حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں:

     جو خطبہ ''حتّی بعث اللّٰہ محمداً صلّی اللّٰہ علیہ شھیداً و بشیراً و نذیراً'' ( یہاں تک کہ خدا نے حضرت محمد ۖ کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ گواہ، خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہوں) کی عبارت سے شروع ہوتا ہے، اس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گلہ اور آنحضرت کے قسم (کہ بنی امیہ بہت جلدحکومت دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھیں گے) کے متعلق عبارت میں کچھ کلمات و تعبیرات کی وضاحت کے بعد تفصیلی طور پر تاریخی بحث بیان کی گئی ہے کہ جو یوں ہے:

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے گلہ و شکوہ کو دہراتے ہوئے فرمایا:

جی ہاں! دنیامیں تمہارے ہاتھ کھول دیئے گئے ہیں حالانکہ جو حکومت و ریاست کے لائق ہیں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ تمہاری تلواریں اہلبیت کے افراد (جو حقیقت میں رہبر وسالار ہیں) پر غالب اور ان کی تلواریں تم سے دور کی گئی ہیں۔

 گویا حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے افراد کے قتل ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ان کا مشاہدہ فرمایا اور اس بارے میں خطاب کرتے ہیں اور آپ کے کلام کی بنیاد وہ فکر ہے کہ جو آپ ک ے ذہن میں آئی۔پھر آپ نے فرمایا:

بیشک ہر خون کا کوئی خونخواہ ہوتا ہے کہ جو اس کا مطالبہ کرتاہے اور ہمارے خون کا خونخواہ خدائے احد کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جوکسی بھی کام کو انجام دینے سے عاجز و ناتوان نہیں ہے  اورکوئی بھی فرار کرنے والا اس سے فرار نہیں کر سکتا۔

 اور یہ جو کہا: ''گویا خدا اپنے حق میں  حکم  کرے گا''یعنی خداوند ہمارے خون کا مطالبہ کرنے میں کوتاہی نہیں فرمائے گا۔ایسےحاکم کی طرح کہ جو اپنے بارے میں حکم کرے اور خود ہی قاضی ہو کہ اس صورت میں اپنے حقوق کے بارے میں مبالغہ و کوشش کرے گا۔

 پھرحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے قسم کھائی اور واضح الفاظ میں بنی امیہ کا نام لے کر ان سے خطاب کیا اور ذکر فرما یاکہ وہ بہت جلد دنیا دوسروں کے ہاتھوں اور گھروں میں دیکھیں گے اور ان کے دشمن بہت جلد ان کے ہاتھوں سے بادشاہی و حکومت چھین لیں گے  اور جس طرح حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے خبر دی تھی اسی طرح ہوا۔نوے(٩٠) سال کے قریب حکومت ان کے  پاس تھی اور پھر خاندان ہاشم کے پاس لوٹ گئی اور خدا وند نے ان کے سب سے بڑے دشمن کے ہاتھوں سے ان سے انتقام لیا۔

  ابن ابی الحدید کے قول کی رو سے جنگ زاب میں مروان بن محمد کی شکست اورپھر اس کا قتل ہونا:

     عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن عباس عظیم لشکر کے ساتھ مروان بن محمد(آخری اموی خلیفہ ) کا سامنا اور اس سے جنگ کرنے کے لئے  روانہ ہوا اور نہر ''زاب''([1])  کے کنارے موصل کے مقام پر ان کا سامنا ہوا۔

     اگرچہ مروان بھی بہت بڑے لشکر اور بہت زادہ افراد کے ساتھ تھا لیکن اس نے شکست کھائی اور بھاگ گیا۔عبداللہ بن علی نے اس کی لشکر گاہ پر فتح پائی اور اس کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔مروان نے ڈرتے ہوئے شام کا راستہ اختیار کیا اور عبداللہ بن علی نے اس کا پیچھا کیا۔

     مروان مصر چلا گیا تو عبداللہ نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھاکیا اور''بوصیر اشمونین'' (جو صعید مصر کی طرف سے ہے)میں اس نے اسے اور اس کے تمام نزدیکی افراد کو قتل کر دیا۔

     عبداللہ بن علی نہر ''ابی فطرس''([2])(جو فلسطین کے نواح میں ہے)کے کنارے بنی امیہ کے اسّی(٨٠) افراد کو مثلہ کیا اور پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں قتل کردیا ۔ حجاز میں اس کے بھائی داؤد بن علی نے بھی ایسا ہی کیا اور تقریباً اسی تعداد کے برابر انہیں قتل کیا اور مختلف صورتوں سے انہیں مثلہ کیا یعنی ان کے اعضاء کاٹ دیئے۔

     جب مروان قتل ہوگیا تو اس کے دو بیٹے عبداللہ اور عبید اللہ(جو دونوں اس کے ولی عہد تھے) اس کے ساتھ ہی تھے اور دونوں اپنے مخصوص لوگوں  کے ساتھ'' اسوان مصر''کی طرف بھاگ گئے   اور  وہاں سے سرزمین نوبہ(سوڈدان)کی طرف چلے گئے ۔راستے میں انہیں سخت  مشکلات اور تکالیف  کا سامنا کرنا پڑا اور عبداللہ بن مروان اپنے  ساتھیوں کے ساتھ ہی قتل ہو گیا اور کچھ لوگ راستے کی زحمتوں اور پیاس کی وجہ سے مر گئے۔

عبیداللہ کچھ لوگوں کے ساتھ سرزمین ''بجة'' پہنچ گیا جب کہ ان کی جانمنہ کو آئی ہوئی تھی اور وہ دریائے سرخ سے عبور کرے جدّہ کے ساحل پر پہنچے۔ عبیداللہ اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کے ساتھ چھپ چھپا کے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے تھے اور وہ بادشاہی کے بعد رعایا کی صورت میں زندگی گذارنے پر بھی خوش تھے۔ عبیداللہ کا انجام یہ ہوا کہ وہ سفاح کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور قید کر دیا گیا۔اس نے سفاح کی خلافت  اور منصور و مہدی و ہادی کی حکومت کے زمانے اور رشید کی حکومت کے کچھ زمانے تک اپنی زندگی قید میں گذاری۔

 رشید نے اسے زندان سے باہر نکالا جب کہ وہ بوڑھا اور اندھا ہو چکا تھااور اس سے اس کے بارے میں پوچھا :

 اس نے کہا:اے امیرالمؤمنین !جب میں نوجوان اور بینا تھا مجھے قید کیا گیا اور اب بوڑھے اور اندھے شخص کی صورت میں قید سے باہر لایا گیا ہوں۔

 کہا گیاہے:وہ رشید کے زمانے میں ہی مر گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے :وہ امین کے زمانے تک زندہ تھا۔

* * *

 ایک روایت کے مطابق جنگ زاب میں ابراہیم بن ولید بن عبدالملک (جسے خلافت سے معزول کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے بھائی کی موت کے بعد یزید بن ولید بن عبدالملک نے اس کے نام خلافت کا خطبہ پڑھا تھا) مروان کے ساتھ تھا اور مارا گیا اور دوسری روایت کے مطابق مروان حمار نے ابراہیم کو اس سے پہلے قتل کیا ہے۔

 جب مروان کو جنگ زاب میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف بھاگ گیا لیکن موصل کے لوگوں نے اسے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔وہ مجبوراً ''حران''چلا گیا کہ اس کا گھر اور جگہ بھی وہیں تھی۔ اس زمانے میں کہ جب منبروں اور نمازوں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر لعن کو ختم کر دیا گیا تھا،حرّان کے لوگوں نے اس بات کو قبول نہ کیا اور انہوں نے کہا:ابوتراب پر لعن کئے بغیر نما ز،نماز نہیں ہے!

عبداللہ بن علی نے اپنے لشکرکے ساتھ مروان کا پیچھا کیا اور جونہیں حرّان پہنچا تو مروان اس کا مقابلہ کرنے سے بھاگ گیا اورنہر فرات سے بھی گذر گیا۔عبداللہ بن علی حرّان پہنچا اور اس نے مروان کے محل کو تباہ و برباد کر دیا کہ جس کی تعمیر میں اس نے ایک کروڑ درہم خرچ کئے تھے اور جسں میں اس نے اپنے خزانے اور اپنا مال رکھا تھا۔

     مروان اپنے خاندان کے افراد،بنی امیہ اور اپنے خاص لوگوں کے ساتھ نہر ابی فطرس کے کنارے آیا اور عبداللہ بن علی بھی روانہ ہو گیا اور دمشق کے قریب  پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔مروان کی طرف سے ولید بن معاویہ بن عبدالملک بن مروان پچاس ہزار جنگجوؤں  کے ساتھ دمشق کی حکومت کی طرف روانہ ہوا تھا اور خداوند متعال نے ان کے درمیان یہ تعصب پیدا کر دیا کہ نزاریوں کو یمانیوں پر برتری ہے یا یمانیوں کو نزاریوں پر۔ یوں وہ آپس میں ہی لڑنے لگے اور ولید بن معاویہ مارا گیا۔

 کہتے ہیں:وہ عبداللہ بن علی سے جنگ کرتے ہوئے مارا گیا۔

عبداللہ نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور یزید بن معاویہ بن مروان  اور عبدلجبار بن یزید بن عبدالملک کوگرفتار کر لیا  اور انہوں قیدیوں کی صورت میں ابوالعباس سفاح کے پاس بھیج دیا اور اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان کے جسم کو حیرہ میں  پھانسی پرلٹکا دیا۔

عبداللہ بن علی نے دمشق میں بھی مروان کے بہت سے رشتہ داروں،ساتھیوں اور بنی امیہ کے پیروکاروں کو قتل کیا۔پھر وہ نہر ابی فطرس کے کنارے پہنا اوراس نے وہاں بنی امیہ کے تقریباً اسّی(٨٠) افراد کو قتل کیا۔یہ واقعہ     ١٣٢ھ ذی القعدہ میں پیش آیا۔([3])

 


[1]۔ اس سے مراد زاب کی بالائی نہر ہے کہ جوموصل اور اربل کے درمیان ہے۔

[2] ۔ صاحب ''مراصد الاطلاع'' نے اس کلمہ میں (ف) کو پیش(ط) کو سکون اور(ر)کو پیش کے ساتھ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : یہ رملہ کے نزدیک اور فلسطین  میں سے ہے۔

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۳۷۳

 

 

    ملاحظہ کریں : 1945
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 88106
    تمام وزٹر کی تعداد : 131646796
    تمام وزٹر کی تعداد : 91318432