حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
15) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی پیشنگوئی

معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی پیشنگوئی

 آئندہ زمانے کے بارے میں رسول اکرمۖ کی پیشنگوئیاں لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہیں (جیسا کہ ہم نے کہا) تا کہ لوگ گمراہ کرنے والے فتنوں سے آشنا ہو کرخود کو ہلاکت و گمراہی  سے نجات دیں اور خاندان وحی علیہم السلام کی پناہ میں آکر اور ان کے مکتب کی پیروی کرکے فکری و روحانی سکون حاصل کریں اور اضطراب، پریشانیوں ،وسوسوں اور نادانی سے محفوظ رہیں۔

پیغمبر اکرمۖ نے یہ پیشنگوئیاں مختلف زمانوں میں متعدد خطابات اور مختلف مناسبتوں پر بیان فرمائیں۔کبھی کلی صورت میںسب کے لئے آئندہ کی خصوصیات بیان فرمائیں  اور اپنی رحلت کے زمانے سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے قیام کے زمانے تک فتنوں اور امتحانات کو بیان کیا اور اس   اس زمانے اور بعد کے زمانے کے لوگوں کوان میں گرفتار ہونے سے ڈراتے اور کبھی کسی خاص موضوع اور خاص عنوان کوبیان کرتے اور اس بارے میں لوگوں کو خبردار کرتے تھے۔

     کبھی کچھ خاص افراد کا نام لیتے اور لوگوں کو ان سے آشنا کرنے اور ان سے ہوشیار رہنے کے بارے میں بیان کرتے تا کہ لوگ آنحضرت کے فرمان کے نتیجہ میں راہ اور چاہ میں تشخیص دے سکیں اور تاریخ کے مکار افراد کی میٹھی زبان سے دھوکا نہ کھائیں۔

     بعض معین افراد کے بارے میں رسول اکرمۖ کی کچھ پیشنگوئیوں میں سے کچھ ایسے فرامین ہیں کہ جو آنحضرت سے جناب عمار کی شخصیت کے بارے میں روایت ہوئے ہیں اور ان میں لوگوں کو وہی راستہ اختیار کرنے کی طرف راغب کیا گیا ہے کہ جو راستہ جناب عمار نے منتخب کیا۔

     اس کے مقابل میں کچھ ایسے افراد کا بھی نام لیا گیا ہے کہ رسول خداۖ نے سختی سے ان کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے۔

     اب اس روایت پر غور کریں:

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں:ابن دیزیل نے عبداللہ بن عمر سے،اس نے زید بن حباب سے،اس نے علاء بن جریر عنبری سے،اس نے حکم بن عمیر ثمالی (جس کی ماں ابوسفیان کی بیٹی ہے) سے نقل کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرمۖ نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

     اے ابو بکر؛اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:مجھے امید ہے کہ ہر گز ایسا نہیں ہوگا!

     رسول خداۖ نے فرمایا:

     اے عمر ؛اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:اے کاش؛میں سنگسار ہو جاؤ ں کہ اس صورت میں تو میں شر میں گرفتار ہو جاؤں گا۔

     پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:

     اے عثمان!اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     عثمان نے کہا:میں خود بھی کھاؤں گا اور دوسروں کو بھی کھلاؤں گا،اموال تقسیم کروں گا اور ظلم و ستم نہیں کروں گا!

     رسول خداۖ نے فرمایا:

     یا علی؛اگر آپ خلیفہ بن گئے تو کیا کریں گے؟

     فرمایا:اپنے رزق و روزی اور قوت کے مطابق  کھاؤں گا اور اپنے قبیلہ(مسلمان)  کی حمایت کروں گا اور ایک خرما بھی ہو تو اسے تقسیم کروں گا اور ناموس کو پوشیدہ رکھوں    گا۔

     پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:تم میں سے ہرایک جلد ہی حاکم بنے گااور جلد ہی خدا تمہارے اعمال کو دیکھے گا۔

     پھر فرمایا:معاویہ ؛جب تم خلیفہ بنو گے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:خدا اور رسول بہتر جانتے ہیں!فرمایا:

     تم ساری بربادی کی جڑ اور بنیاد ہو اور ہر طرح کے مظالم کی کلید ہو۔تم برے کام کو اچھا اور اچھے کام کو برا شمار کرو گے؛جیسا کہ بچہ بوڑھا اور بوڑھا بچہ ہو جائے۔ تمہاری مدت تو کم ہو گی لیکن تمہارے مظالم بڑے ہوں گے!

     اسی طرح ابن دیزیل نے عمر بن عون سے، اس نے ہیثم سے، اس نے ابو فلج سے،اس نے عمرو بن میمون سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:

     عبداللہ بن مسعود کہتا تھا: کیسا ہو گا کہ جب کسی ایسے فتنہ کو دیکھو کہ جس میں بوڑھا شخص بچہ اور بچہ بوڑھا ہو جائے اور وہ فتنہ اس طرح سے لوگوں میں پھیلے گاکہ وہ اسے سنت سمجھیں گے اور جب فتنہ بدل جائے تو کہا جاے گا یہ برا کام ہے۔

     یعنی معاویہ اور اس کے جانشین دین میں بدعت ایجاد کریں گے کہ دین اپنی راہ سے خارج ہو  جائے گا اور جب ان کی حکومت ختم ہو گی اور کوئی ان بدعتوں کو ختم کرنا چاہے گا تو لوگ ان بدعتوں سے اتنے مانوس ہو چکے ہوں گے کہ وہ انہیں ختم کرنے کو برا شمار کریں گے۔جس طرح کہ جب عمر بن عبدالعزیز اپنی حکومت کے زمانے میں نمازوں کے خطبوں میں سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کو ختم کرے گا تو شام کے لوگوں نے اسے برا شمار کیا۔([1])

     اس روایت میں ذکر ہونے والے پیغمبر اکرمۖکے سوالوں کے جواب میں ابوبکر کی خواہش تھی کہ اسے حکومت نہ ملے،عمر نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ اے کاش وہ سنگسار ہو جائے لیکن حاکم نہ بنے ورنہ وہ شر میں گرفتار ہو جاے گا اور عثمان نے کھانے کی بات کی اور کہا:میں خود بھی کھاؤں گا اور دوسروں کو بھی کھلاؤں گا....۔

     ان دونوں کی باتیں اس چیز پر گواہ ہیں کہ وہ خود کو حکومت کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنی قوت کے مطابق کھاؤں گا اور مسلمانوں کی حمایت کروں گا اور.....۔

     معاویہ نے سوال کے بعد وہ  ٹال مٹول اور اپنے کردار کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔

اس روایت کو حکم بن عمیر (جو معاویہ کا بھانجا ہے) نے نقل کیا ہے اور عمر کے بیٹے نے اسے دو واسطوں کے ذریعہ سے روایت کیا ہے۔

     اس بناء پر عمر کے بیٹے کی یہ روایت کہ جس میں عمر خود کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتا اور جس میں اس نے کہا ہے:اے کاش؛ میں سنگسار ہو جاؤں لیکن مجھے خلافت نہ ملے۔

     اے کاش! خود کو مکتب اسلام کا پیروکار اور رسول اکرم ۖ کا تابع سمجھنے والے تمام مسلمان اس پیشنگوئی (جو سنی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے) سے عبرت لیں اور اپنی آخرت کی اس فنا ہونے والے دنیا کے عوض نہ بیچیں۔

     رسول خداۖ ہمیشہ منبع وحی سیکلام کرتیتھے لہذا آپ نے اس اہم پیشنگوئی میں(کہ جس میں تمام مسلمانوں کے لئے بہت بڑا دسر ہے) معاویہ کے پس پردہ چہرے اور اس کی مکاری و عیاری کو سب لوگوں پر عیاں کر دیا ہے۔

 


[1]۔ اعجاز پیامبر اعظمۖ در پیشگویی از حوادث آئندہ: ٣٧٢

 

 

    ملاحظہ کریں : 2142
    آج کے وزٹر : 50827
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131572322
    تمام وزٹر کی تعداد : 91243874