حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
47) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام

کی دوسری پیشنگوئی

     ابو مخنف نے عدی سے، انہوںنے ابی ہشام سے، انہوں نے بریدسے، انہوں نے عبداللہ بن مخارق سے اور انہوں نے ہاشم بن مساحق قرشی سے نقل کیا ہے کہ انہوںنے کہا ہے: میرا باپ کہتا تھا: جب جنگ جمل سے لوگ بھاگ گئے تو قریش کا ایک گروہ کہ ( جن میں مروان بن حکم بھی شامل تھا) اس کے پاس آیا اور ان میں سے بعض نے دوسروں سے کہا: خدا کی قسم! ہم نے اس شخص (یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام) پر ظلم کیا ہے اور بغیر کسی وجہ کے ان کی بیعت کو توڑا  ہے ۔اور خدا کی قسم!جب یہ ہم پر کامیاب ہو گئے تو ہم نے رسول خداۖ کے بعد ان سے زیادہ کوئی کریم اور بخشنے والا نہیں دیکھا۔اب آؤ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں۔

     کہتے ہیں: ہم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر گئے اور اجازت طلب کی۔ آنحضرت نے اجازت دی اور جب ہم آپ کے سامنے پہنچے تو ہم میں سے ایک شخص نیکلام کرناچاہا ۔ لیکن آپ نے فرمایا:جب تک میں بات نہ کر لوں آرام سے اور خاموش رہو۔ بیشک میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ،اگر میں حق کہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگرغلط بیانی سے کام لوں تو میری بات کو ردّ کرنا۔اب میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں!کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب رسول خداۖ کی رحلت فرما گئیتو میں آنحضرت کے سب سے زیادہ قریبی تھا اور لوگوں پر حکومت کے لئے سب سے زیادہ حق دار تھا؟

     انہوں نے کہا:جی ہاں! ہم جانتے ہیں۔

     آپ نے فرمایا:لیکن پھر بھی تم لوگوں نے مجھ سیمنہ موڑ لیا اور ابوبکر کی بیعت کر لی،میں نے برداشت کیا اور میں نہیں چاہا تھا کہ مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو حکومت دے دی۔میں نے پھر بھی گریز کیا اور لوگوں میں کوئی تحریک پیدا نہ کی حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کام کے لئے میں ہی سب سے زیادہ شائستہ ہوں اور رسول خداۖ کی جانشینی کے لئے میں ہی سب  سے زیادہ اہل ہوں۔لیکن میں نے صبر و تحملکا دامن نہ چھوڑایہاں تک کہ وہ قتل ہو گیا اور اس (عمر)نے مجھے شوریٰ کا چھٹا شخص قرار دیا۔میں نے پھر بھی خلافت سے ہاتھ اٹھا لیاکیونکہ میں مسلمانوں میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتا تھااور تم لوگوں نے عثمان کی بیعت کر لی اور تم نے خود ہی اس کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کر دیا تھا۔میں تو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ،تم لوگ خود میرے پاس آئے اور میری بیعت کی کہ جس طرح تم لوگوں نے ابوبکر اور عمر کی بیعت کی تھی ۔تم لوگوں نے ان دونوں سے تو وفاداری کی لیکن تم نے مجھ سے اپنے عہد کی وفا نہ کی ۔کس چیز کی وجہ سے تم لوگوں نے ان دونوں کی بیعت تو نہ توڑی لیکن میری بیعت توڑ دی؟

     ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام!آپ خدا کے صالح بندے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بنیں کہ جو فرماتےتھے:

      آج تمہارے لئے کوئی ملامت نہیںہے ۔خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے .([1])

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: آج تم لوگوں کے لئے کوئی سرزنش نہیں ہے اگرچہ تم لوگوں میں ایسا شخص بھی موجود  ہے کہ اگر وہ اپنے ہاتھ سے میری بیعت کرے تو مجھے پشت دکھا دے گا۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مراد مروان بن حکم تھا۔([2])

 


[1]۔ سورۂ یوسف،آیت:٩٢

[2]۔ نبرد جمل:٢٤٩

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 1888
    آج کے وزٹر : 68769
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131608148
    تمام وزٹر کی تعداد : 91279758