حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) جبرائیل کا امام زمانہ ارواحنا فداه کی بیعت کرنا(۱)

(1)

جبرائیل کا امام زمانہ ارواحنا فداه کی بیعت کرنا(۱)

 امام ‏عليه السلام اپنے دست مبارک کو اپنے چہرے پر پھیریں گے اور فرمائیں گے:

 «الْحَمْدُللَّهِ الَّذي صَدَقَنا وَعْدَه وَأوْرَثَنَا الأرْضَ نَتَبَوَّءُ مِن الجَنَّةِ حَيْثُ نَشاءُ فَنِعْمَ أجْرُ العامِلينَ»(212) .

 «تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمارے متعلق اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا اور ہم جہاں چاہیں جنت میں ٹھہریں اور یہ اچھا اجر ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں».

اس کے بعد وہ رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہوں گے اور باآواز بلند کہیں گے:اے میرے خاص مددگارو! اے وہ جن کو خدا نے میرے ظہور سے پہلے ہی ذخیرہ کر لیا ہے ، بڑی خوشی اور چاہت کے ساتھ میری طرف آؤ۔

امام ‏عليه السلام کی آواز مشرق و مغرب میں ان تک پہنچے گی جب کہ ان میں سے کچھ لوگ محراب عبادت میں ہوں گے اور کچھ لوگ بستر پر آرام کر رہے ہوں گےجیسے ہی وہ امام علیہ السلام کی آواز سنیں گے تو پلک جھپکنے سے پہلے امام علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو جائیں گے  اور آپ کے حضور میں پہنچ جائیں گے۔

 اس وقت خداوند متعال آسمان سے زمین کی طرف عموی شکل میں ایک نور ظاہر فرمائے گا۔ اس زمین کے اوپر جو بھی مؤمن رہتا ہے وہ اس نور سے فائدہ حاصل کرے گا اور نور اس کے گھر میں داخل ہو کر نورانیت کرے گا۔ جس سے مؤمنوں کے دل شاد ہوں گے لیکن ابھی تک انہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ ہمارے امام علیہ السلام نے ظہور فرمایا ہے لیکن صبح کے وقت سب کے سب امام علیہ السلام کی خدمت میں کھڑے ہوں گے۔ ان لوگوں کی تعداد جنگ بدر میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے لشکر کی تعداد کے برابر ہو گی۔

 مفضّل کہتے ہیں میں نے عرض كیا: اے میرے آقا!کیا وہ بہتر(۷۲) افراد جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید ہوئے ہیں ،کیا وہ امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ ظاہر ہوں گے؟

آپ نے فرمایا:وہ اس وقت ظہور کریں گے جب امام حسین علیہ السلام اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے شیعوں میں سے بارہ ہزار افراد کے ساتھ واپس آئیں گے اور آنحضرت اس وقت اپنے سر پر سیاہ عمامہ رکھیں گے۔

 مفضّل نے عرض كیا: اے میرے آقا! کيا قائم‏ عليه السلام ان لوگوں کی بيعت کو تبدیل کر دیں گے کہ جنہوں نے امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے دوسروں کی بیعت کی ہو گی۔

 امام‏ عليه السلام نے فرمایا: يا مفضّل، كلّ بيعة قبل ظهور القائم‏ عليه السلام فبيعة كفر ونفاق وخديعة ، لعن اللَّه المبايع لها والمبايع له.

اے مفضل! قائم عليه السلام کے ظہور سے پہلے ہر بیعت کفر و نفاق اور دھوکا ہے ۔خدا بیعت کرنے والے اور بیعت کروانے والے پر لعنت کرے.(213)

 اےمفضّل!جب قائم ‏عليه السلام بيت الحرام کا سہارا لیں گے تو اپنا دست مبارک بلند کریں گے جس سے ایک سفید نور اور روشنی ظاہر ہو گی جسے لوگ دیکھیں گے اور کہیں گے کہ یہ خدا کا طاقتور و توانا ہاتھ ہے جو اس کی طرف سے اس کے حکم کے مطابق بلند ہوا ہے اور پھر آپ اس آیت کی تلاوت فرمائیں گے:

 «إنَّ الَّذينَ يُبايِعُونَك إنَّما يُبايِعُونَ اللَّه يَدُاللَّهِ فَوْقَ أيْديهِم فَمَنْ نَكَثَ فإنَّما يَنْكثُ عَلى نَفْسِه...»(214) .

 «وہ لوگ جنہوں نے تیری بیعت کی ہے درحقیقت انہوں نے خدا کی بیعت کی ہے اور ان کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ ہے پس جس نے اس کی بیعت کو توڑ دیا پس اس نے اپنے نقصان میں اس بیعت کو توڑا ہے » .

سب سے پہلے جو آپ کا ہاتھ چومیں گے اور آُ کی بیعت کریں گے وہ جبرئيل ہیں ، ان کے بعد فرشتہ ، نجباء ،جنّ اور پھر نقباء بيعت کریں گے .

آپ نے حدیث کو جاری رکھا یہان تک کہ فرمایا!جب سورج طلوع کرے گا اور ہر جگہ کو روشن کر دے گا  تو ایک آواز دینے والا سورج کی بلندی سے فصیح عربی زبان میں بلند آواز دے گا جس کی آواز کو تمام اہل آسمان اور زمین سنیں گے اور آواز دینے والا کہے گا :

 اے اہل عالم! یہ مهدى آل محمد عليهم السلام ہیں اور پھر آنحضرت کے نام کنیت اور نسب کو مکمل طور پر بیان کرنے کے بعد کہے گا۔ اب ان کی پیروی کرو تا کہ ہدایت پا سکو اور ان کے احکام کی مخالفت نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔

سب سے پہلے جو گروہ اس آواز پر لبیک کہے گا وہ فرشتہ ہوں گے ،پھر جن،اور اس کے بعد نقباء ہوں گے جو کہیں گے: ہم نے سن لیا ہے پس ہم اطاعت کریں گے ۔ان میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کی طرف رخ کرے گا اور اسے بتائے گا اور جو کچھ سنا ہے دوسروں کو اس سے مطلع کرے گا۔

غروب آفتاب کے نزدیک ایک منادی نداء دے گا اور کہے گا۔اے لوگو! فلسطین کی خشک اور بیابان زمین میں تمہارے خدا نے ظہور کیاہے اور وہ عثمان بن عنبسہ ہے جو یزید بن معاویہ کی اولاد میں سے ہے ۔اس کی پیروی کرو تا کہ ہدایت پا سکو۔ اس کی مخالفت نہ کرو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے  فرشتہ ،جن اور نقباء اس کی بات کو رد کر دیں گے اور اسے جھوٹا قرار دیں گے اور اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہم مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اہل شک و تردید ہوں گے اور منافق و کافر ہوں گے وہ اس آواز کو سننتے ہی گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔

آپ نے حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:اس سوقت دابّة الأرض (روايات کے مطابق اس سے امیر المؤمنین علیہ السلام مراد ہیں) ركن و مقام کے درمیان ظاہر ہوں گے جو اہل ایمان کے چہرے پر مؤمن کی اور کافروں کے چہرے پر کفر کی علامت لگائیں گے۔ اس کے بعد امام صادق علیہ السلام لشکر سفیانی کے خروج، اس کا سر زمین بیداء میں دھنس جانے کا قصہ، اور حضرت قائم علیہ السلام کے کچھ دوسرے احوال بیان کرتے ہیں جو حضرت کے ظہور کے وقت مکہ میں رونما ہوں گے.

 مفضّل نے عرض كیا: اے میرے آقا! پھر مہدی کہاں جائیں گے؟

فرمایا: اپنے جد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے پاس مدینہ جائیں گے اور جب وہاں داخل ہوں گے تو ایک اہم کام اور عجیب مأموریت انجام دیں گے جو مؤمنین کے لئے خوشی اور کافروں کے لئے رسوائی کا باعث بنے گی۔

 مفضّل نے عرض كیا: اے میرے آقا!وہ عجیب مأموريّت کیا ہے؟

فرمایا: اپنے جد کی قبر کے پاس آئیں گے اور فرمائیں گے: اے لوگو! کیا میرے جدّ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی قبر یہی ہے؟ لوگ کہیں گے: جی ہاں! اے مہدى آل محمّد یہی ہے۔فرمائیں گے: اس قبر کے ساتھ کون کون دفن ہیں؟ کہیں گے: رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے دو ساتھی ابوبكر اور عمر(215) دفن ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور یہاں دفن نہیں ہے.

 امام‏ عليه السلام حکم دیں گے انہیں قبر سے نکالو اور ایک خشک اور بوسیدہ درخت کے ساتھ لٹکا دو۔ جب لوگ ایسا کریں گے تو وہ درخت فورا! سرسبز ہو جائے اور اس کی شاخیں اور پتے نکل آئیں گے۔ یہ سب دیکھ کر ان دونوں کے دوست کہیں گے: خدا کی قسم یہ واقعاً شرافت ہے  اور ہم ان دونوں کی محبت و ولایت میں کامیاب ہو گئے۔

پھر امام مہدی کی طرف سے ندا دینے والا بلند آواز سے کہے گا:

 كلّ من أحبّ فلاناً وفلاناً فلينفرد جانباً ، فينقسم الخلق جزئين فيعرض المهديّ‏ عليه السلام على أوليائهما البراءة منهما فلايقبلون فيأمر المهديّ ‏عليه السلام ريحاً سوداء فتهبّ عليهم فتجعلهم كأعجاز نخل خاوية.

جو  لوگ ان دونوں کو دوست رکھتے ہیں وہ لوگوں میں سے الگ ہو کر ایک طرف کھڑے ہو جائیں۔ جب لوگ الگ ہو جائیں گے تو مہدی علیہ السلام انہیں حکم دیں کہ ان دونوں سے برأت و بیزاری کا اظہار کریں لیکن وہ یہ قبول نہیں کریں گے۔ پس امام علیہ السلام حکم دیں گےاور ان پر تیز سیاہ ہوا چلے گی اور انہیں کجھور کے سوکھے ہوئے درخت کی شاخوں کی طرح خاک پر دے مارے گی اور انہیں نیست و نابود کر دے گی۔

 پھر آپ فرمائیں گے: ان دونوں کو نیچے اتارو اور حکم خدا سے انہیں زندہ کیا جائے گا اور امام حکم دیں گے کہ سب لوگ جمع ہو جائیں اور ان کی موجودگی میں ان دونوں کے برے اعمال کا پردہ فاش کیا جائے گا اور ان کے ظلم و ستم کو بیان کیا جائے گا اور وہ دونوں بھی اعتراف کریں گے اور پھر امام علیہ السلام حاضرین کو حکم دیں گے کہ اگر کوئی ان دونوں کے ظلم کا شکار رہا ہے تو وہ قصاص لے۔ اور اس  کے بعد پھر ان دونوں کو اسی درخت سے لٹکا دیا جائے گا اور آپ آگ کو حکم دیں گے کہ زمین سے باہر نکل اور ان دونوں  کو درخت سمیت جلا دے اور پھر ہوا کو حکم دیں کہ ان کی پراکندہ راکھ کو اٹھا کر دریا میں پھینک دے۔

 مفضّل نے عرض كیا:اے میرے آقا!کیا یہ ان کے لئے آخری عذاب ہے؟

فرمایا : هيهات، نہیں !کہاں یہ آخری عذاب ہے؟ خدا کی قسم! انہیں پلٹا جائے گا اسی طرح خالص ایمان رکھنے والوے مؤمنوں اور کفر محض رکھنے والے کافروں کو بھی پلٹایا جائے گا اور سرور کائنات رسول خدا حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم ، صديق اكبر اميرالمؤمنين عليه السلام ، حضرت فاطمه علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام ، امام حسين علیہ السلام اور بقيّه ائمه اطهار عليهم السلام بھی حاضر ہوں گے اور ان دونوں سے ان کے کئے گئے ظلم کا قصاص لیں گے ہر دن اور رات میں انہیں ہزار بار قتل کیا جائے گا اور ہر بار وہ امر خدا سے پھر زندہ ہو جائیں گے اور پہلی صورت میں پلٹ جائیں گے اور جب تک خدا چاہے گا یہ عمل تکرار ہوتا رہے گا۔

 پھر مهدى‏ عليه السلام كوفه کی طرف روانہ ہوں گے اور کوفہ و نجف کے درمیان نازل ہوں گے ۔ اس دن آپ کے ساتھی چھیالیس ہزار فرشتے ہوں گے اور اسی مقدار میں جن اور آپ کے تین سو تیرہ نقیب بھی ہوں گے۔

پھر امام علیہ السلما نے بغداد کے خراب ہونے اور وہاں کے لئے خدا کی طرف سے مورد لعنت قرار پانے کے متعلق گفتگو کی اور فرمایا:

خدا کی قسم! اوّل سے لے کر دنیا کے آخر تک ظالم امتوں پر جتنے عذاب نازل ہوئے ہیں ،سب کے سب بغداد پر نازل ہوں گے اور عذاب کا وہ طوفان جو ہر طرف سے ان پر آئے گا سوائے تلوا اور اسلحہ کی طاقت کے اور کچھ نہیں ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو اس وقت وہاں سکونت اختیار کریں۔

اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے تفصیل سے سید حسنی کے واقعہ کو بیان فرمایا۔ اس واقعہ کے آخر میں مفضل نے آپ سے سوال کیا:اے میرے آقا!اس کے بعد حضرت امام مہدی کیا کریں گے؟

امام صادق ‏عليه السلام نے فرمایا:سفیانی کو گرفتار کرنے کے بعد ایک لشکر دمشق کی طرف روانہ کریں گے ،وہ اسے پکڑ کر سخت پتھر پر کھینچیں گے۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام اپنے بارہ ہزار دوستوں اور آپ کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے بہتر(۷۲) بزرگواروں کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔اور یہ کیسی واضح و روشن اور نورانی رجعت ہو گی۔

اس کے بعد صديق اكبر اميرالمؤمنین حضرت على بن ابى‏طالب‏ عليہما السلام خروج فرمائیں گےاور حضرت کے لئے نجف میں ایک قبہ اور بارگاہ بنائیں گے  جس کے چار ستوں ہوں گے ،ایک نجف میں، ایک حجر اسماعیل میں، ایک صفا و یمن میں اور ایک مدينه طيّبه میں ہو گا۔گویا میں اس قبہ کے چراغوں کو دیکھ رہا ہوں،سورج اور چاند کی طرح آسمان و زمین پر چمکتے ہوں گے۔ اس وقت- «تُبْلَى السَّرائِرُ»(216) - «ان کے باطن آشکار ہو جائیں گے»، اور -«تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمّا أرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذاتِ حَمْلٍ حَمْلَها...»(217) - «ہر دودھ پلانے والی اپنے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی» .

پھر  سرور کائنات حضرت محمّد صلى الله عليه وآله وسلم مہاجرین و انصار اور ان تمام لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوں گے جو آپ کے ساتھ ایمان لائے ہوں گے،ان کی بات کی تصدیق ہو گی اور ان  کے راستے میں شہید ہونے والے ظاہر ہوں گے ۔اس  کے بعد ان لوگوں کو حاضر کیا جائے گا جنہوں نے آپ جھٹلایا،آپ سے بے اعتنائی کی، آپ کی بات کو ردّ کیا، آپ کو برا بھلا کہا اور آپ کے ساتھ جنگ کرتے رہے... ۔

یہ حدیث بہت طولانی ہے یہاں اسے ای مقدار میں ذکر کرنا کافی ہے.(218)

مؤلّف ‏رحمه الله فرماتے ہیں:اس حدیث میں ذکر ہونے والا یہ جملہ  كه «انہیں کوئی نہ دیکھے گا ،یہاں تک کہ تمام آنکھیں ان کو دیکھیں گی »اور آنحضرت کی توقیع شریف میں یہ جملہ «جو کوئی بھی میرے دیکھنے کا دعویٰ کرے اس کی تکذیب کرو» اس کی وضاحت میں یہ کہنا چاہئے:جب کوئی شخص امام کی نیابت اور آپ کی طرف سے شیعوں تک خبر پہنچانے کا دعویٰ کرے کہ جس طرح آنحضرت کے نواب خاص تھے۔ یا یہ دعویٰ کرے کہ وہ انہیں دیکھتا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح پہچانتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ حضرت مہدی علیہ السلام ہیں ، اور یا یہ اس زمانے سے مربوط ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے خوف و وحشت ہو۔

ہم نے یہ جو احتمالات ذکر کئے ہیں ان کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو کافی میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

 للقائم غيبتان: إحداهما قصيرة والاُخرى طويلة. الغيبة الاُولى لايعلم بمكانه فيها إلّا خاصّة شيعة، والاُخرى لايعلم بمكانه فيها إلّا خاصّة مواليه.(219)

قائم (صلوات اللَّه عليه) کی دو غيبتیں ہیں،ایک غیبت کی مدت کم ہے اور دوسری کی مدت طولانی ہے ۔پہلی غیبت میں خاص شیعوں کے سوا ان کے مکان اور جگی کو کوئی اور نہیں جانتا اور دوسری غبیت میں ان کے مکان و جگہ کو ان کے موالیوں کے سوا کوئی نہیں جانتا.


212) سوره زمر ، آيه 74.

213) کسی کی بيعت كرنا اس کے ساتھ  عهد و پيمان کرنا ہے یعنی بیعت کرنے والا اپنی پوری توانائی ان کی خدمت میں صرف کرے اور ان کی راہ میں جان و مال قرابان کرنے میں دریغ نہ کرے. بیعت اور اس کے احکام کے بارے میں مزید جاننے کے لئے كتاب شريف مكيال المكارم: 262/2 کے چونتیسویں امر کی طرف رجوع فرمائیں۔

214) سوره فتح ، آيه 10.

215) یہ مطلب مصدر بطور مفصّل بيان ہوا ہے اور مؤلّف رحمه الله نے اسے بطور مختصر ذکر کیا ہے۔

216) سوره طارق ، آيه 9.

217) سوره حجّ ، آيه 2.

218) مختصر بصائر الدرجات: 190 - 179، بحار الأنوار : 16 - 1/53.

219) الكافى : 340/1 ح 19، بحار الأنوار : 155/52 ح 11، الوافى : 414/2 ح 14، إلزام الناصب: 269/1، غيبة نعمانى : 170 ح2، إثبات الهداة: 534/3 ح 475.

جیسا كه مؤلّف محترم رحمه الله نے فرمایا ہے: رؤيت امام ‏عليه السلام کو بطور مطلق رد نہیں کر سکتے اور اس کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ آںحضرت کی غیبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ زمانۂ غیبت میں آپ صرف ایک خیالی اور رؤيايى وجود ہیں یا آپ کسی کنویں میں چھپ گئے ہیں یا آپ کے ساتھ کسی کا کوئی رابطہ نہیں ہے بلکہ غیبت سے یہ مراد ہے کہ امام علیہ السلام ہماری نظروں سے اس طرح سے پوشیدہ ہیں کہ جیسے ہم انہیں نہیں پہچانتے۔

امام زمانہ عجل الہ فرجہ الشریف اس زمین پر زندگی بسر کر رہے ہیں، اور لوگوں میں آپ کی رفت و آمد ہے ، آپ بازار میں جاتے ہیں ،مقامات مقدسہ اور اپنے اجداد طاہرین علیہم السلام کے روضۂ مطہر میں حاضر ہوتے ہیں۔ اپنے دوستوں کی بعض مجالس میں تشریف لے کر جاتے ہیں اور ان کے فرش پر قدم رکھتے ہیں اور ہر سال حج کے مراسم میں شریک ہوتے ہیں۔ مضطر و پریشان حال اور بے چاروں کی دستگیری فرماتے ہیں، سرگرداں اور بھٹکے ہوئے افراد کی رہنمائی کرتے ہیں، وہ سب کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھتے اور نہیں پہچانتے ۔ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی پیغمبر کے فرزند ہونے کے باوجود حضرت یوسف سے گفتگو اور لین دین کرتے تھے لیکن انہیں پہچانتے نہیں تھے یہاں تک کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خون ان سے اپنا تعارف کروایا۔

حاصل كلام یہ ہے كه رؤيت امام ‏عليه السلام ایک ممكن امر ہے اور یہ آںحضرت کی غیبت کے ساتھ کسی طرح سے بھی منافات نہیں رکھتا ۔یہ رؤيت ہے لیکن اس میں امام علیہ السلام کو پہچانا نہیں جاتا۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں جب چاہوں امام زمانہ علیہ السلام کو دیکھ سکتا ہوں اور آپ کو بخوبی پہچان سکتا ہوں۔ نقل ہونے والے معتبر تشرّفات میں آپ کو یا تو کسی قرینہ کی قجہ سے پہچانا گیا جیسے ایسی کرامات اور معجزہ کہ جو امام معصوم کے علاوہ کسی سے صادر نہیں ہو سکتا اور تشرف کے بعد خود سے یہ کہا کہ وہ حتمی طور پر امام عصر (ارواحنا فداه) تھے ، يا امام علیہ السلام نے خود اپنا تعارف کروایا ہے جیسے علاّمه حلى رحمه الله کا واقعہ كه جب اس انجان شخص سے پوچھا:کيا غيبت كبرىٰ کے زمانے میں حضرت صاحب الأمر (ارواحنا فداه) کو دیکھ سکتے ہیں؟ جواب میں فرمایا: کس طرح انہیں دیکھ دیکھ سکتے جب کہ ان کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے ؟

 

منبع: کتاب فضائل اهل بیت علیهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک  ناچیز  قطرہ :ج 1 ص 802

 

 

 

ملاحظہ کریں : 772
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 141243
تمام وزٹر کی تعداد : 158985779
تمام وزٹر کی تعداد : 117952460