حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) امام حسن‏ عليه السلام کا معاويه کو خط

(1)

امام حسن‏ عليه السلام کا معاويه کو خط

عمر نے مقداد کی بات سنی جو کہہ رہے تھے: ابوبکر کی بیعت اچانک اور ناگہانی تھی، ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی ایسے ہی بیعت کریں۔ اسی وجہ سے وہ اسی خوف سے کہ کہیں لوگ اس کی موت کے بعد اچانک سے علی علیہ السلام کی بیعت نہ کر لیں،وہ اپنی خلافت کے آخر میں کمزور پڑ گیا تھا۔ وہ منی میں خطبہ دینا چاہتا تھا تا کہ لوگوں کو اس بات سے ڈرائے لیکن عبد الرحمن عوف نے اسے اس بات سے روک دیا اور اسے صبر کرنے کی تلقین کی تا کہ وہ مدینہ میں صحابہ کی موجودگی میں یہ خطبہ دے۔

جب عمر مکہ سے گیا تو پہلے جمعہ میں مہاجر و انصار کی موجودگی میں مسجد میں اس بات کی تصریح کی کہ ابوبکر کی بیعت ناگہانی تھی جو اچانک سے واقع ہوئی ، خداوند مسلمانوں کو اس کے شر سے نجات دے اور دوسرا کوئی اس فکر کا نہ ملے اور جو کوئی بھی کسی دوسرے کے لئے ایسا اقدام کرے وہ دونوں موت کے دھانے پر ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ حديث صحيح بخارى(38) میں بھی ذکر ہوئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابوبکر کی بیعت ناگہانی اور اچانک تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ سلاطین اور خلفاء نے کچھ احادیث وضع کیں کہ ابوبکر کی بیعت اتفاق آراء کی بناء پر تھی۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں یہ واقعہ بیان کیا ہے ، معاویہ نے بھی اس خط کا جواب دیا، نیز ابن ابی الحدید نے اسے ابو الفرج سے نقل کیا ہے۔ اور ہم ان دونوں کو نقل کرتے ہیں تا کہ حقیقت تک پہنچ سکیں اور یہ جان سکیں کہ سلاطین نے کس طرح حق کو پامال کیا؟ اور وہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کرتے رہے؟

ابوالفرج کہتے ہیں: «امام حسن ‏عليه السلام نے معاويه کو ایک خط لکھا، اس خط میں بیان ہواہے: «پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے بعد حکومت کے معاملہ میں عرب سے نزاع و اختلاف پیدا ہو، پس قریش نے عرب سے کہا:ہم پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رشتہ دار اور قریبی ہیں لہذا تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ تم حکومت اور حقّ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے بارے میں ہم سے نزاع کرو۔

جب عرب نے یہ دیکھا کہ حق قریش کے ساتھ ہے اور ان کی دلیل قوی ہے تو وہ قریش کے سامنے تسلیم ہو گئے۔

ہم نے بھی اسی دلیل کے ساتھ قریش سے بات کی لیکن قریش نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا اور جب وہی حجت و دلیل ہم نے ان کے لئے بیان کی تو انہوں نے ہم کو دور کر دیا اور انہوں نے ہم پر ظلم کرنے اور ہمارے حق کو پامال کرنے پر اتفاق کیا۔ ان کے ساتھ ہمارا محاکمہ خدا کے نزدیک ہے کیونکہ وہ ہمارا ولی و یاور ہے۔

ہم حیران تھے کہ خلفاء نے ہم پر ظلم کیا ہے اور ہم سے ہمارا حق اور حکومت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھین لی، اگرچہ اسلام میں اس کی فضیلت اور سابقہ تھا! اور ہم دین کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے نزاع کرنے سے گریز کرتے تھے کہ کہیں منافقین اور دوسرے گروہوں کو دین میں شگاف اور دراڑ ڈالنے کا موقع نہ ملے اور ان کی دیرینہ خواہش (دین کی نابودی) پوری نہ ہو جائے۔

لیکن آج اس حکومت تک تمہاری رسائی پہ تعجیب کرنا چاہئے کہ جس کے تم اہل نہیں ہو! تم نہ تو دین میں کوئی فضل و فضیلت رکھتے ہو، نہ اسلام میں تمہارا کوئی سابقہ ہے! بلکہ تم احزاب میں سے ایک حزب کے بیٹے ہو! تم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خدا کے کلام قرآن کے سب سے بڑے دشمن ہو کہ خدا ہی تم سے حساب لے گا! جلد ہی تم  اپنے اعمال کی جزاء دیکھ لو گے! اور خداوند بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔(39).

اس خط کی عبارت پر غور فرمائیں اور فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امام حسن علیہ السلام کی شکایت پر غور کریں۔ اگرچہ انہوں نے امام حسن علیہ السلام کی حکومت کو غصب کر لیا لیکن اس کے باوجود امام علیہ السلام اس سے مبارزہ و جنگ کرنے کی بجائے صرف شکوہ کر رہے ہیں کہ کہیں دین کے دشمن(منافقین اور دوسرے گروہ) دین کو نابود نہ کر دیں۔

میں اس کی وضاحت نہیں کرنا چاہتا کہ اگر امام حسن علیہ السلام دشمنوں سے جنگ کرتے تو کیا ہوتا؟ مؤلّفة القلوب، قریش کے گروہ اور وہ عرب كیا کرتے کہ جن کے دل میں ابھی تک ایمان راسخ نہیں ہوا تھا؟

یہ ابوسفيان تھا کہ جو حضرت على‏ عليه السلام کو خلافت کے تشویق دلا رہا تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کے تصرف میں جو  جمع شدہ اموال و صدقات ہیں ،اگر وہ اسی کے پاس رہنے دیں تو وہ خلیفہ کے سامنے تسلیم ہو جائے گا!

جی ہاں؛ امام على ‏عليه السلام نے ابوسفيان سے فرمایا:

تم اس چیز کے طالب ہو کہ جس کا میں طالب نہیں ہوں!

دشمن حکومت تک پہنچنے کے لئے کسی بھی امر سے دریغ نہیں کرتے تھے، کیا انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی موجودگی میں یہ نہیں کہا تھا کہ: یہ شخص ہذیان بول رہا ہے؟!

کیا انہوں نے یہ نہیں کہا تھا: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت نہیں ہوئی بلکہ وہ واپس آئیں گے اور ان منافقین کے ہاتھ پاؤں تن سے جدا کر دیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فوت ہو چکے ہیں۔

آپ اس بارے میں خود مفصّل حدیث پڑھیں۔

کیا انہوں نے صلح حدیبیہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اعتراض نہیں کیا تھا کہ وہ صلح کے بوجھ تلے دبنا نہیں چاہتے؟ ان لوگوں کو اگر موقع ملتا تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف قیام کرتے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کافر قرار دے دیتے۔ جس طرح نہروان کے مقدسین نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خروج کیا اور انہیں کافر قرار دیا۔

معاویہ نے امام حسن علیہ کو خط کے جواب میں لکھا: تم نے یہ لکھا ہے: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات کے بعد مسلمانوں نے ظلم کیا اور حکومت چھین لی جو تمہارے باپ کا حق تھی۔ پس تم ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حواریوں اور مہاجرین و انصار میں سے صالح افراد سے بدگمان ہو گئے ہو اور میں تمہارے لئے یہ پسند نہیں کرتا کیونکہ تم میرے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک متہم اور لئیم نہیں ہو اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارا نام اچھا ہو!

مسلمان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اور امر امامت میں ان سے اختلاف کے باوجود وہ آپ کے فضل ،سابقہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ کی قربت کا انکار نہیں کرتے۔ امت نے یہ صلاح دیکھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احترام میں خود کو الگ کرے اور یہ قریش کے سپرد کر دے ،اور قریش  کے بزرگوں اور مسلمانوں نے یہ مصلحت سمجھی کہ قریش میں سے اس شخص کو منتخب کیا جائے تو اسلام میں سبقت رکھتا ہو، خدا کے لئے مسلمانوں میں سے اعلم ہو، خدا کو دوست رکھتا ہو اور حکومت کے لئے سب سے زیادہ قوی ہو!!

یہ ان لوگوں کی رائے تھی کہ جو فضل اور دین!! رکھتے تھے پس انہوں نے ابوبکر کو منتخب کیا اور اسی وجہ سے آپ ان سے بدگمان ہو گئے ! حلانکہ وہ متہم نہیں تھے اور انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی ۔

اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ آپ مں کوئی ابوبکر کی مانند بھی ہے کہ جو مسلمانوں کی حفاظت کر سکتا ہے اس کے اردگرد سے شرّ کو دور کر سکتا ہے تو کبھی بھی اس سے رو گرداں نہ ہوتے اور اس پر ابوبکر کو مقدم نہ کرتے ؛ لیکن انہوں نے اس عمل کے لئے اسلام و مسلمین کی صلاح اور بھلائی!! کو مدنظر رکھا اور خداوند انہیں جزاء خیر دے گا!!

پھر وہ لکھتا ہے:آج میری اور تمہاری صورت حال بھی وہی ہے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات ہوئی تھی اور پھر ابوبکر اور آپ کے درمیان اختلاف ہوا تھا۔ اور اگر میں یہ جانتا کہ تم مجھ سے بہتر مسلمانوں کی حفاظت کر سکتے ہو اور تمہاری سیاست بہتر ہے اور تم مجھ سے زیادہ اموال جمع کر سکتے ہو، دشمن کی بہتر انداز میں سرکوبی کر سکتے ہو تو میں تمہارے سامنے تسلیم ہو جاتا لیکن تم یہ جانتے ہو کہ حکومت میں میرا سابقہ زیادہ ہے، میرا تجربہ زیادہ ہے اورمیری عمر بھی تم سے زیادہ ہے، پس تم میرے سامنے تسلیم ہو جاؤ اور میری اطاعت کو قبول کرو اور میرے بعد خلافت تمہارا حق  ہے۔(40).

اب آپ اس خط پر ذرا غور فرمائیں اور دیکھیں کہ معاویہ نے کس انداز میں ابوبکر کے عمل کی تصحیح کی ہے اور اسی دلیل کی بناء پر امام حسن علیہ السلام پر اپنی حکومت کو مسلّم سمجھتا ہے؟

جھوٹے کا منہ کالا! کہاں مسلمان صدر اوّل کے مسلمانوں نے بیٹھ کر مسلمانوں کی مصلحت کو مدنظر رکھا؟

کس طرح کچھ گھنٹے پہلے تو عمر یہ کہہ رہا تھا:پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فوت نہیں ہوئے اور کچھ گھنٹوں کے بعد جب کسی فکر و اندیشہ کے بغیر اچانک سے خلافت ابوبکر کے لئے مہیا ہو گئی تو علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کو زبردستی  گھر سے باہر لے گئے اور انہیں بیعت پر مجبور کیا؟

اب آپ یہ دیکھیں! معاویہ کس طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی صفات (اسلام میں سبقت، خدا کی محبت و دوستی) ابوبکر کو دے رہا ہے؟!

اگر ابوبكر سب سے پہلے خدا کی معرفت رکھتا اور خدا کو دوست رکھتا تو پھر جنگ خيبر سے فرار نہ کرتا اور قتل ہو جاتا اور اس آیت شریفہ «رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ»(41)؛ «مؤمنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھایا»، کا مصداق بنتا نہ کہ وہاں سے فرار کرتا اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم «يحبّ اللَّه ورسوله ويحبّه اللَّه ورسوله»(42) کے ذریعہ ‏امام على ‏عليه السلام کا تعارف کرواتے اور فاتح خیبر قرار پاتے.

ابوبكر نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے زمانے میں اسلام کی کیسی خدمت کی ؟ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور کی جنگوں میں کیا فتح کیا؟ اس نے کفار کے کن بہادروں کو قتل کیا؟ اسلام ی ترقی میں ابوبکر، عمر اور  عثمان نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی کون سی مدد کی ؟!

جی ہاں! اگر وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق پرچم اسامہ کے تحت مدینہ سے چلے جاتے اور آنحضرت کی وفات کے موقع پر نہ ہوتے تو پھر جیسا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چاہتے تھے ویسے ہی ہوتا۔لیکن افسوس کہ ایسے نہ ہوا! البتہ انہوں نے منافقین کی حکومت کے وجود میں آنے اور شہر علم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے در کو بند کرکے اور اس کا راستہ روک کر اسلام اور اس کی ترقی میں خدمات انجام دی ہیں۔

آپ یہ دیکھیں! خدا کا یہ دشمن معاویہ کس طرح امام حسن علیہ السلام کی تکذیب کر رہا ہے؟ اور یہاں تک کہ خود عمر کی بات (ابوبکر کی بیعت فکر و اندیشہ کے بغیر اچانک سے واقع ہوئی اور خداوند مسلمانوں کے شر کو اس سے دور کرے) کی تکذیب کرے۔ اور دوسری طرف وہ کس طرح خلافت کے لئے خود کو امام حسن علیہ السلام سے زیادہ صالح سمجھتا ہے؟!

جی ہاں! جس طرح ابوبکر، حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ صالح تھا اسی طرح معاویہ بھی امام حسن علیہ السلام سے زیادہ صالح ہے!!

معاویہ کا امام حسن علیہ السلام سے زیادہ صالح ہونا تو دور کی بات مجھے نہیں معلوم کہ معاویہ میں ایسی کوئی صلاحیت بھی تھی؟!

معاویہ فسق و فجور، جھوٹ، دھوکہ بازی اور کفر و نفاق کا مجسمہ تھا۔ اس نے امام حسن بن علی علیہما السلام کو شہید کروایا تا کہ اپنے بیٹے یزید کو حکومت تک پہنچا دے!

آپ یہ ملاحظہ کریں کہ کس طرح انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے مسلّم حقائق کو بدل دیا!اور انہوں نے یہ چاہاکہ حق کو مخفی کر دیں اور باطل کو حق کی صورت میں جلوہ گر کریں۔ یہ منافقین کے آثار میں سے ہے۔(43)


38) صحيح بخارى: 257 / 4 و 258. باب رجم الحبلى.

39) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 33 - 34 / 16.

40) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 35 - 36 / 16.

41) سوره احزاب، آيه 23.

42) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 234 / 11 و 186/13 و 24/18.

43) تاريخ أميرالمؤمنين ‏عليه السلام ج 1 ص 335.

 

منبع: کتاب معاويه ج ... ص ...

 

 

 

ملاحظہ کریں : 775
آج کے وزٹر : 132753
کل کے وزٹر : 295444
تمام وزٹر کی تعداد : 157369996
تمام وزٹر کی تعداد : 115389929