حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں قسم کھائی کہ قیامت تک ہونے والے کسی بھی واقعہ کے بارے میں آپ سے سوال کیا جائے تو آپ اس کاجواب دیں گے۔سو افراد پر مشتمل ہر گروہ (چاہئے وہ ہدایت یافتہ ہو ںیا گمراہ) کے بارے میں بتائیں گے اور یہ کہ ان کا رہبر کون ہو گا؟ وہ کہاںوجود میں آئیںگے؟ان میں سے کون قتل ہو گا؟اور کون اپنی طبیعی موت مرے گا؟

 اس خطبہ کے آخر میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

  اس وقت (بنی العباس کے ہاتھوں بنی امیہ کی نابودی کے وقت) قریش کی یہ خواہش ہو گی کہ ساری دنیامیرے ہاتھوں میں رکھ دیں تا کہ صرف ایک بار مجھے دیکھ لیں۔اس مطلب سے گویا آنحضرت نے ابومسلم خراسانی اور سیاہ لباس پہنے ہوئے لوگوں کے شام میں حملہ اور بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد (جو مروان حمارکے نام سے مشہور ہے) کی نابودی کی خبر دی ہے۔

مؤرخین نے نقل کیا ہے: مروان بن محمد نے جنگ زاب میںجونہی عبداللہ علی بن عبداللہ بن عباس کو خراسانیوں کی صفوں میں اپنے مد مقابل دیکھا تو کہا:میں پسند کرتا کہ اگر اس پرچم کے نیچے اس جوان کی بجائے علی بن ابی طالب علیہما السلام ہوتے۔([1])

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ کے بارے میں فرمایا ہے:

خداوند بنی امیہ کے فتنہ کی اس طرح سے سرکوبی کرے گا کہ جیسے گوشت سے کھال اتار لی جائے خداوند ا کسی ایسے کے ذریعہ انہیں خوار کرے گا اور اس طرح سے کہ یہ جو جبر کرتے ہیں انہیں نکال دیا جائے گا اور انہیں بلاؤں کا جام پلایا جائے گا۔تلوار کے علاوہ انہیں کوئی تحفہ نہیں دیا جائے اور ان کے جسم پر خوف کے علاوہ کوئی لباس نہیں ہوگا۔

اب مختصر طور پر  تاریخ یعقوبی سے بنی امیہ کے شرمناک انجام اور ان کے برے دنو ں کا تذکرہ کرتے ہیں:

یعقوبی کہتے ہیں:([2])جب   ١٣٢ھ میں کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کی بیعت کی گئی تو کوفہ بنی امیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا،مروان بن محمد بنی امیہ کا آخری خلیفہ موصل کے نزدیک زاب کے مقام پر پہنچا تا کہ بنی العباس اور ان کے حامیوں سے جنگ کرے ۔ پہلے عباسی خلیفہ ابوالعباس سفاح نے اپنے چچا عبداللہ بن علی کو مروان سے جنگ کے لئے زاب بھیجا۔مروان شکست کھا کر شام لوٹ گیا۔اس دوران مروان شام کے کسی بھی شہر سے نہیں گزر سکتا تھا مگر یہ کہ وہاں کے لوگ اسے تباہ و برباد کر دیتے ، بالآخرمروان دمشق پہنچا اور اس کاارادہ یہ تھا کہ اس شہر میں کہ جو بنی امیہ کی حکومت کامرکز تھا،قلعہ میں پناہ  لے لے لیکن دمشق کے لوگوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا کہ جن میں سے اکثر بنی امیہ میں سے تھے اور قبیلۂ قیس نے ان پر حملہ کر دیا۔

عبداللہ بن علی بھی مروان کا پیچھا کرتا ہوا دمشق آ پہنچا۔اس نے مروان کے جانشین ولید بن معاویہ کو قتل کر دیا۔مروان فلسطین کی  طرف بھاگ گیا اور فلسطین کے بعد مصر کی طرف فرار کر گیا اور مصر میں بنی العباس کی دعوت کرنے والوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور اس کا سر سفاح کے پاس ''حیرہ'' میں بھیج دیا گیا۔مروان کا کٹا ہوا سر ایک کونے میں رکھ دیا گیا تاکہ  اسے سفاح کے پاس بھیجا جاسکے اور اسی دوران ایک بلی  نے اس کی زبان نوچ لی۔مروان کی عمر ٦٤ اور ایک قول کے مطابق ٦٨ سال تھی اور وہماہ ذی الحجہ    ١٣٢  ھ میں مارا گیا اور کی خلافت کی مدت پانچ سال تھی۔

  مروان کے چار بیٹے تھے جن کے نام عبدالملک ، عبداللہ، عبیداللہ اور محمد تھے۔

مصر کی طرف بھاگتے وقت مروان اپنے خاندان کے اکثر و بیشتر افراد کو اپنے ساتھ لے گیا تھا خاص طور پر اپنے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو اور بہت سی عورتیں اور اس کی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ تھیں ۔ جب مروان مصر میں قتل ہو گیا تو اس کے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ نے مصر کےشہر صعید میں پناہ لے لی اور وہ وہاں بھی نہ رہ سکے کیونکہ بنی العباس کی حکومت کے حامی ان کا  پیچھا کر رہے تھے۔لہذا انہوں نے سرزمین نوبہ(سوڈان)کا راستہ اختیار کر لیا۔

یعقوبی کہتے ہیں:([3])عبداللہ اور عبیداللہ کے ساتھ کچھ عورتیں،اس کی یٹیاں،

 بہنیں اور اس کے چچا کی بیٹیاں پیدل اور پریشانی کے عالم میں بھاگ رہیں تھیں ،یہاں تک کہ شام کا ایک شخص اس کی بیٹی کے پاس سے گذرا جو اسی اجنبی لگی اور پھر اچانک اس نے اسے پہچان لیا کہ یہ مروان کی چھ سال کی بیٹی ہے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور اسے عبداللہ بن مروان([4]) کے حوالہ کر دیا۔

مروانی شہر نوبہ (سوڈان) پہنچ گئے ۔ نوبہ کے حاکم نے ان کا احترام کیا۔مروانیوں نے کہا: ہم شہر نوبہ کے کسی قلعہ میں رہ لیں گے تا کہ ہمیں کوئی پناہ گاہ میسر آجائے اور پھر ہم اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دیں ۔شاید خدا نے ہم سے جو کچھ لے لیا ہے اس کا کچھ حصة ہمیں پھر سے لوٹا دے۔

نوبہ کے حاکم نے ان سے کہا:ان کوّوں (سیاہ فام) کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان کے پاس لباس اور اسلحہ بہت کم ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ تم ان کے ہاتھوں کچلے نہ جاؤ۔ لہذا وہ نوبہ سے حبشہ کی   طرف فرار کر گئے اور حبشہ میں کچھ سیاہ فارم لوگوں کی مروانیوں سے لڑائی ہوئی  اور عبیداللہ بن مروان اس لڑائی میں مارا گیا اور اس کے ساتھی اسیر ہو گئے۔

 ان کے پاس جو کچھ تھا،وہ حبشیوںنے چھین کر انہیں چھوڑ دیا۔وہ برہنہ اور ننگے پاؤں بیابانوں میں پریشان حالتھے اور پیاس کی وجہ سے ان کی جان منہ کو آئی ہوئی تھی یہاں تک کہ مرد اپنے ہاتھوں میں پیشاب کرتے اور پھر اسے پیتے تھے اور اپنے پیشاب سے ریت کوگوندھ کر کھاتے تھے یہاں تک کہ وہ عبداللہ بن مروان تک پہنچ گئے۔ان سے پہلے اس نے بھی مشکلات اور پیاس کی شدت برداشت کی اور اس کے ساتھ کچھ برہنہ عورتیں تھیں کہ جو سر سے پاؤں تک عریان تھیں اور پیدل چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں  اور پیشاب پینے کی وجہ سے ان کے ہونٹ پھٹ چکے تھے ،یہاں تک کہ وہ مندب (یمن کے ساحل باب المندب) پہنچے اور ایک مہینہ تک وہاں رہے،لوگوں نے انہیں کچھ چیزیں فراہم کیں۔پھر وہ وزن اٹھانے والوں اور کشتی پر کام کرنے والوں کی شکل میں چھپ کر مکہ کے قصدسے باہر نکل گئے۔

جیسا کہ کہا گیا ہے:عبداللہ بن علی سفاح کا چچا دمشق میں بنی امیہ کا پیچھا کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ نہر ابو فطرس (فلسطین و اردن کے درمیان ایک مقام) پہنچا ۔ اس نے بنی امیہ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا:کل مجھ سے کچھ مال لینے کے لئے میرے پاس آؤ۔اس کے اگلے دن علی الصبح بنی امیہ کے اسّی(٨٠)آدمی عبداللہ کے پاس آئے،اس نے بنی امیہ کے ہر مرد کے اوپر گرز کے ساتھ دو دوشخص معین کر دیئے اور پھر عبداللہ بن علی نے شاعر (کہ جسے اس نے تدارک سے پہلے دیکھا تھا) سے کہا : اپنے اشعار پڑھو۔ شاعر کہ جس کا نام عبدی تھا،اس نے یہ شعر پڑھا:

امّا الدعاة الی الجنان فھاشم             و بنو امیّة من کلاب النار

جنہیں  جنت کی طرف دعوت دی جائے گی وہ بنی ہاشم ہیں اور بنی امیہ جہنم کے کتوں میں سے ہیں۔

 اموی خلیفہ نعمان بن یزید بن عبدالملک ،عبداللہ بن علی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا،وہ شاعر پر ناراض ہوا اور اس نے کہا: اے بدبو دار عورت کے بیٹے ؛تم  نے جھوٹ بولا ہے۔عبداللہ بن علی نے شاعر سے کہا:تم نے صحیح کہا ہے، اپنے اشعار جاری رکھو۔

پھر عبداللہ بن علی نے بنی امیہ کے آدمیوں کی طرف رخ کیا اور انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کی اہلبیت علیہم السلام کو قتل کیا تھا ۔ پھر اس نے تالی بجائی اور اس کے سپاہیوں نے بنی امیہ کے آدمیوں کے سروں پر گرز مارنے شروع کر دیئے یہاں تک کہ ان  اسّی افراد کی جان حلق پہ آ گئی ۔ ان میں سے کچھ تو نیم مردہ تھے جنہیں اس نے ایک ساتھ رکھ کر ان پر فرش بچھا دیا ۔ پھر عبداللہ بن علی اور اس کے ساتھی فرش پر بیٹھ گئے اور ان کے لئے کھانا لایا گیا اور انہوں نے کھانا کھایا۔جب کہ فرش کے نیچے سے ان میں سے کچھ کے آہ و نالہ کی آواز سنی جا سکتی تھی،عبداللہ بن علی نے کہا:حسین علیہ السلام کے دن کی طرح کا دن ،لیکن یہ دن اس دن کی طرح نہیں ہے۔([5])

 بنی امیہ کا انجام اور بری عاقبت خود ایک مثنوی بن جائے گی ۔  یہ تھی امام علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے انجام کے بارے میں  پیشنگوئی ۔ جس سے عقلمند عبرت لیں۔ ([6])

 


[1] ۔ اس خبر کی مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں کامل التواریخ:٣٣٤٤ -٣٢٧، نیزمقاتل الطالبین کے آخری حصہ میں بنی امیہ کے دور صفحہ٢٦٠ کی طرف رجوع کریں۔

[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج٢ص٣٢٥-٣٢٤

[3]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۳۲۵-٣٢٤

[4] ۔ ابولفرج علی بن الحسن اصفہانی ،صاحب کتاب ''معروف الاگان اور مقاتل الطالبین''اسی عبداللہ بن مروان کے فرزندوں  میں سے ہے۔اس نے کتاب مقاتل میں بنی امیہ پر لعنت کی حالانکہ وہ خود بھی بنی امیہ میں سے تھا۔

[5] ۔ تاریخ یعقوبی(ترجمہ آیتی):ج۲ص۳۲۵-٣٢٤

ابوالفرجج اصفہانی نے کتاب اغانی کی چوتھی جلد میں بنی امیہ کے کچھ لوگوں کے قتل ہونے کے بارے میں دوسری روایت نقل کی ہے کہ جنہوں نے سفاح سے امان لی تھی،وہ کہتا ہے:زبیر بن بکار نے اپنے چچا سے روایت کی ہے کہ ایک دن سفاح اپنے دربار میں بیٹھا تھا جب کہ اس کے پاس بنی امیہ کے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔کسی شاعر نے سفاح کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا،سفاح نے بنی امیہ کے آدمیوں کی طرف دیکھ کر کہا: اس قصیدے کا مقابلہ تمہاری شان میں کہے گئے قصیدوں سے کہاں کیا جا سکتا ہے؟امویوں میں سے ایک نے کہا: تمہارے بارے میںشعرمیں ایسی مدح نہیں کیجیسا شعر قیس الرقیات نے ہمارے بارے میں کہا اور وہ شعر یہ ہے:

''کوئی چیز بنی امیہ کے لئے ناپسند شمار نہیں کرتے مگر یہ کہ وہ غصہ کے وقت بھی بردباری کرتے ہیں، بیشک وہ بادشاہوں کا معدن ہیں اور عرب صرف انہی کے ذریعہ صلاح تک پہنچیں گے۔

سفاح غصہ میں آ گیا اور اس نے کہا:اے فلاں؛ اپنی ماں کافلاں کاٹو!گویا اب بھی تمہارے سروں میں خلافت کی ہوس بھری ہوئی ہے۔پھر اس نے حکم دیا تا کہ اس کے مأمورین ان کے سروں پرماریں۔سفاح کے سپاہیوں نے گرز کے ساتھ اپنی مجلس میں بنی امیہ کے تمام آدمیوں کو مار ڈالا۔پھر ابوالعباس سفاح نے حکم دیا کہ غذا تیار کی جائے، ان کے جسموں پر فرش بچھایا گیا اور سفاح نے ان پر بیٹھ کرکھانا کھایاجب کہ ان میں سے کچھ زندہ تھے اور وہ آہ و نالہ کر رہے تھے۔ جب اس نے کھانا کھا لیا تو سفاح نے کہا: مجھے یاد نہیں   ہے کہ میں نے کبھی اس سے بہتر غذا کھائی  ہو۔ پھر اس نے حکم دیا کہ مردوں کو گھسیٹ  کر انہیں محل سے باہر لے جائیں اور گلی میں پھینک دیں۔

یہ خبر بیان کرنے والا کہتا ہے: ہم نے خود دیکھا کہ کتے ان مردوں کو پاؤں  سے پکڑ کر ادھر ادھر گھسیٹ رہے تھے جب کہ ان کے جسم پر مہنگے لباس تھے اور آخر کار وہ  سڑ گے اور انہیں ایک گڑے میں دفن کر دیا۔ (جلوہ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج٣ص٣٩٤ اغانی سے منقول)

[6]۔ پیشگوئی ھای امیرالمؤمنین علیہ السلام:٢٠٣

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2119
    آج کے وزٹر : 3291
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131671431
    تمام وزٹر کی تعداد : 91339816