حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(4) ابوموسىٰ

(4)

ابوموسىٰ

   ابن عبدالبر کہتے ہیں: ابوموسى کا نام و نسب  یوں ہے: عبداللَّه بن قيس بن سليم‏ بن حضارة بن حرب بن عامر بن غنز بن بكر بن عامر بن عذر بن وائل بن ناجية بن ‏جماهر بن اشعر. یہ اعشر وہی نبت بن اددبن زيد بن يشجب بن عريب بن كهلان ‏بن سبأ بن يشجب بن يعرب بن قحطان ہے.ابوموسىٰ اشعرى کی ماں قبيلهٔ عك کی ایک خاتون تھی کہ جو مسلمان ہو گئی اور مدینہ میں ہی فوت ہو گئی.

کیا ابوموسیٰ کا تعلق ان لوگوں سے ہے کہ جنہوں نے حبشہ ہجرت کی یا نہیں کی؟ اس بارے میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل نہیں تھا۔ لیکن وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی قوم کی سرزمین کی طرف واپس چلا گیا اور وہیں مقیم رہا پھر وہ اور قبیلۂ اشعر کا ایک گروہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا، وہ لوگ اسی وقت آئے تھے  کہ جب جعفر بن ابو طالب دو کشتیوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ حبشہ سے آئے تھے  اور سب ایک ساتھ خیبر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے لہذا کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ ابوموسیٰ بھی ضبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھا۔

اور کہا گیا ہے: ابوموسیٰ نے ہرگز حبشہ ہجرت نہیں کی تھی بلکہ اشعریوں کے ایک گروہ کے ساتھ کشتی میں آ رہا تھا لیکن ان کی کشتی کو ہوا اور طوفان حبشہ کی طرف لے گئے اور وہ لوگ جعفر اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ساتھ حبشہ سے نکلے اور چونکہ وہ سب ایک ساتھ پہنچے تھے لہذا کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ حبشہ کے مہاجرین میں سے ہے۔

   ابن عبدالبر کہتے ہیں: پيامبر صلى الله عليه وآله وسلم نے زبید( یمن کا ایک نواحی علاقہ)کی حکومت کے لئے اس کی تقرری کی اور جب عمر نے مغیرہ کو بصرہ سے معزول کیا تو ابوموسیٰ کو اس شہر کی حکومت کے لئے مقرر کر دیا اور خلافت عثمان کے اوائل میں ابتدائی سالوں تک وہ اسی طرح بصرہ کا حاکم رہا یہاں تک کہ عثمان نے اسے معزول کر دیا اور عبداللہ بن عامر بن کریز کو حکومت کے لئے مقرر کر دیا۔ اس وقت ابوموسیٰ کوفہ میں رہنے لگا اور چونکہ کوفہ کے لوگ سعید بن عاص کو پسند نہیں کرتے تھے اور انہوں نے اسے کوفہ سے نکال دیا تھا تو انہوں نے اپنے لئے ابوموسیٰ کو منتخب کر لیا اور پھر انہوں نے عثمان کو خط لکھا اور اس سے تقاضا کیا کہ اسے ہی ان کا حاکم بنا دیا جائے لہذا عثمان نے اسے کوفہ کی حکومت کے لئے مقرر کر دیا۔ جب عثمان قتل ہو گیا تو علی علیہ السلام نے اسے کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا جس کی وجہ سے وہ علی علیہ السلام سے ناراض تھا اور آپ سے عداوت رکھتا تھا، یہاں تک کہ اس نے وہ کام انجام دیا کہ جس کے بارے میں حذيفة بن اليمان وہ بات کہی، اور حذيفه نے ابو موسىٰ ایک روايت بیان کی ہے، اور اس میں ایک ایسی بات ہے کہ جسے میں بیان نہیں کر سکتا ،بحرحال خدا اس کی مغفرت فرمائے.(3051)

ہم (ابن ابی الحدید) یہ کہتے ہیں: ابن عبد البر نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے بیان نہیں کیا وہ بات یہ ہے کہ حذیفہ کے سامنے ابوموسیٰ کے تدین اور دینداری کی بات ہوئی تو حذیفہ نے کہا: تم لوگ یہ کہہ رہے ہو لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دشمن ہے اور وہ اس دنیا اور روز قیامت میں ان کے مد مقابل ہے۔ جس دن ظالموں کو ان کی معذرت اور بہانہ تراشی سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا  اور ان کے لئے لعنت ہو گی۔ حذیفہ منافقین کو جانتے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے مخفی طور پر منافقین کے نام اور ان کے کام بیان فرمائے تھے۔

اور روایت ہوئی ہے کہ ابوموسیٰ کے بارے میں عمار سے سوال کیا گیا تو آپ نے کہا: میں نےحذيفه ‏سے اس کے بارے میں بہت بڑی اور حیرت انگیز بات سنی ہے کہ وہ کہتے ہیں: ابو موسیٰ ان افراد میں سے تھا جو رسول کی جان لینا چاہتے تھے۔

سويد بن غفله کہتے ہیں:میں عثمان کی حکومت کے زمانے میں ابو موسیٰ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا تو اس نے مجھ سے پيامبر صلى الله عليه وآله وسلم کی ایک روایت نقل کیا اور کہا: میں سنا کہ آنحضرت فرما رہے تھے:«بیشک بنى اسرائيل نے ایسا اختلاف پيدا كیا کہ جو اسی طرح جاری ہے یہاں تک کہ دو گمراہ  داور  اور فیصلہ کرنے والے کھڑے ہوئے کہ وہ دونوں اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے گمراہ ہو گئے ۔ میری امت میں بھی ایسا ہی ہو گا کہ دو  داور اور فیصلہ کرنے والے کھڑے ہوں گے اور وہ دونوں گمراہ ہو جائیں گے  اور جو ان کی پیروی کرے وہ اسے بھی گمراہ کر دیں گے۔ سوید کہتے ہیں: میں نے ابوموسیٰ سے کہا کہ تم اس سے بچو کہ کہیں ان دونوں میں سے ایک تم ہی نہ ہو! وہ کہتے ہیں: ابو موسیٰ نے اپنا لباس اتار دیا اور کہا: میں اس کام سے خدا کے حضور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے اپنے پیراہن سے کیا.(3052)


3051) صفحات 659/658/380 الاستيعاب.

3052) جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 400/5.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 836
آج کے وزٹر : 18910
کل کے وزٹر : 212553
تمام وزٹر کی تعداد : 158741149
تمام وزٹر کی تعداد : 117830125