حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
31) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

     جناب عمار کی شہادت کے بارے میں روایات تواتر کی حد تک ہیں اور کئی اہلسنت علماء نے اس کی تصریح کی ہے ۔ ابوبکر، عمر، عثمان، عائشہ، معاویہ، عمرو عاص، حجاج اور اہلسنت کے دوسرے بے شمار سے بزرگوں اور رہبروں نے یہ روایت نقل کی ہے۔اسی طرح بخاری اور مسلم جیسے افراد نے یہ روایت اپنی صحاح میں ذکر کی ہے۔ اب ہم ان کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     بخاری نے اپنی صحیح میں عکرمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:ابن عباس نے مجھے اور اپنے بیٹے علی سے کہا:ابوسعید کے پاس جاؤ اور اس کی احادیث سنو۔

     عکرمہ کہتے  ہیں:ہم ابوسعید کے پاس گئے جب کہ وہ اپنے باغ میںباغبانی میں مصروف تھا۔ابوسعید نے ہمیں دیکھنے کے بعد اپنی عباء اٹھائی اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

     باتوں باتوں میں حضرت رسول اکرمۖ کی مسجد کی تعمیر کی بات آئی تو ابوسعید نے کہا: ہم ہر بار ایک اینٹ اٹھا کر لے جاتے تھے لیکن عمار دو اینٹیں اٹھاتے تھے،اس دوران پیغمبر اکرمۖ متوجہ ہوئے تو آپ نے ان کے کپڑوں کی خاک جھاڑی اور فرمایا:

     عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا؛ عمار انہوں جنت کی طرف دعوت دیں گے  لیکن ''فئہ باغیہ'' (یعنی باغی گروہ) انہیں جہنم کی طرف دعوت دیں گے۔

     اس روایت کو مسلم، طبرانی، ترمذی، حاکم، احمد بن حنبل اور دوسروں نے روایت کیا ہے اور جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو متواتر روایات میں سے قرار دیا ہے۔

     سیوطی کہتے ہیں:شیخین نے یہ روایت ابوسعیدسے،مسلم نے ابوقتادہ سے ،ام سلمہ اور ابویعلی سے،احمد نے عمارسے ،ان کے بیٹے اورعمرو بن حزم اورحزیمۂ ذوالشہادتین سے،طبرانی نے عثمان سے،انس اور ابوہریرہ سے،حاکم نے حذیفہ اور ابن مسعود ،رفای نے ابورافع سے،ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ سے اور جابر بن سمرہ ،ابن عباس،معاویہ،زید بن اوفی،ابوالیسر کعب بن عمرو، زیادکعب بن مالک،ابوامامہ،  عائشہ اور ابن ابی شیبہ نے عمرو بن عاص  اور اس کے بیٹے عبداللہ نے نقل کی ہے۔

     شافعی کہتے ہیں: صحابیوں میں سے یہ ستائیس افراد ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور ان میں حزیمہ بھی شامل ہیں کہ جو صحابیوں کی جگہشمار کئے جاتے ہیں۔

     حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں: متواتر رویات میں ہے کہ رسول خاۖ نے فرمایا:

     ظالموں اور ستمگروں کا گروہ (فئہ باغیہ)عمار کو قتل کرے گا۔

     یہ موضوع اخبار غیبیہ میں سے ہے کہ حقیقت میں آنحضرت کی نبوت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ حدیث صحیح ترین روایات میں سے ہے۔

     ابن دحیہ کہتے ہیں:کسی نے بھی اس حدیث پر کوئی اشکال و اعتراض نہیں کیا اور اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو معاویہ اسے ردّ کر دیتا اور اس کا انکار کر دیتا ۔

     ابن حر کا کہنا ہے:اس روایت کو اصحاب کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے اور ان کے نام ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:اس حدیث میں- کہ جو اخبار غیبیہ میں سے شمار کی جاتی ہے-واضح طور پر نبوت کی نشانیاں موجود ہیں اور یہ عمار کے لئے بھی بہت بڑی فضیلت ہے۔

     سب جانتے ہیں کہ عمار جنگ صفین میں قتل ہوئے،اور عمار صفین میں امیر  المؤمنین علی علیہ السلام کی فوج میں تھے اور معاویہ کے طرفداروں نے آپ کو قتل کیا۔اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ''باغی''تھا جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیتا تھا اور جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلائے وہ لعنت کا  حقدار ہے اور قیامت کے دن بے یارومددگار اورعذاب میں گرفتار ہو گا اور کالے چہرے کے ساتھ محشور ہوگا۔قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے:

     (وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ ِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُونَ ، وَأَتْبَعْنَاہُمْ فِیْ ہَذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ ہُم مِّنَ الْمَقْبُوحِیْنَ)([1])

     اور ہم نے ان لوگوں کوجہنم کی طرف دعوت دینے والا پیشوا قرار د ے دیا ہے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔اور دنیا میں بھی ہم نے ان کے پیچھے لعنت کو لگادیا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے چہرے بگاڑ دیئے جائیں گے ۔

     اس آیت میں''مقبوح''سے مرادوہ ہے کہ جو خیر سے دور ہو۔

     معاویہ نے صفین کے دن مکر و فریب کیا تا کہ اس حدیث کے مضمون سے اپنا دامن بچاسکے اور اس پر اس کے صحابی کوئی اعتراض و اشکال نہ ہوکریں،لہذا اس نے کہا:

     میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اسے اس نے قتل کیا کہ جس نے انہیں ان کے گھر سے باہر نکالا اور جو انہیں اس جنگ میں لے کر آئے!اس فریب اور دھوکہ سے اس نے اپنے ساتھیوں کی بغاوت سے نجات حاصل کی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس کے ردّ میں فرمایا:

     اگر ایسی بات ہے تو پھر اس بناء پر سید الشہداء حمزہ کے قاتل رسول خدا ۖ ہوں گے کیوں  کہ وہ انہیں گھر سے باہرلے کر آئے اور انہیں جنگ احد میں شریک کیا اور آخرکار قتل ہو گئے۔

     اس کلام کے بعد معاویہ لاجواب ہو گیا اور اس کاکوئی جواب نہ دے سکا۔

     معاویہ جو کہ بہت چالاک ، مکار اور دھوکہ باز تھا،اس نے دوسری مرتبہ پھرحدیث کا دوسرا معنی کیا اور کہا:جی ہاں؛فرقۂ باغیہ ہم ہی ہیں کہ جنہوں نے عثمان کے خوان کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا۔

     معاویہ نے باغیہ کو ''بغای''سے لیا کہ جس کے معنی طلب کرناہے اور اس طرح اس نے دوسری مرتبہ اپنے ساتھیوں کو قانع کیا ۔ لیکن معاویہ نے دونوں معنی میں خطا کی ہے ۔ پہلا معنی تو واضح ہے اور اسے ردّ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے معنی میں  اگر ''باغیہ'' کے معنی ''طلب کرنے والا''ہو تو اس کا  کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ حضرت رسول اکرمۖ نے فرمایا:''عمار انہیں جنت کی طرف عوت دیتے ہیں اور وہ عمار کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں''۔ اور یہ واضح ہے کہ یہاں''باغیہ''مذموم بغی کے معنی میں ہے کہ جس سے خدا نے منع کیا ہے جیسا کہ قرآ ن میں آیا ہے: ( وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء  وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ ([2])اس ''بغی''کا طلب کے معنی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔

     پھر وہ کہتاہے:میرے نزدیک یہ مسلّم ہے کہ معاویہ اپنی مخصوص فہم و فراست (دھاء)  سے یہ جانتا تھا کہ یہ تأویلیں  مکمل طور پر بے ربط ہیں اور ان کا حدیث سے کوئی ارتباط نہیں ہے کیونکہ یہ معنی اس قدر فاسدہے کہ حتی عام افراد بھی اس کے غلط اور بے ربط ہونے سے واقف ہیں۔ضروی تھا کہ  جناب عمار کی شہارت کے بعد معاویہ ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لیتا اور مخالفت سے دستبردار ہو جاتا لیکن اس کی باطنی خباثت اور ذاتی شقاوت نے اسے مجبور کیا کہ اپنی مکاری وعیاری سے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دے ، اور دنیا اور حکومت حاصل کرنے کے لئے یہ باطل تأویلیں پیش کرے۔

     معاویہ اپنے گماشتوں کو راضی رکھنے اور ان سے حقائق چھپانے کے لئے ایسے ناروا مطالب بیان کرتا ، افتراء و بہتان کے ذریعہ لوگوں کو راضی رکھتا اور لوگوں کو دوزخ کی طرف دعوت دیتا تھااور خدا سے جنگ کرتا تھا۔

     جناب عمار کے قتل ہو جانے کے بعد کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ معاویہ  ''فئہ باغیہ''کا پیشوا ہے ؛عبداللہ بن عمر بہت زیادہ افسوس کرتا تھا کہ میں نے کیوں معاویہ سے جنگ نہیں کی۔ابوحنیفہ نے عطاء بن ابی ریاح سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتا تھا:مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے کیوں   ''فئہ باغیہ''سے جنگ نہیں کی۔

ابن عبدالبر نے ایک گروہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے وفات کے وقت کہا: مجھے بہت افسوس ہے کہ علی بن ابیطالب علیہما السلام کے ساتھ مل کر ''فئہ باغیہ'' سے جنگ کیوں نہیں ۔اس روایت کو حاکم نے صحیح سند سے نقل کیا ہے۔

     بیہقی نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:مجھے افسوس ہے کہ میں نے فرقۂ باغیہ سے جنگ کیوں نہیں کی کیونکہ خداوند متعال نے فرمایا ہے:

     (فَاِن بَغَتْ ِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َا ِلَی أَمْرِ اللَّہِ)([3])

      اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے ۔

حاکم کہتا ہے:اس بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں اور بزرگ تابعین کے ایک گروہ نے یہ روایات عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہیں۔([4])کتاب ''اعلام نصر مبین در داوری میان اہل صفین'' میںاس روایت (کہ ستمگر گروہ عمار کا قاتل ہے) کی اسناد کو دوسری طرح ذکر کیا ہے۔

     مسلم نے محمدبن مثنّی سے روایت کی ہے اور اس نے بشار سے اور ان دونوں نے کہا ہے:محمد بن جعفر نے تبعہ سے اور اس نے ابومسلمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے ابونضرہ سے سنا کہ ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: مجھے اس نے خبر دی کہ جو مجھ سے بہتر تھا کہ جب عمار خندق کھود رہے تھے تو رسول خداۖ اپنا دست مبارک ان کے سر پر پھیر تے تھے اور فرماتے تھے:

     ابن سمیہ  کے لئے افسوس!کہ اسے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔([5])

     اسی طرح یہ روایت اسحاق بن ابراہیم،اسحاق بن منصور ،محمود بن غیلان اور محمد بن قدامہ کی سند سے بھی نقل ہوئی ہے اور سب نے کہا ہے:نضر بن شُمیِّل نے ابومسلمہ سے اسی سلسلہ سند سے ہمارے لئے روایت کی ہے مگر یہ کہ حدیث کی سند میں نصر بھی آیا ہے کہ اس نے کہا:مجھے اس نے خبر دی ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،ابوقتادہ نے کہا:خالد بن حارث نے بھی کہاہے کہ میں نے ابوقتادہ کو دیکھا ہے۔

     مسلم نے کہا ہے کہ محمد بن عمرو جَبَلہ نے محمد بن جعفر([6]) اور انہوں نے عقبة بن مکرم العمی اور انہوں نے ابوبکر بن نافع سے عقبی کے قول کو ہمارے لئے روایت کیا اور ابوبکر نے کہا:غنذر([7]) نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں  نے کہا ہے:شعبہ نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں نے الخداء(حذاء)سے سنا ہے اور انہوں نے سعید بن ابی الحسن اور انہوں نے اپنی ماں اور انہوں  نے ام سلمہ سے سنا کہ رسول خداۖ نے عمار سے فرمایا:تجھے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔([8])

     صحیح مسلم میں یہ روایت دوسرے سلسلہ سے موجود ہے کہ سعید نے اپنے بھائی حسن بصری اور اس نے اپنی ماں خیرہ اور اس نے زوجۂ پیغمبر اکرمۖ ام سلمہ سے نقل کیا ہے۔

     حدیث متواتر ہے۔طبرانی نے اسے معجم الکبیر([9]) میں نقل کیاہے اور اس کی اصل کتاب دوسو تیس حصوں میں میرے پاس موجود ہے اور وہ دنیا (اسلام) کی سب سے بڑی سند ہے۔ میں نے وہ تمام اصفہان میں پڑھی اور یہ موضوع اپنی کتاب  میں بھی ذکر کیا کہ جس کا نام میں نے ''علم المشہور''رکھا۔

     طبرانی نے یہ حدیث معاویہ کے قول،عمرو عاص ،اس کے بیٹے عبداللہ اور اصحاب پیغمبر ۖ کے ایک دوسرے گروہ سے نقل کی ہے۔

      ابوعبدالملک مروان بن عبدالعزیز نے کہا:فقیہ محدث عالم ابوعمران موسی بن عبدالرحمن بن ابی تلید نے ابوعمر بن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کتاب''استیعاب'میں عمار کے حالات زندگی   میں پڑھا ہے کہ:پیغمبر اکرمۖ سے متواتر روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں فرمایا:عمار کو ستمگر اور ظالم گروہ قتل کرے گا،اور یہ

روایت صحیح ترین روایات میں سے ہے۔([10])

     ذوالنسبین (کہ خدا ان کی تائید کرے) کہتے ہیں:اس روایت میں کس طرح اختلاف ہے؟ حالانکہ ہم نے دیکھا ہے کہ خود معاویہ بھی اس کا انکار نہیں کر سکا اور اس نے کہا:اسے (عمار) اس نے قتل کیاکہ جو اسے میدان جنگ میں لے کر آیا۔اگر اس حدیث میں کسی شک کی گنجائش ہوتی تو معاویہ اس کا انکار کر دیتا اور اس کے نقل کرنے والے کی تکذیب کرتا یا اسے دھوکہ دیتا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے جب معاویہ کی یہ بات سنی تو یوں جواب دیا:پس رسول خداۖ نے حمزہ کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ انہیں میدان جنگ میں لے کر آے تھے۔حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کا کوئی جواب نہیں تھا اور یہ ایک ایسی حجت و دلیل تھی کہ جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا۔حضرت علی علیہ السلام کے اسی قول کومشہور فقہاء نے مدنظر رکھا ہے....۔

     مجدالدین مفتی الفرَق ابوسعید عبداللہ بن عمر بن صفار نے میرے لئے یہ روایت کتاب ''در مدرسہ شادیاخ'' سے پڑھی۔اس نے کہا: کئی محدثین نے  ابوالمعالی سے یہ میرے لئے روایت کی ہے۔

     پیغمبر اکرمۖ سے گذشتہ روایت میں''بؤس ابن سمیہ'' بھی آیا ہے۔کلمہ'' بؤس و بأس'' دونوں انسان کی جان اور حال کی سختی کے معنی میں ہے۔''بؤس''تنوین کے بغیر مصدر ہے جیسا کہ ہم نے ''یا بؤس بن سمیہ'' کی صورت میں بھی اسے روایت کیا ہے؛ یعنی ''وای ہواسے پہنچے والی بؤس اور تکلیفوں کی شدت پر''یہ عمار کے لئے باب ترحم سے کہا گیا ہے کہ جو اس کے آئندہ کے امور میں سے تھا۔کیونکہ پیغمبر خدا ۖ وحی کی مدد سے جانتے تھے کہ آئندہ زمانے میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا۔آپ نے (ابن سمیہ کہنے سے)ایمان کی وجہ سے ان پر اور ان کے ماں باپ پر ٹوٹنے والے مصائب اور مشکلات کو بیان کیا ہے۔

     کیونکہ یہ روایت پیغمبر خداۖ کے معجزوں اور روایات میں سے ہے کہ آنحضرت نے واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کے بارے میں بتایا ہے اور آپ کا یہ فرمانا: ''الفئة الباغیة'' اس مراد ایک جماعت اور فرقہ ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:''فأیت رأسہ و فأوتہ''جب میں  نے انہیں دو حصہ کر دیا۔

     پروردگار عالم فرماتا ہے:(فَمٰا لَکُمْ فِی الْمُنٰافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ)([11]) "یعنی دو فرقہ'' یعنی اس بارے میں آپ نے دوگروہوں سے شدید اختلاف کیا۔ اور''الباغیہ'' یعنی ظالم و ستمگر، کیونکہ ''بغی'' ظالم کے معنی میں لیا گیا ہے اور اس کا اصل حسد ہے۔

 


[1]۔ سورۂ قصص،آیت:٤١ اور ٤٢

[2]۔ سورۂ نحل،آیت:٩٠

[3]۔ سورۂ حجرات، آیت:٩

[4]۔ معاویہ و تاریخ:٤٢

[5]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج١٨ص٣٠

[6]۔ صحیح مسلم: ج١٨ص٤١

[7]۔ صحیح مسلم: ج١٨ص٤١

[8]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج١٨ص٤٢

[9]۔ معجم الکبیر:ج١ص٣٣٠

[10]۔ الاستیعاب في معرفة الأصحاب:ج٢ص٤٨١

[11]۔ سورۂ نساء، آیت: ٨٨

 

 

    ملاحظہ کریں : 2952
    آج کے وزٹر : 69715
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131610040
    تمام وزٹر کی تعداد : 91281650