حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) کيا معاويه كاتب وحى تھا

(1)

کيا معاويه كاتب وحى تھا

مؤرخین کی اكثريّت قائل ہے كه معاويه كاتب وحى نہیں تھا اور کاتبان وحی میں حضرت علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام ، زيد بن ثابت  اور زيد بن ارقم شامل تھے لیکن معاوية بن ابى سفيان ‏اور حنظلة بن ربيع ميثمى پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے خطوط مختلف بادشاہوں اور عرب کے قبیلوں تک پہنچاتے تھے۔ اور وہ خطوط لکھتے تھے۔

روایات کے اسی اختلاف کی وجہ سے بنی امیہ کے محب معاویہ کے لئے فضیلت کے قائل ہو گئے اور انہوں نے روایات میں تصرف کیا۔

جی ہاں! معاویہ چاہے کاتب وحی ہو یا خطوط و مراسلات کا کاتب ہو، دونوں صورتوں میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جس کی  خاندان بنی ہاشم  سے دشمنی اور اس کے ماں باپ اور بھائیوں کی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دشمنی مشہور و معروف ہے۔

جنگ بدر میں حنظلة بن ابى سفيان قتل ہو گیا اور اس کا دوسرا بھائی عمرو اسی غزوه میں ‏اسير ہو گیا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس خاندان کے تمام افراد (چاہے وہ عورتیں ہو یا مرد)، نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم‏ کے خلاف قيام كیا۔ اس کی ماں هندہ  جنگ احد میں مشركين کے ساتھ تھی اور وہ دف اور طنبور بجا کر جنگ کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی اور جب پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے چچا جناب حمزہ شہید ہو گئے تو اس نے انہیں مثله كیا اور ان کا جگر نکال کر چبایا اس دن سے اسے هندہ جگرخور کہا جاتاہے. اس کی پھوپھی امّ جميل؛ ابولهب کی بیٹی تھی جسے قرآن كريم  نے «حمّالة الحطب» کہا ہے۔ جہاں تک ہو سکا اس نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کو اذيّت اور تکلیف پہنچائی۔

معاویہ کا بقول اس کا باپ اسلام کے مقابلہ میں کفر کا قائد تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا اور وہ عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتا تھا: «... فجحدته ‏قريش أشد الجحود وأنكرته أشد الإنكار وجاهدته أشدّ الجهاد ألا إنّ عصم اللَّه من ‏قرى فما ساد قريشاً وقادهم إلاّ أبوسفيان بن حرب فكانت الفئتان تلتقى ورئيس ‏الهدى منّا ورئيس الضلالة منّا...»کہتا تھا:قریش شدت سے ان کے (محمّد صلى الله عليه وآله وسلم)منکر تھے اور سن سے شدید جنگ کی یہاں تک کہ قریش کو بازداشت اور اس میدان میں ابوسفیان بن حرب کے سوا کوئی بھی قریش کا پیشوا نہیں تھا اور طرفین رو برو ہوتے تھے جب کہ ایمان و کفر کے سربراہ دونوں ہم میں سے تھے۔

معاويه اسی فخر و مباہات پر قانع تھا کہ اس کا باپ محمّد صلى الله عليه وآله وسلم (جو ايمان‏ کے نمائندہ تھے) کے مقابلہ میں کھڑا تھا جو كفر و ضلالت کا نمائندہ تھا۔

اور اگر پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم صلح حديبيّه کے عہد کی تجديد کرتے یا قریش اس پر تعرض کرنے سے بچے رہتے تو کیا معلوم کہ کفر و ضلالت کا یہ نمائندہ کب تک اس طرف رہتا؟لیکن خدا یہ چاہتا تھا کہ کفر کا پرچم سرنگوں ہو اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم مكّه میں داخل ہوں اور اس شہر کو فتح کریں۔ اگر قریش اور کفر کا نمائندہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم سے پہلے مكّه پہنچ جاتا تو وہ قطعی طور پر مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا لیکن پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ خانۂ خدا میں جنگ ہو کہ جہاں جنگ اور خونریزی حرام ہے اور آنحضرت یہ نہیں چاہتے تھے قریش کو آپ کی روانگی کا علم ہو۔ اس بناء پر آپ نے مدینہ و مکہ کے راستہ کو بند کر دیا اور لشکر اسلام روانہ ہوا۔

اس بناء پر مدینہ و مکہ کو بند کر دیا گیا اور وہ خود سپاہ اسلام کے ساتھ  روانہ ہو گیا اور مکہ کے راستہ میں ہی ابوسفیان سپاہ اسلام سے روبرو ہوا جب کہ وہ یہ جانتا تھا کہ یہ لشکر کس کا ہے۔(536)


536) زندگانى حضرت على‏ عليه السلام اميرالمؤمنين: 279.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 659
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 163787
تمام وزٹر کی تعداد : 143938549
تمام وزٹر کی تعداد : 99325385