حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(11) حضرت عباس‏ عليه السلام باب المراد امام حسين ‏عليه السلام

(11)

حضرت عباس‏ عليه السلام باب المراد امام حسين ‏عليه السلام

بيت اللَّه الحرام میں مقام مُستَجار ہے اور یہ مقام ایک دروازہ پر واقع ہے جو بیت کی عمارت کے شروع میں ہے اور اب موجودہ دروازہ کے مقابل میں ہے کہ جسے بعد میں بند کر دیا گیا۔ اس مقام پر دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور یہ خدا کی طرف سے بندوں کے لئے جائے امان ہے ۔ اسی طرح حائر حسینیہ ( جو حرم اعظم اور بیت معنوی ربّ العالمین ہے) میں بھی ایک مستجار ہے جہاں دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور جو مضطر لوگوں کے لئے جاب الحوائج ہے۔ اور یہ  مستجار باب ‏الحوائج جناب عبّاس ‏عليه السلام کی ذات ہے۔ آپ کے  فضايل و كرامات اس قدر زياده ہیں کہ جنہیں  هزاروں کتابوں میں لکھا جائے تو پھر بھی وہ عُشرى(783) از اعشار(784) کے مترادف ہو گا۔ خلاّق احديّت کے حضور آپ کا مقام و مرتبہ ایسا ہے کہ روز قیامت اوّلین و آخرین میں سے شہداء آپ کے مقام و مرتبہ پر رشک کریں گے چنانچہ امام سجّاد عليه السلام فرماتے ہیں: «إنَّ لِلعَبّاسِ (عِندَاللَّهِ تَبارَكَ ‏وَتَعالى) في يَومِ القِيامةِ منزلة(785) يَغْبِطُه (بِها) جَميعُ الشُّهَداء» خدائے تبارک و تعالی کی بارگاہ میں حضرت عباس کو ایسا مقام حاصل ہے کہ جس پر تمام شہداء رشک کریں گے۔(786). جناب عبّاس ‏عليه السلام کا باب ‏المراد ہونا ایسا  رتبہ ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور جو بھی آپ کے آستانۂ مقدسہ پر آ کرکوئی حاجت طلب کرے (چاہے وہ دوست ہو یا دشمن) تو وہ ناامید واپس نہیں جاتا ۔ آپ اسی مقام و منزلت کے حقدار تھے کیونکہ روز عاشورا خدا کی رضا کے حصول کے لئے سید مظلومان حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں ایسی جوانمردی اور فتوّت کا مظاہرہ کیا کہ کائنات میں جس سے بڑھ کر امکان نہیں تھا ۔ اسی لئے آپ کی شہادت کے وقت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: «الآن ‏اِنْكَسَرَ ظَهري وقَلَّتْ حيلَتي وانْقَطعَ رَجائي واضَيْعَتاهُ بَعدَكَ يا أخي»(787)؛ امام حسین علیہ السلام نے تمام شہداء میں سے کسی کے حق میں یہ جملہ بیان نہیں فرمایا.

شعر:

أحَقُّ النّاسِ أنْ يُبكى عَلَيهِ

فَتىً أبْكَى الحُسَينَ‏ عليه السلام بِكَربَلاءٍ

أخوهُ وَابْنُ والِدِهِ عَليّ‏ عليه السلام

أبوالفضلِ الْمُضرَّجُ بِالدِّماءِ

وَمَنْ واساهُ لا يَثنيهِ شَي‏ءٌ

وَجادَ لَهُ عَلى عَطَشٍ بِماءٍ(788)

يعنى(789)

ان کی مصیبت میں سب سے زیادہ گریہ کا حق دار وہ جوان ہے کہ جس کے لئے امام حسین علیہ السلام بھی صحرائے کربلا میں روئے۔

وہ جوانمرد، ان کا بھائی اور ان کے باباعلی علیہ السلام کا فرزند رشيد ہے اور ان کی کنیت ابوالفضل ہے كه جواپنے بھائی کی محبت میں اپنے خون میں ڈوب گئے۔

یہ وہ جوان تھا جس نے اپنے بھائی کے لئے اپنی جان مواسات(790) کی اور کوئی چیز بھی انہیں کافروں کو  قتل کرنے سے نہ روک سکی اور وہ اپنے بھائی کے سامنے شریر گروہ سے برسرپیکار رہے اور پانی کے باوجود تشنہ رہے.(791)


783) عُشْر: دسواں حصہ.

784) اَعْشار: جمع عُشْر، يعنى دسواں حصہ.

785) متن کی عبارت «درجة».

786) امالى صدوق: 463 س 70 ضمن ح 10؛ خصال: 68 / 1 ضمن ح 101؛ بحارالانوار: 274 / 22 ب 5 ضمن ح 21 و 298/ 44 ب 35 ضمن ح 4؛ اسرار الشهادة: 337.

787) به طور مختصر بحارالانوار: 42 / 45 بقيه باب 37؛ العوالم: 285؛ اسرار الشهادة: 337.

788) لهوف: 118.

789) شعر کے ہر بیت کے آخر میں ترجمہ ذکر ہوا تھا کہ جسے اس صورت میں تبدیل کر دیا گیا.

790) مُواسات: یعنی قوت و مال میں دوستوں، ساتھیوں اور مستحقین کی معاونت کرنا۔

791) حديث كعبه و كربلا: 88.

 

منبع: الصحیفة الحسینیة الجامعة ص 161

 

ملاحظہ کریں : 733
آج کے وزٹر : 5772
کل کے وزٹر : 212553
تمام وزٹر کی تعداد : 158714881
تمام وزٹر کی تعداد : 117816987