حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
14) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے

حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ'' میں یہ بھی لکھا ہے:جب رسول اکرمۖ نے رحلت فرمائی تو اس وقت مروان تقریباًآٹھ سال کا تھا۔ اور کہا گیا ہے:جب اس کے باپ کو طائف کی طرف نکال دیا گیا تو وہ بھی اس کے ساتھ تھا اور وہ ایک بچہ تھا کہ جسے کسی چیز کی کوئی سمجھ نہیں تھی  اور مروان نے پیغمبر اکرمۖ کو نہیں دیکھا تھا۔

 پیغمبر اکرمۖ نے مروان کے باپ حکم کو مدینہ سے نکال کر طائف کی طرف بھیج دیا تھا اور وہ عثمان کو حکومت ملنے تک طائف میں ہی مقیم تھا۔ عثمان نے اسے مدینہ واپس بلایا۔

حکم اپنے بیٹے کے ساتھ عثمان کے زمانے میں مدینہ آیا۔حکم مدینہ میں مر گیا۔عثمان نے مروان کو اپنا سیکرٹری بنا لیا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیااور عثمان کے قتل ہونے تک مروان اس پر غالب تھا۔

حکم بن ابی العاص (جو عثمان بن عفان کا چچا ہے) ان افرادمیں سے تھا کہ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور ان کے دلوں کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں مال دیا  جاتا تھا۔عثمان کی حکومت کے زمانے میں اور اس کے قتل ہونے سے کچھ مہینے پہلے حکم مر گیاتھا۔

 رسول خداۖ کے حکم پر اسے مدینہ سے نکالے جانے پر اختلاف ہے۔کہا گیاہے: حکم اپنے مکر و فریب سے چھپ جاتا تھا اور پیغمبر اکرمۖ بزرگ اصحاب کے ساتھ مل کر قریش کے مشرکین یا منافقین اور کفار کے بارے میں جو بھی منصوبہ بناتے تھے ،یہ اسے فاش کر دیتا تھا اور جب اس کا یہ عمل ثابت ہو گیا  تو اسے نکال دیا گیا۔

 اور یہ بھی کہا گیا ہے:وہ پیغمبر اکرمۖ کی اپنی ازواج کے ساتھ کی جانے والی گفتگو کو چھپ کر سنے اور تمام ماجرے کو جاننے کی کوشش کرتا کہ جس کا جاننا جائز نہیں ہے اور پھر وہ یہ سب باتیں مذاق اور  مزاح کے طور پر منافقین کے لئے نقل کرتا تھا۔

کہتے ہیں: وہ کچھ تمسخر انہ حرکتوں سے پیغمبر اکرمۖ کے چلنے کی نقل کرتا تھا۔کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمۖ چلتے وقت آگے سے تھوڑا جھک کر چلتے تھے([1])اور حکم بن ابی العاص بھی چلتے وقت ویسے ہی نقل کرتا تھا۔ وہ پیغمبر اکرمۖ سے بغض و حسد رکھتا تھا ۔ایک دن رسول خداۖ واپس پلٹے تو آپ نے اسے دیکھا کہ وہ آپ کے پیچھے چل رہا ہے اور اسی طرح تمسخرانہ انداز میں آپ کے چلنے کی نقل کر رہا ہے۔آپ نے فرمایا:اے حکم؛ ایسے ہی ہو جاؤ۔اسی وقت سے حکم رعشہ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔یہ موضوع عبدالرحمن بن حسان بن ثابت نے عبدالرحمن بن حکم خطاب میں منظوم صورت میںبیان کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے: اپنیملعون باپ کی ہڈیوں پر پتھر برساؤاور فرض کرو کہ اگر تم پتھر برساؤ گے تو گویا تم نے ایک لرزنے اور کانپنے والے پاگل پر پتھر برسائے ہیں ۔ وہ اس حالت میں چلتا تھا کہ اس کا پیٹ تقوا کے کاموں سے خالی اور ناپسندیدہ کردار سے بھرا  ہواتھا۔

''استیعاب''کے مؤلف کہتے ہیں:عبدالرحمن بن حسان نے یہ جو کلام کہا ہے:''تمہارا ملعون باپ'' اس کی یہ وجہ ہے کہ عائشہ سے مختلف اسناد اور سلسلوں سے روایت کیا ہے کہ جسے ابوخیثمہ اور دوسروں نے روایت کیا ہے، روایت ہوئی ہے کہ:

جب مروان نے کہا:یہ آیت''اور جس نے اپنے ماں باپ سے یہ کہا کہ تمہارے لئے حیف ہے کہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں دوبارہ قبر سے نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں فریاد کررہے تھے کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے بیٹا ایمان لے آ۔ خدا کا وعدہ بالکل سچا ہے تو کہنے لگا کہ یہ سب پرانے لوگوں کے افسانے ہیں ''([2])عبدالرحمن بن ابوبکر   یعنی عائشہ کے بھائی کے بارے میں نازل ہوئیہے۔عائشہ نے اس سے کہا: اے مروان!یہ تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خداۖ نے تمہارے باپ پر لعنت کی ہے جب کہ تم اس کی پشت میں تھے۔([3])

حکم بن عاص  کی طرف سے پیغمبر اسلامۖ پر روا رکھے جانے والے تمام ظلم و ستم اور اس کے لئے رسول خداۖ کی تمام نفرت  کے باوجودبہت سے اہلسنت علماء کی کتابوں کی بنا پر اہلسنت کے تیسرے خلیفہ عثمان کو اس سے بہت لگاؤ تھا!یہاں تک کہ اس نے آنحضرت کی خدمت میں سفارش کی کہ اسے اور اس کے بیٹے کو مدینہ واپس دیا جائے لیکن آنحضرت نے اس کی بات کی طرف توجہ نہیں کی۔

رسول اکرمۖ کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر اور پھر عمر سے بھی یہی درخواست کی۔ان دونوں نے بھی اس کی درخواست قبول نہ کی لیکن جب وہ خود خلیفہ بنا تو اس نے انہیں مدینہ واپس بلا لیا اور اسے بہت سے پیسے اور مال عطا کیا اور اس کے بیٹے مروان کو اپنا کاتب بنا لیا!

 کتاب'راھبرد اہلسنت بہ مسئلہ ٔامامت''میں لکھتے ہیں:حضرت پیغمبر اکرمۖ نے حکم بن ابی العاص پر لعنت کی ہے کہ جو مروان کا باپ ہے اور اسے مدینہ سے نکال کر طائف بھیج دیا تھا۔ اگرچہ عثمان نے اس کے لئے بہتگذارش و سفارش کی کہ آنحضرت اسے اور اس کی اولاد کو مدینہ آنے دیں لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا۔آنحضرت کی رحلت کے بعد ابوبکر اور عمر نے بھی قبول نہ کیا  اورعثمان نے جتنی بھی التماس اورگذارش کی لیکن اسے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔یہاں تک کہ حکم ''طریدرسول اللّٰہ ''کے لقب سے مشہور و معروف ہو گیا۔([4])

 پس عثمان نے اپنی خلافت کے زمانے میں رسول خداۖ کی مخالفت کی اور حکم کو اس کے اہل و عیال   کے ساتھ مدینہ واپس بلا لیااور انہیں بہت مال و منال عطا کیا اور مروان بن حکم کو اپنا کاتب بنا لیا۔

 پس امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن اور عمار نے اس سے اس بارے میں گفتگو کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور اس نے جواب میں یہی  عذر پیش کیا:حکم سے مجھے جو قرابت ہے اگر تمہیں کسی سے ایسی قرابت ہوتی اور جو طاقت میرے پاس ہے وہ تمہارے پاس بھی ہوتی تو تم بھی اسے شہر میں داخل کر لیتے اور حالانکہ مدینہ کے لوگوں میں حکم سے بھی بدتر لوگ موجود ہیں!پھر وہ سب عثمان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے۔([6]،[5])

اس خاندان کے بہت سے افراد پیغمبر اکرمۖ اور آپ کی اہلبیت اطہار علیہم السلام کے دشمن تھے۔ مغیرة بن عاص (جو حکم کا بھائی تھا) آنحضرت کے سخت دشمنوں میں سے تھااور اس نے آنحضرت کو شہید کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھالیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور اسی طرح اس کا بھائی حکم بن عاص آنحضرت کی لعنت کا شکار ہوااور آخر کار عمار کے ہاتھوںواصل جہنم ہوگیا۔

 ''نفائح العلاّم ف سوانح الأیّام''میں لکھتے ہیں:

 مغیرة بن عاص پتھر پھینکنے میں بہت ماہر تھا اس کا نشانہ  کبھی چونکتا نہیں تھا۔جب وہ احد کی طرف جا رہا تھا تو اس نے راستہ میں سے اپنے ساتھ تین پتھر اٹھا لئے اور کہا:''بھذہ اقتل محمداً'' میں انہی تین پتھروں کے ساتھ محمد کو قتل کردوں گا۔

 پس جنگ کے دوران جب اس کی نظر رسول خداۖ پر پڑی اور دیکھا کہ''بیدہ السیف'' کہ آپ کے دست مبارک میں تلوار ہے تو پہلے اس نے پیغمبر اکرمۖ کے ہاتھ کا نشانہ لیا اور ان تین پتھروں میں سے ایک پتھر پھینکا،وہ پتھر آنحضرت کے دست مبارک پر ایسا لگا کہ''سقط السیف من یدہ الشریفہ''کہ آپ   کے دست مبارک سے تلوار زمین پر گر گئی۔ اس نے چیخ کرکہا:لات و عزّی کی قسم؛کہ محمد مارے گئے۔

 اس خبیث کی آواز امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:''کذب لعنہ اللّٰہ''

اس نے جھوٹ بولا ہے،خدا اس پر لعنت کرے ۔پیغمبر اکرمۖ  قتل نہیں ہوئے۔

 پھر اس ملعون نے دوسرا پتھر پھینکا اور وہ پتھر ''فَاَصٰاب جَبْھَتَہ'' آپ کی نورانی پیشانی پر لگا اور اس نے پروردگار کے محل سجود کو تکلیف پہنچائی۔

 رسول خداۖ نے اس لعین کے لئے بد دعا کی کہ:

 خدایا؛ اسے حیران کر۔

 لہذا جب کفار واپس لوٹے تو ابن عاص پیغمبر اکرمۖ کی بد دعا کی وجہ سے معرکہ میں حیران ہو گیا اور وہ وہاں سے فرار نہ کر سکا یہاں تک کہ عمار پہنچے اور اسے واصل جہنم کر دیا۔([7])

 


[1] ۔ پیغمبر اکرمۖ کے چلنے کی کیفیت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ترجمۂ'' طبقات ابن سعد:٢٨٢'' چاپ تہران،  ١٣٦٥ ش، اور ترجمہ ''دلائل النبوّة بیہقی:ج١ص١٣٥'' چاپ تہران،١٣٦١ ش، اور اس پر پیغمبر اکرمۖ کی لعنت کے بارے میں جاننے کے لئے ''النہایة ابن اثیر:ج١ص٣١٠'' کی طرف رجوع فرمائیں۔       

[2]۔ سورۂ احقاف، آیت: ١٧

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۳ص۲٦۴

[4] ۔ تاریخ اسلام ذہبی:ج٣ص٣٦٥ اور ٣٦٦،الوافی بالوفیات:ج١٣ص١١٢،الاصابة:ج١ص٣٤٦، الاستیعاب:  ج١ص٣١٧،عقد الفرید:ج٤ص٢٨، معارف ابن قتیبة:١١٢ اور ١١٩،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج١ص١٩٨،  ج٣ص٢٩،ج٦ص١٤٩ اور اسد الغابة:ج٢ص٣٤ اور ٣٥۔

[5] ۔  اسد الغابة:ج٤ص٣٤٨،مختصر تاریخ دمشق:ج٢٤ص١٧٢،،طبقات ابن سعد:ج٥ص٣٦،الشافی سید مرتضی:ج  ٤ص٢٦٩ اور شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج٣ص٣٠ اور ٣١

[6]۔ راھبر اہلسنت بہ مسئلۂ امامت:٣٤٩

[7]۔ نفائح العلاّم فی سوانح الأیّام: ج ۲ص۲۱۷

 

 

    ملاحظہ کریں : 2639
    آج کے وزٹر : 48905
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131568478
    تمام وزٹر کی تعداد : 91240030