حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(2) یزید اور واقعه حرّه

(2)

یزید اور واقعه حرّه

بیعت عقبہ سے دنیائے اسلام میں انصار کے سیاسی کردار کا آغاز ہو گیا اور اسی دن وہ قریش کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے پیغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ قریش اور بنی امیہ پر کاری ضربیں لگائیں اور انہیں ان کے عزیز و اقارب کی موت کا غم دیا۔ لیکن پیغمبر  صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد وہ کمزور ہو گئے۔ پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں سامنے لائے اور پھر آپ کی شہادت کے بعد قریش کے ساتھ ان کے اختلافات جاری رہے ۔ بنی امیہ کے ساتھ ان کے اختلافات کی اوج ’’واقعۂ حرّہ ‘‘ہے۔ اس کے بعد انصار کی کوئی سیاسی کارکردگی سامنے نہیں آئی اور ان کی شان و شوکت ختم ہو گئی اور ان میں سے اکثر مدینہ سے کوچ کر گئے اور دوسرے اسلامی شہروں میں پراکندہ و منتشر ہو گئے۔(78).

واقعه حرّه کے زیادہ تر علل و اسباب اقتصادی تھے نہ کہ سیاسی؛ کیونکہ انصار کی زمینیں بہت کم قیمت میں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں تھی جیسا کہ انصار میں سے ایک نے کہا:یہ سب کچھ ہمارا ہے لیکن ہم بھوکے ہیں  اور معاویہ نے اس کی ایک فیصد قیمت بھی ادا نہیں کی۔

جب يزيد نے انصار کے قيام کی خبر سنی تو اس نے ان سے اقتصادی ترقی و بہبود کا وعدہ کیا اور کہا: اگر بغاوت سے دستبردار ہو جائیں اور اس کی اطاعت کر لیں تو سال میں دو مرتبہ انہیں بخشش سے نوازا جائے گا اور ان کے لئے گندم  سستی کر دی جائے گی  اور معاویہ کے زمانے سے ان کے جو حقوق ادا نہیں کئے گئے ،وہ ادا کر دیئے جائیں گے (79).

واقعہ حرّہ کے اسباب و وجوہات میں سے ایک وجہ ابن زبیر کی تحریکات تھیں۔جب یزيد نے «نعمان بن‏ بشير» کو انصار سے مذاکرات کے لئے بھیجا تو نعمان مدینہ آیا اور اس نے انصار کو ڈرایا اور بغاوت سے کوفزدہ کیا۔ عبداللہ بن مطیع عدوی (جو زبیر کے طرفداروں میں سے تھا)نے زبیر سے کہا:اے نعمان! تم کیوں ہماری وحدت و اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو اور جو کام ہمارے فائدہ میں ہے اسے خراب کر رہے ہو۔

نعمان نے کہا: خدا کی قسم! گویا میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ جب جنگ ہو گی اور سواری پر سوار ہو کر مکہ کی طرف بھاگ جاؤ گے اور ان بیچاروں (انصار) کو تنہا چھوڑ دو گے تاکہ گلی کوچوں میں ان کا قتل عام ہو۔(80).

دوسری طرف سے حاکم مدینہ نے انصار کو راضی کرنے کے لئے کچھ لوگوں کو یزید کے پاس شام بھیجا تا کہ یزید انہیں راضی کر لے۔ یزید نے ان کی مہمان نوازی کی اور انہیں تحائف اور بخشش سے نوازا لیکن انہوں نے یزید کے برے اعمال اور اس کی خلاف کارویوں کو دیکھا تو اس سے اور زیادہ ناراض ہوئے اور جب وہ مدینہ پہنچے تو اسے خلافت سے خلع و بے دخل کر دیا(81).

يزيد نے پہلے «نعمان بن بشير» کو طلب کیا اور کہا:اپنی قوم کی طرف جاؤ اور انہیں اس کام سے روکو کیونکہ اگر وہ قیام نہ کریں اور بغاوت سے باز رہیں تو لوگوں میں میری مخالفت کی جرأت نہیں ہو گی  اور دوسرا یہ کہ وہاں میری قوم اور رشتہ دار  رہتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اس فتنہ میں انہیں کوئی نقصان پہنچے۔ (82).

نعمان مدينه آیا لیکن وہ انصار کو راضی کرنے میں ناکام رہا  اور خالی  ہاتھ واپس شام لوٹ گیا۔  جب یزید نے دیکھا کہ انہیں لالچ دینے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس نے انہیں ڈرایا اور دھمکی آمیز خط لکھا:

امام بعد؛ میں نے پہلے تمہیں سر پر بٹھایا ،پھر آنکھوں پر رکھا، پھر منہ پر، اس کے بعد سینہ پر، خدا کی قسم! اگر تمہیں اپنے پاؤں تلے رکھا تو تمہیں اس طرح سے پامال کروں گا کہ تمہاری تعداد کم ہو جائے گی اور عاد و ثمود کی طرح تاریخ میں صرف تمہارے قصہ باقی رہ جائیں گے۔ اس خط کے بعد میری طرف سے تمہیں صرف بلاؤں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا(83).

اس خط کے بعد انصار نے یزید کی طرف سے حاکم اور بنی امیہ کے افراد کو مدینہ سے نکال دیا کہ جن کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان سے سے عہد لیا کہ وہ انصار کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ دوسری طرف سے یزید نے «مسلم بن عقبه»  کی سربراہی میں پانچ ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور اسے یہ تاکید کی کہ مدینہ کے لوگ ان سے جنگ کریں تو ان سے جنگ کرو اور تین دن میں ان کو غارت کر دو۔(84).

اهل مدينه «عبداللَّه بن حنظلة، غسيل الملائكة» کی قیادت میں شام کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے اور «حرّه» کے مقام پر ان کے درمیان جنگ ہوئی مروان نے محلہ «بنى ‏حارثه» کے پیچھے سے لشکر کو هدايت کی کہ وہ شہر میں داخل ہو جائیں اور لوگوں کی قوت کو کچل دیں۔ مسلم بن عقبه  نے اپنے لشکر کے لئے تین دن تک مدینہ والوں کے جان، مال اور ناموس کو حلال قرار دیا اور وہ لوگ قتل و غارت گری اور زنا میں مصروف رہے اور انہوں نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ غلام کے طور پر یزید کی بیعت کریں اور اگر کوئی اس سے انکار کرتا تو فوراً اسے قتل کر دیا جاتا۔ لوگوں کو بڑی تعداد میں قتل کرنے کی وجہ سے مسلم بن عقبه نے «مسرف» کے نام سے شہرت پائی۔ جب یزید کو مدینہ کے لوگوں کے قتل کی خبر ملی تو اس نے یہ اشعار پڑھے:

ليت أشياخي ببدر شهدوا

جزع الخزرج من وقع الأسَل

حين حكّت بقُباء برْكَها

واستحرّ القتل في عبد الأشَل

اےكاش! مسلمانوں کے ہاتھوں جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے اجدا اور رشتہ دار موجود ہوتے تو وہ نیزوں کے وار سے خزرج کی آہ و بکاء اور جزع و فریاد دیکھتے!

جب قبا کی طرف جنگ ہوئی اور ان کے پہلو میں وار کئے گئے اور قبیلۂ بنی عبد الأشہل میں شدت سے قتل و غارت گری  جاری تھی .(85)


78) معجم قبائل الحجاز: 26.

79) دراسات حول المدينة المنوّرة في العصر الاُموى: 125.

80) دراسات حول المدينة المنوّرة في العصر الاُموى: 126.

81) العقد الفريد: 362/4 و 363.

82) الكامل فى التاريخ: 90/3.

83) اخبار الموفقيات: 197 و 198، عقد الفريد: 388/4.

84) اخبار الطوّال: 266.

85) پژوهشى پيرامون انصار: 153.

 

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 690
آج کے وزٹر : 77731
کل کے وزٹر : 267952
تمام وزٹر کی تعداد : 152903777
تمام وزٹر کی تعداد : 108505112