حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
٢- ایک دوسرا گروہ

٢- ایک دوسرا گروہ

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک دوسرے گروہ کا بھی سامنا تھا ؛جنہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کیں،اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کے دلوں میں اسلام راسخ نہیں ہوا تھا حتی کہ وہ اسے نیست و نابود کرنے کے لئے کوشاں  تھے۔خداوند کریم نے قرآن کی بہت سی آیتوں میں ان کی سخت سرزنش کی ہے اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔

اگر تاریخی شواہد سے استفادہ کیا جائے تو ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے والوں میں  اکثریت یہودیوں کی تھی۔ابن اسحاق نے اپنی کتاب کے ایک باب  میں یہودیوں کے کچھ علماء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے ظاہراً تو اسلام کیا لیکن وہ منافقین کا حصہ تھے۔ان افراد میں رفاعة بن زید بن تابوت، زید بن لصیت،عثمان اور نعمان جو اوفی کے بیٹے شامل  تھے،رافع بن حریملہ،سعید بن حنیف، سلسلة بن براہام اور کنانة بن صوریا۔[1]

بلاذری نے سوید،داعس،مالک بن ابی نوفل(نوقل) اور لبید بن اعصم کا نام بھی ذکر کیا ہے۔[2]

ان ناموں میں سے زید بن لصیت(لصیب) کا نام تاریخ اور سیرت کی اکثر و بیشتر کتابوں میں نظر آتا ہے۔مؤرخین نے کہا ہے:جنگ تبوک میں جب پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اونٹ گم ہو گیا تھا تو زید نے کہا:محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور آسمان کی خبر دیتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان کی سواری کہاں ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی ان باتوں کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:خدا نے جو کچھ مجھے تعلیم دیا میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اب خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔مسلمان اسی جگہ گئے جس کے بارے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بتایا تھااور وہاں سے اونٹ لے آئے۔[3]

واقدی نے یہ واقعہ دو جگہ غزوۂ بنی مصطلق اور جنگ تبوک میں ذکر کیا ہے۔[4] جس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ ملتا جلتا واقعہ دوبار پیش آیا ہو۔لیکن اس میں شک نہیں ہےکہ اصل واقعہ ایک ہی بارپیش آیا تھالیکن جب مختلف راویوں نے اسے نقل کیا تو غزوہ کو معین کرنے میں(جس میں یہ واقعہ پیش آیا) ان میں اختلاف اور  اشتباہ ہوا۔

رفاعة بن زید بن تابوت ( واقدی نے جس کا نام’’زید بن رفاعة بن تابوت ‘‘لکھا ہے)کے بارے میں ذکرہواہے:غزوۂ مریسیع (بنی مصطلق) سے واپسی پر تند و تیز ہوا چلی جس سے مسلمان خوفزدہ ہو گئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:ڈرو نہیں۔یہ ہوا مدینہ میں منافقوں کے ایک بزرگ کی موت کی وجہ سے چلی ہے۔جابر بن عبداللہ نے کہا:جب ہم مدینہ پہنچے تو میں نے گھر جانے سے پہلے پوچھا کہ آج کس کی موت واقع ہوئی ہے؟کہا:زید بن رفاعہ۔[5]

طبری نے بھی یہ واقعہ غزوۂ مریسیع میں ذکر کیا ہے [6] ، لیکن جنگ تبوک کا واقعہ بیان کرتے وقت بھی اس کے نام کو دوہرایا ہے۔[7]

ابن اسحاق نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی سے ملتا جلتا جملہ رافع بن حریملہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ جب تند و تیز ہوا چلنا شروع ہوئی تو فرمایا:آج منافقوں کا ایک بڑا مر گیا ہے۔لیکن سیرت کے ایک دوسرے مقام پر اس کا نام ذکر کرکے اسے یہودیوں میں سے شمار کیا ہے جس میں اس کے اسلام قبول کرنے اور نفاق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔[8]

بلاذی نے یہودیوں کے کنیسہ میں منافقین کی رفت و  آمد کی خبر دی ہے اور ایک ددوسری جگہ کہا ہے:مالک بن نوفل (جو یہودی عالم تھا)نے اسلام تو قبول کیا لیکن وہ یہودیوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خبریں پہنچاتا تھا۔[9]

گزشتہ ابحاث سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں یہودی ہونے کی وجہ سے کچھ منافقین کے ان دو گروہوں کے ساتھ  اچھے تعلقات تھے۔بنی قینقاع اور بنی نضیر کے دو حادثوں میں عبداللہ بن ابی(منافقین کا سرکردہ)کی جانب سے یہودی دوستوں کو چھڑانے کی کوششوں کو اس مطلب کی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ابن ابی کے ساتھی اور ہم فکریہودیوںمیں سےتھے جن کے نام مؤرخین نے اسی کے ساتھ ذکر کئے ہیں اور جن کے نام پہلے ذکر کئے گئے ہیں۔[10]

 


۱۔ سیرۂ ابن ہشام:ج١ص٥٢٧ .

۲۔ انساب الاشراف:ج١ص٣٣٩ اور ٣٤٠ .

۳۔ تاریخ الطبری:ج٣ص٣٧٠ .

۴۔ المغازی:ج١ص٢٤ اور ج٢ص١٠١٠.

[5] ۔ المغازی:ج١ص٤٢٣،سیرۂ اب ہشام:ج٢ص٢٩٢(کچھ فرق کے ساتھ).

[6]۔ تاریخ الطبری:ج٢ص٢٦٢ .

[7]۔ تاریخ الطبری:ج٢ص٣٦٧ .

[8]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج١ص٥٢٧،انساب الأشراف:ج١ص٣٤٠ .

[9]۔ انساب الأشراف:ج١ص٣٢٩ اور ٣٣٩ .

[10]۔پیغمبر(ص)و یہود حجاز:٥۲ .

    ملاحظہ کریں : 2936
    آج کے وزٹر : 35170
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131541156
    تمام وزٹر کی تعداد : 91212560