطاء افلح بن يسار سندى نے یہ شعر کہا تھا: «يا ليت جور بني مروان عاد لناوليت عدل بنى ‏العباس في النار» جو گلی کوچوں میں سنائی دیتا تھا. خداوند ان سب کو واضح و روشن عبرت قرار دے.

2633) سوره اسراء، آيه 60 کا کچھ حصہ. مفسرین کے ایک گروہ جیسے علىّ بن ابراهيم قمى،عيّاش، شيخ طبرسى اور سيّد هاشم بحرانى نے اپنی تفاسير میں ذکر کیا ہے کہ شجره ملعونه سے بنى ‏اميّه‏ مراد ہیں. کچھ دوسرے مفسرین جیسے شيخ طوسى اور ابوالفتوح ‏رازى اس بارے میں کوئی چیز نہیں لکھی.

2634) ابن ابى الحديد نے اس موضوع کو زبیر بن بکار کی كتاب «المفاخرات» میں تراسویں (۸۳) خطبہ کی شرح کے ضمن میں بیان کیا ہے ، نیز «جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 304/3» کی طرف رجوع فرمائیں.

2635) سوره مائده کی بیاسویں آیت کا محتویٰ.

2636) واقدى نے اس موضوع کو «مغازى» اور ابن سعد نے «طبقات» میں بیان کیا ہے. ترجمه طبقات: 168/2 کی طرف رجوع فرمائیں.

2637) اس موضوع کو ابن ابى حاتم،ابن مردويه اور بيہقى نے «دلائل النبوّة» میں، نیز ابن عساكر اور فخر رازى نے سورۂ بنی اسرائیل کی آيه 62کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا ہے.استاد محترم سید مرتضیٰ حسینی فیروزآبادی کی کتاب«السبعة من السلف: 206» کی طرف رجوع فرمائیں.

2638) اس موضوع کو ترمذى نے اپنی صحيح میں سورهٔ قدر کی تفسیر کے ضمن میں اور محمّد بن جرير طبرى نے تفسير طبرى: 167/30 میں اور حاكم نيشابورى نے مستدرك الصحيحين: 170/3 میں اور دوسرے بزرگ مفسرین نے بیان کیا ہے.کتاب «السبعة من السلف:184» کی طرف رجوع فرمائیں.

2639) اس موضوع کو مسلم نے اپنی صحيح میں اور ابو داؤد نے اپنی مسند اور متّقى نے كنز العمّال: 87/6 میں بیان کیا ہے. کتاب «السبعة من ‏السلف: 184» کی طرف رجوع فرمائیں.

2640) اس موضوع کو ذہبى نے «ميزان الإعتدال: 17/2 و 129» میں، اور ابن حجر نے تهذيب التهذيب: 110/5» اور دوسرے مقامات پر بھی ذکر کیا ہے.اس بارے میں مزید تفصیلات کے لئے «السبعة من السلف: 200» کی طرف رجوع فرمائیں.

2641) سوره يونس، آيه 91.

2642) سوره توبه، آيه 32 کا کچھ حصہ.

2643) یہ روایت تواتر کی حد سے زیادہ ہے. براى اطّلاع از پاره ‏اى از منابع به دو كتاب ارزشمند استاد محترم سيّد مرتضى ‏فيروزآبادى «فضائل الخمسة: 394/2 و 377» و »السبعة من السلف: 189» مراجعه فرماييد.

2644) ان دو بزرگوں کی پھانسی کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے ترجمه اخبار الطوال: 271 ، ترجمه نهاية الارب: 95/7  اور طبقات ابن سعد: 151/6 کی طرف رجوع فرمائیں.

2645) سوره احزاب، آيه 5.

2646) اس بارے میں مزید جاننے کے لئے ترجمه نهاية الارب: 74/7 کی طرف رجوع فرمائیں.

2647) سوره انعام، آيه 45.

2648) سوره احزاب، آيه 64 کا کچھ حصہ.

2649) سوره بقره، آيه 159 کا ایک حصہ.

2650) سوره مجادله، آيه 22.

2651) جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 347/6.

 

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 972
آج کے وزٹر : 18973
کل کے وزٹر : 281113
تمام وزٹر کی تعداد : 151249686
تمام وزٹر کی تعداد : 106102646