حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(4) آل بويه؛ عاشورا: غدير اور معاويه پر لعنت

(4)

آل بويه؛ عاشورا: غدير اور معاويه پر لعنت

جب سے اس خاندان کو عراق اور ایران میں قدرت و  طاقت ملی تب سے  ان کے زیر تسلط علاقوں میں ان کے اقدامات کی وجہ سے شیعیت پھیلی اور یہ امر ان کے شیعہ ہونے کی حکایت کرتا ہے۔

ان کے اقدامات میں سے شیعوں کے ایسے مذہبی شعائر کو دوبارہ زندہ کرنا تھا کہ جنہیں شیعہ یا تو انجام نہیں دے سکتے تھے یا پھر مخفیانہ طور پر اور بہت چھوٹے پیمانے پر انجام دیتے تھے اور عام طور پر ان کو انجام دینے سے جنگ و خونریزی بھی ہوتی تھی۔

شیعوں کا سب سے اہم مذہبی شعائر ’’کہ عبّاسى خلفاء اور بالخصوص متوكّل شدت سے جس کی مخالفت کرتے اور اس کے خلاف برسرپیکار رہتے‘‘ (1795)،   عاشورا  کے دن عزاداری کا انعقاد  کرنا تھا۔ معزّ الدوله کے حکم پر سنہ 352 ہجری میں سرکاری طور پر (1796) عزاداری کا انعقاد کیا جانے لگا اور بغداد میں عباسی خلافت کے مرکز میں بھی اس کا سلسلہ آل بويه کی حکومت کے خاتمہ تک جاری رہا(448 ہجری).ان دنوں میں بازار بند رہتے اور شیعہ ایک ساتھ مل کر عزاداری کرتے تھے.(1797)

عزاداری کی ان مراسم میں شیعہ اس طرح سے شریک ہوتے تھے کہ ابن اثیر اور ابن کثیر کی تعبیر کے مطابق شیعوں کی کثرت اور سلطان (معزّ الدولہ) کی حمایت کی وجہ سے بغداد کے اہلسنت اسے روک نہیں سکتے تھے۔(1798)

اس کے باوجود بھی بغداد کے متعصب سنیوں کے ہوتے ہوئے عزداری کی یہ مراسم ہمیشہ امن و سکون سے انجام نہیں پاتی تھی بلکہ کبھی حنبلی مذہب سے تعلق رکھنے والے محلّه باب البصره اور محلّه نهر قلابتى کے سنی شیعوں پر حملہ کرتے تھے۔(1799)

اسی مذہبی تنازع کی وجہ سے سنہ ۴۱۶ ہجری میں محلّه كرْخ میں سید مرتضی اور سنہ ۴۴۸ ہجری میں شیخ طوسی کے گھر کو نذر آتش کر دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی تمام کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں اور شیخ مجبور ہو کر نجف اشرف ہجرت کر گئے۔(1800)

شدید اختلافات کا باعث بننے والی دیگر مراسم میں معزالدولہ کے حکم پر سنہ ۳۵۲ ہجری میں عید غدیر(۱۸ ذی الحجہ) کے جشن کا انعقاد تھا(1801)

ان دو مراسم کی وجہ سے بغداد میں اہلسنت نے بھی شیعوں کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ بھی روز عاشورا  اور عید غدیر کی مانند مراسم کا انعقاد کریں۔ لہذا انہوں نے عاشورا کے مقابلہ میں مصعب بن زبیر کے مزار پر اٹھارہ محرم الحرام کو  مسکنن میں عزداری منعقد کی جو کہ اس کے قتل کا دن تھا اور عید غدیر کے مقابلہ میں چھبیس ذی الحجہ کو ‘‘روز غار ‘‘ کے مناسبت سے جشن کا انعقاد کیا!(1802)

* * *

ان کے دیگر اقدامات میں سے ایک یہ تھاکہ سنہ ۳۵۱ ہجری میں معزّ الدولہ کے حکم پر بغداد کی مساجد میں شیعہ شعائر لکھے گئے (جو بخوبی ان کے شیعہ ہونے کی حکایت کرتے ہیں) ان شعائر میں سے ایک یہ تھا:

   لعن اللَّه معاوية بن ابى سفيان، ولعن من غصب فاطمه (عليها السلام) فدكاً، ومن منع أن يدفن‏ الحسن (عليه السلام) عند قبر جدّه، ومن نفى أباذر الغفارى ومن أخرج العبّاس من الشورى.(1803)

ان شعائر میں آخری جملہ کے علاوہ(جو عباسی خلیفہ کا دل جیتنے کے لئے لکھا گیا تھا) تمام شعائر میں اہلسنت کی مخالفت واضح تھی اسی لئے زیادہ وقت نہیں گزارا تھا کہ ان شعائر کو مٹا دیا گیا اور جب معزّالدولہ نے ان جملوں کو دوبارہ لکھنے کا حکم دیناچاہا تو ان کے وزیر مہلبی کے انہیں اس کام سے روکا اور پھر یہ جملہ «لعن اللَّه الظالمين لآل رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم من الأوّلين والآخرين» لکھنے پر اکتفاء کیا گیا اور صرف معاویہ پر لعنت کرنے کی تصریح کی گئی .(1804)

 اس کی بھی یہ وجہ تھی کہ معاویہ پر صرف شیعہ لعنت نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے منبروں سے اس پر لعنت کی جاتی تھی. مأمون، معتز اور معتضد ان لوگوں میں سے تھے جو منبروں سے معاویہ پر لعنت کرتے تھے (1805)

اسی طرح سنہ 321 ہجری میں علىّ بن تلبق (دربار خليفه میں ترک امیر) اور اس کے كاتب حسن بن هارون نے اس کام کا اقدام کیا تھا.(1806)

 شیعہ مذہب کا سب سے واضح شعائر «أشهد أنّ عليّاً ولىّ اللَّه» اور «حيّ‏ على خير العمل» ہے جسے آل بويه نے اپنی حکومت کے اختتام تک اذان میں زندہ رکھا.(1807)

سنہ  448 ہجری (يعنى جب طغرل ‏بيك سلجوقى بغداد میں داخل ہوا اور اس نے آل ‏بويه کی حکومت کا خاتمہ کیا) سے شاه اسماعيل صفوى کے زمانے تک 528 سال تک بلاد السلام(اسلامی شہر) میں اذان میں سے ان جملوں کو نکال دیا گیا اور پھر شاه اسماعيل صفوى کے حکم  پر ایران میں اذان کے دوران یہ دو جملے کہے جانے لگے۔ (1808).(1809)

 


1795) المنتظم... :  237/11.

1796) ذهبى کہتے ہیں: «وهذا أوّل يوم نيح عليه بغداد»؛ تاريخ اسلام ووفيات المشاهير والأعلام: 11 حوادث سال‏هاى380 - 351 ہجری.

1797) المنتظم...: 150/14.

1798) الكامل في التاريخ: 279/7، البداية والنهاية: 259/11.

1799) المنتظم...: 84 75/14 و 109.

1800) المنتظم...: 171/15 و ج: 58/16، البداية والنهاية: 73/12 سلجوقی ترکوں کے اقتدار پر آنے اور طغرل بیک کے وزیر عميد الملك كُنْدُرى کے شدیدی تعصب کی وجہ سے مذہبی نزاع و اختلافات میں شدت آگئی۔

1801) المنتظم...: 151/14.

1802) المنتظم...: 14/15. یہ واضح ہے کہ روز غار رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی مكّه سے مدينه کی طرف ہجرت کرنے اور غار ثور  میں جانے کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں ابوبکر بھی آپ کے ہمراہ تھا۔یہ واقعہ ربيع الأوّل کے مہینہ میں پیش آیا تھا اور اس کا 26 ذى الحجّه سے کوئی ربط نہیں ہے۔لیکن تواتر کے برخلاف صرف  اندھے مذہنی تعصبات کی بناء پر  اٹھارہ ذی الحجہ (عید غدیر) سے مقابلہ کے لئے انہوں نے جشن منانے کے لئے اس دن کا انتخاب کیا.

1803) المختصر في اخبار البشر: 104/2، الكامل في التاريخ: 257/7.

1804) المنتظم...: 140/14.

1805) تاريخ الاُمم والملوك: 183 - 182/8.

1806) تجارب الاُمم: 260/5.

1807) نشوار المحاضرة وأخبار المذاكرة: 33/2، البداية والنهاية: 287/11 و ج: 73/12، السيرة الحلبية...: 305/1، براى ‏اطّلاع بيشتر ر.ك: الصحيح من سيرة النبي الأعظم ‏صلى الله عليه وآله وسلم: 277/4 به بعد.

1808) احسن التواريخ: 61/2. شاه اسماعيل کی سلطنت کا آغاز سنہ 907 ہجری میں ہوا تھا اور یوں طغرل سے شاه اسماعيل تک کا فاصلہ 459 سال بنتا ہے.

1809) تاريخ تشيّع: 57/2.

 

منبع: معاويه ج ...  ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 684
آج کے وزٹر : 61002
کل کے وزٹر : 301789
تمام وزٹر کی تعداد : 145647473
تمام وزٹر کی تعداد : 100180949