حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
46) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام

کی پیشنگوئی

     واقدی نے کہاہے کہ جب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام جنگ جمل جیت گے تو قریش کے جوانوں کا ایک گروہ آیا اور انہوں نے آنحضرت سے امان طلب کی اور یہ کہ انہیں بیعت کرنے کی اجازت دی جائے اور اس بارے میں انہوں نے عبداللہ بن عباس کو شفیع قرار دیا۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان کی شفاعت قبول کی اور انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے خطاب فرمایا:

     افسوس ہے تم گروہ قریش پر!کس جرم کی بناء  پر تم نے مجھ سے جنگ کی؟کیا میں نے تمہارے درمیان عدل کے بغیر کبھی کوئی حکم کیا؟ یا کبھی ایسا ہوا کہ تم لوگوں میں کوئی مال برابر تقسیم نہیں کیا؟یا کسی کو تم لوگوں پر برتری دی؟ یا میں پیغمبرۖ سے دور تھا؟یا میں نے اسلام کی راہ میں کم مصیبتیں بردشت کی ہیں؟

     انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین!ہماری مثال یوسف کے بھائیوں کی طرح ہیں ،ہمیں معاف فرمائیں اور ہمارے لئے استغفار کیجئے۔

     آپ نے ان میں سے ایک کی طرف دیکھ کر کہا:تم کون ہو؟

     اس نے کہا: میں مخرمہ کا بیٹا مساحق ہوں اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کا اعتراف کرتا ہوں اور   میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے تم لوگوں سے درگذر کی اور تم سب کو معاف کر دیا اور خدا کی قسم!اگرچہ تم لوگوں میں وہ شخص بھی موجودہے کہ اگر چہ وہ ہمارے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کربیعت تو کرے گا لیکن پشت دکھا دے گا۔

     مروان بن حکم جس نے ایک شخص کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی،وہ آگے آیا۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا:تمہیں کیا ہوا ہے کیا تم زخمی ہو؟

     کہا:جی ہاں!اے امیر المؤمنین !اور مجھے اپنی موت بھی اسی زخم میں دیکھائی دے رہی ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا:

     نہیں؛ خدا کی قسم! اس زخم کا تم پر کوئی خوف نہ ہو اور جلد ہی یہ امت تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے خون آلود دن دیکھے گی۔

     مروان نے بیعت کی اور واپس لوٹ گیا۔

پھر عبدالرحمن بن حارث بن ہشام آگے آیا اور جب اس پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی  نگاہ پڑی توآپ نے فرمایا:

     خدا کی قسم!اگرچہ تم اور تمہارا خاندان اہل صلح تھا  اگرچہ تم لوگ توانگر ہولیکن پھر بھی تم لوگوں سے  درگذر کرتا ہوں اور یہ میرے لئے بہت پریشانی کا باعث ہے کہ میں  نے تمہیں اس قوم کے ساتھ دیکھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ یہ اتفاق نہ ہوتا۔

     عبدالرحمن نے کہا: وہ ہو گیا کہ جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ اس نے بھی بیعت کی اور واپس چلا گیا۔([1])

 


[1]۔ نبرد جمل:٢٤٨

 

 

    ملاحظہ کریں : 2000
    آج کے وزٹر : 3767
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131479309
    تمام وزٹر کی تعداد : 91149754