حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) اميرالمومنين عليه السلام کے سامنے امام حسن مجتبي عليه السلام کا خطبہ

(۲)

اميرالمومنين عليه السلام کے سامنے

امام حسن مجتبي عليه السلام کا خطبہ

 شيخ بزرگوار فرات بن ابراهيم كوفى اپنی تفسير میں لکھتے ہیں:

 امام صادق ‏عليه السلام نے فرمایا:

ایک دن حضرت على بن ابى‏ طالب ‏عليهما السلام نے اپنے فرزند امام حسن ‏عليه السلام سے فرمایا: میرے بیٹے! اٹھو اور خطبہ دو تا کہ تمہاری گفتگو سنوں.

 امام حسن ‏عليه السلام نے عرض كیا:بابا جان!میں آپ کے کیسے گفگتگو کر سکتا ہوں، مجھے اس بات سے شرم آتی ہے۔

 امام صادق ‏عليه السلام فرماتے ہیں: حضرت على بن ابى ‏طالب ‏عليهما السلام نے اپنے تمام گھر والوں کو اکٹھا کیا اور خود ایک طرف چھپ گئے تا کہ اپنے بیٹے کی گفتگو سن سکیں۔

 امام حسن‏ عليه السلام کھڑے ہوئے اور یہ خوبصورت گفتگو بیان فرمائی:

 الحمد للَّه الواحد بغير تشبيه ، الدائم بغير تكوين ، القائم بغير كلفة الخلق ، الخالق بغير منصبة ، الموصوف بغير غاية ، المعروف بغير محدوديّة ، العزيز لم يزل قديماً في القدم ، ودعت القلوب لهيبته ، وذهلت العقول لعزّته ، وخضعت الرقاب لقدرته .

 فليس يخطر على قلب بشر مبلغ جبروته، ولايبلغ الناس كنه جلاله، ولايفصح الواصفون منهم لِكُنه عظمته ، ولايقوم الوهم منهم على التفكّر على مضاسببه ، ولاتبلغه العلماء بألبابها ، ولا أهل التفكّر بتدبير اُمورها ، أعلم خلقه به الّذي بالحدِّ لايصفه ، يدرك الأبصار ولاتدركه الأبصار وهو اللطيف الخبير .

 أمّا بعد ، فإنّ عليّاً باب من دخله كان مؤمناً ، ومن خرج منه كان كافراً ، أقول قولي هذا وأستغفر اللَّه العظيم لي ولكم .

سب تعریفیں اس خدائے واحد کے لئے ہیں کہ کوئی چیز بھی اس کے مشابہ نہیں ہے، وہ غیر تکوین کے ہے( یعنی اسے کسی نے خلق نہیں کیا) اس نے مخلوق کی کسی زحمت کے بغیر خلق کیا ہے، وہ کسی مشقت کے بغیر معروف ہے، وہ ایسا عزیز ہے کہ اس کی قدیمیت کو کوئی بھی زائل نہیں کر سکتا، اس کی ہیبت و جلالت سے دلوں پر خوف ہے، اس کی عزت سے عقلین حیران و پریشان ہیں، اس کی قدرت و طاقت کے سامنے عقلیں فروتن ہیں۔

 اس کی جبروت و بزرگی کا اندازہ کسی دل میں نہیں آ سکتا، لوگوں میں اس کے جلال کی حقیقت و واقعیت کو پہچاننے کی سکت نہیں ہے، تعریف کرنے والے اس کی عظمت کی حقیقت و وافیت کی توصیف کرنے سے ناتوان ہیں، ان کا خیال ہے، اس کے بارے میں تفکر کرنے سے عاجز ہیں.

علماء اپنی عقل و خرد کے باوجود اس تک نہیں پہنچتے، مفکرین اس کے امور کی تدبیر سے آگاہ نہیں، اس کی عقل مند ترین مخلوق وہ ہے جو تعریف و توصیف میں اسے محدود نہ کرے، وہ آنکھوں کا ادراک رکھتا ہے لیکن آنکھیں اس کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

 امّا بعد، بیشک على ‏عليه السلام ایسا دروازہ ہیں کہ جو اس میں داخل ہو گیا وہ مؤمن ہے اور اس مسے نکل گیا وہ کافر ہے، میں اپنی یہ گفتگو کرتا ہوں اور میں خداوند متعال سے اپنے لئے اور آپ کے لئے بخشش طلب کرتا ہوں.

اس وقت حضرت علىّ بن ابى طالب عليهما السلام کھڑے ہوئے اور اپنے بیٹے کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:

 «ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ »(1) ؛

 «یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کی سننے اور جاننے والا ہے» .(3)

 


1) سوره آل عمران ، آيه 34 .

2) تفسير فرات : 79 ح 26 ، بحار : 350/43 ح 24 .

 

منبع: فضائل اهل بيت عليهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ:ج 2 ص 462 ح 11

 

 

ملاحظہ کریں : 716
آج کے وزٹر : 16098
کل کے وزٹر : 198351
تمام وزٹر کی تعداد : 160239299
تمام وزٹر کی تعداد : 118766723