حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حجاج ؛ یہودیوں کے افکار کی نشر و اشاعت کرنے والا

حجّاج؛ یہودیوں کے افکار کی نشر و اشاعت کرنے والا

 

کتاب’’تاریخ  تحلیلی  اسلام‘‘میں  لکھتے  ہیں:

جتنے سال حجّاج کی حکومت زیادہ ہوتی گئی، اسلام اور دین کے خلاف اس کی سرکشی اور گستاخی بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے ایک خطبہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا:ان لوگوں کو موت آئے!کیوں یہ لوگ مٹی کے ڈھیر اور لکڑی کے گرد چکر لگا رہے ہیں؟!یہ امیر المؤمنین عبدالملک !!کے دربار کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیاانہیں معلوم نہیں ہے کہ ہر شخص کا خلیفہ اس کے رسول سے بہتر ہے![1]

چونکہ دوسرے حاکم خلیفہ کی نظر میں اس کی حرمت کو جانتے تھے لہذا وہ اس کی چاپلوسی کرتے اور اس کا تقرّب حاصل کرنا چاہتے تھے!

حجّاج نے نئے سرے سے پورے عراق اور مشرقی علاقوں میں اپنی دہشت گرد  حکومت کا آغاز کیا ۔ اس نے کوفہ کے بہت سے بزرگ اور نیک افراد کو بے گناہ قتل کیا ۔حجاج وہی شخص تھا جس نے خوارج کی بغاوت اور فسادات کی آگ کو بجھایا۔اس نے دلوں میں اتنا خوف پیدا کر دیا تھا کہ اس نے  نہ صرف عراق بلکہ پورے خوزستان اور مشرق پر بھی با آسانی قبضہ کر لیا تھا ۔

اگرچہ حجّاج اپنے ماتحت افراد پر بہت سختی کرتا تھا لیکن حاکموں کے سامنے بہت خشوع و خضوع اور چاپلوسی سے پیش آتاتھا۔جیسا کہ اس نے عبدالملک کو خط لکھا:میں نے سنا ہے کہ امیر المؤمنین!!کو محفل میں چھینک آئی اور وہاں موجود لوگوں نے ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہ‘‘کہا ہے،’’فَیٰا لَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَھُمْ فَأَفُوْزَ فَوْزاًعَظِیْماً‘‘![2]

وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے زیادہ عبدالملک کے مقام و مرتبہ کا قائل تھا  اور کہتا:لوگو!کیا تمہاری طرف بھیجا گیا رسول زیادہ عزیز ہے یا تمہارا خلیفہ؟پیغمبر ، خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور عبدالملک اس کا خلیفہ ہے۔[3]، [4]

عبدالملک بھی لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف سے روکنے کی کوشش کرتا تھا اور لوگوں کے سامنے مکہ و مدینہ کی بجائے  شام کو حرم خدا کے طور پر متعارف کرواتا تھا ۔

یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:

جب اسے رومیوں اور ابن زبیر کی طرف سے دھمکیاں ملیں تو اس نے پہلی بار رومیوں کے ساتھ چارہ سازی  کے بارے میں سوچا اور سلطنت روم کے ساتھ معاہدہ کیا اور بہت زیادہ ٹیکس دینے کی ذمہ داری لی۔چونکہ اسے بیرونی دشمنوں سے راحت مل چکی تھی لہذا وہ ابن زبیر کوکچلنے کے لئے تیار ہو گیا۔حجاز سے مقابلہ کے لئے اس نے فوجی اور سیاسی دونوں حربے استعمال کئے ۔

اس نے سب سےپہلے اس کے لئے حج کو ممنوع قرار دے دیا تاکہ کہیں شام کے حاجی ابن زبیر کی تبلیغات سے متاثر ہو کر شام میں  اس کی دعوت کو نہ پھیلائیں۔

یعقوبی لکھتے ہیں:لوگوں نے شکایت کی کہ کیوں ہمیں واجب حج سے روک رہے ہو؟

عبدالملک نے کہا:پیغمبر سے ابن شہاب زہری نے روایت کی ہے کہ تین مساجد کی زیارت کے لئے جانا چاہئے:مسجد الحرام،میری مسجد(مسجد نبوی)اور مسجد بیت المقدّس۔آج تمہارے لئے بیت المقدّس کا احترام مسجد الحرام کے برابر ہے!!

اسی ابن شہاب  نے یہ کہا تھا: جس پتھر پر یہودی قربانی کرتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پرپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)  نے شب معراج قدم رکھاتھا!

عبدالملک کے حکم پر اس پتھر پر ایک گنبد بنایا گیا جس پر ریشم کے پردے آویزاں کئے گئے ،اس کے لئے خادم معین کئے گئے اور لوگوں کو اس کا طواف کرنے پر مجبور کیا گیا۔بنی امیہ کے پورے دورۂ حکومت میں یہ رسم جاری رہی۔[5]

عبدالملک یہ چاہتا تھا کہ مکہ و مدینہ کی رونق کو ختم کرکے مسلمانوں کی نظر میں شام کو حرم خدا کے طور پر پیش کرے ۔ کچھ حکمرانوں نے بھی اس  کے اس عمل کی تقلید کی ہے۔[6]

اب اس واقع پر بھی توجہ کریں:

جب عبدالملک کے بیٹے سلیمان نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے آثار میں سے ایک اثر کو نابود کیا تو عبدالملک  نے اسے بہت سراہا۔کتاب’’مقالات  تاریخی  ‘‘میں  لکھتے  ہیں:

سلیمان بن عبدالملک ولی عہدی کے زمانے میں مدینہ آیا اور اس نے ابان بن عثمان بن عفّان سے سنا کہ اس نے ایک سیرت تحریر کی ہے۔[7]اور جب اس کے سامنے  وہ سیرت پڑھی گئی تو اس نے دیکھاکہ اس میں انصار کے قبلۂ اوّل و دوّم اور جنگ بدر میں حاضر ہونے والوں کا تذکرہ ہے ۔

سلیمان نے کہا:’’ما کنت أری لھولاء القوم ھذا الفضل‘‘ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس قبیلہ میں بھی کوئی فضیلت ہے۔

اس کے بعد اس نے حکم دیا اور اس سیرت کو جلا دیا گیا۔جب وہ واپس دمشق پہنچا تو اس کے باپ نے اس کام کی وجہ سے اس کی تعریف کی اور کہا:’’ما حاجتک أن تقدم بکتاب لیس لنا فیہ فضل‘‘[8]

عبد الملک کے مطابق جس کتاب میں بنی امیہ کی فضیلت بیان نہ ہوئی ہو ،اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگرچہ وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرمودات کا مجموعہ ہی کیوں نہ ہوں۔

کتاب’’امویاں‘‘ میں لکھتے ہیں:طاقت کے زور پر انہوں نے ایسی سیاست اختیار کی تھی کہ بہترین  ممکن شکل میں بھی انہوں نے اسلام کے تقاضوں کا ذرّہ برابر خیال نہیں کیا اور بدترین ممکن شکل میں قطعی طور پر اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ان کے سنگین ترین جرائم میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے خلافت کو اپنے خاندان کے لئے موروثی بنا لیا۔

انہوں نے اسلام کے بہت سے پیروکاروں پر ظلم و ستم کئے حتی ان میں سے کئی افراد  ،خاندان پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اورخاص طور پر آنحضرت کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔انہوں نے شہر مکہ و مدینہ پر حملہ کیا اور یہاں تک کہ انہوں نے  دو بار مکہ کو اپنے تیروں سے نشانہ بنایا۔

 روایات ہمارے لئے بنی امیہ کی یہ بھیانک تصویربخوبی آشکار کرتی ہیں۔یہاں تک کہ امویوں نے دوسروں کو اسلام  کی طرف مائل ہونے سے بھی روکا  تا کہ وہ تازہ مسلمانوں ہونے والوں کو دیئے جانے والے حقوق پر بھی خود ہی قابض رہیں اور طاقت کے زور پر زبردستی حکومت کرتے رہیں۔

اس دور میں ایسے ادبی آثار لکھے گئے ہیں جن میں بنی امیہ کے جرائم اور ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہے ، ان کے حریفوں اور دشمنوں کی منظوم ستائش کی گئی ہے اور خدا کو گواہ قرار دیاہے کہ اسلامی معاشرہ کیوں خدا سے بے خبر ان ظالموں کے ہاتھوں گرفتار رہا۔ان آثار میں سب سے آشنا  نام جاحظ کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو نویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور مقریزی کی کتاب جو پانچویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔[9]

 


۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۱۵ص۲۴۲،عقد الفرید :ج۵ص۲۸۴،مروج الذہب:٤٤٢ .

۱۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸٦ .

۲۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸٦.

۳۔ تاریخ تحلیلی اسلام:٢٠٥ .

۱ ۔ تاریخ یعقوبی:ج۳ص۸.

۲۔ تاریخ تحلیلی اسلام:٢٠٢ .

۳۔ سیرت کو لکھنے والا ابان بن عثمان بن عفان تھا یا کوئی دوسرا شخص؟اس کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ کریں:

دوسری صدی ہجری میں سیرت لکھنے والوں میں سے ایک ’’ابان بن عثمان بَجلی‘‘ہے اور اکثر و بیشتر حوالوں میں اسے ’’ابان بن عثمان الأحمر البجلی‘‘کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔صرف یاقوت حموی نے ’’ابان بن عثمان بن یحیی بن زکریا اللؤلؤی‘‘کے نام سے ان کا تعارف کروایا ہے ۔اس کی یہ وجہ ہے کہ  یاقوت نے حوالوں یعنی’’الفہرست(شیخ طوسی)‘‘ سے استفادہ کرنے میں دو زندگی ناموں کو آپس میں ملا دیا ہے۔

شیعہ منابع میں جو کچھ ذکر ہوا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ بجیلہ نامی قبیلہ کے موالیوں میں سے تھا ۔یہ معلوم ہے کہ ’’موالی ‘‘ہونے سے عجمی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ اسلام سے پہلے اور شاید بعد میں بھی خود عربوں میں عقد ولاء موجود تھا۔اس کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت سے زید بن حارثہ کا ولاء یا بنی مخزوم کی نسبت سے عمار بن یاسر کا ولاء ہے۔اس صورت میں ابان کے عجمی ہونے کا قوی احتمال ہے۔بجیلہ قبیلہ کو ایک قحطانی قبیلہ سمجھا گیا ہے۔یہ قبیلہ بھی حجاز یا یمن کے بہت سے دوسرے قبائل کی طرح فتوحات کے آغاز میں عراق کوچ کر گیا اور یہ قادسیہ میں موجود تھا۔اس جنگ میں کچھ ایرانیوں نے خود کو عربوں سے ملحق کیا اور ان کی ولاء کو قبول کیا۔  ان میں سے کافی لوگ  قید کر لئے گئے اور پھر آہستہ آہستہ آزاد ہونے کے بعد موالی کے عنوان سے عربی قبائل سے ملحق ہو گئے ۔ قبیلۂ بجیلہ جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا حتی انہوں نے مختار کے مخالفین کے خلاف مختار کابھی دفاع کیا ہے۔(معجم قبائل العرب:٦٥١-٦٣)

اس لحاظ سے اس قبیلہ میں تشیع کے آثار تلاش کرنے چاہئیں۔

احمر کے علاوہ ان کے لئے محمد بن سلام(جو ان کے شاگردوں میں سے تھا)نے ایک اور لقب بھی ذکرکیاہے اور وہ ’’الأعرج‘‘ہے ۔ انہوں نے کچھ موارد میں انہیں ’’أبان الأعرج‘‘کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔(نک:طبقات فحول الشعراء:ج٢ص٤٨٢) طبقات الشعراء میں أبان سے ان کی مکرّر ذکر ہونے والی متعدد روایات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ہمارامور نظر أبان ہی ہے۔  یہ احتمال بھی ہے کہ اعرج ،أحمر سے تصحیف ہوا ہو۔

اس نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ ’’أبان بن عثمان الأحمر‘‘کے علاوہ ’’أبان بن عثمان بن عفّان‘‘کے نام سے کوئی دوسرا شخص بھی موجود تھا کہ جو عثمان کا بیٹا تھا  اور اس کے علاوہ اس کے پاس کئی سال مدینہ کی حکومت بھی تھی  اور جس کے بارے میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ سیرۂ نبوی کی روایات لکھنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ تھا۔

نام میں تشابہ کی وجہ سے بعض لوگ غلطی سے عثمان بن عفان کے بیٹے کو ’’أبان‘‘کی بجائے امامی مذہب قرار دیتے ہیں۔ان میں سے ’’فؤادد سزگین‘‘نے زمانۂ اوّل کے سیرت  نگاروں میں ابان بن عثمان بن عفان کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’تاریخ یعقوبی‘‘میں اس سے کچھ منقولات  بھی ذکر ہوئے ہیں۔(تاریخ التراث العربی،التدوین التاریخی:٧٠)

حلانکہ تاریخ یعقوبی میں جس شخص سے منقولات ذکر ہوئے ہیں ،وہ ابان بن عثمان الأحمر ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ خود یعقوبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ (ابان )حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہے۔

نیز یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ عثمان کے بیٹے ( جس نے جنگ جمل میں عائشہ کے ساتھ مل کر جنگ کی)کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہو۔اس کے علاہو  شیعہ حدیث کے منابع پر مختصر سی نظر ڈالنے اور ابان کی احادیث سے تھوڑی بہت  آشنائی رکھنے سے یہ  پتہ چلتا ہے کہ اس میں دو ناموں کو آپس میں غلطی سے مخلوط کر دیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کوفی تھے کیونکہ قبیلۂ بجیلہ کوفہ میں تھا۔

نجاشی ’’أصلہ کوف‘‘کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''کان یسکنھا تارة و البصرة تارة''۔اسی وجہ سے بہت سے بصری جیسے ابو عبیدہ ،معمر بن مثنّی  اور محمد بن سلام بصرہ میں ان کے شاگردوں میں سے تھے۔(رجال النجاش:١٣ رقم ٨)

 قابل ذکر ہے کہ ’’کشی‘‘میں نقل ہونے والی عبارت میں وارد ہوا  ہے:’’و کان أبان من اہل البصرة‘‘(رجال الکشی:٣٥٢ رقم٦٦٠)

یہ جان لیں کہ أبان اصحاب اجماع میں سے تھے؛ ’’أجمعت العصابة علی تصحیح ما یصحّ عنھم‘‘یعنی جن سے انتساب دینا صحیح ہو اس میں کوئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔یہ علمی وثاقت  کے لحاظ سے ابان بن عثمان کے بلند مرتبہ ہونے  کی واضح دلیل ہے۔وہ فقہ  میں بے شمار ابواب کی روایات کے راوی ہیں، جو کتب اربعہ اور دوسرے فقہی آثار میں روایت ہوئی ہیں۔علامہ تستری نے ’’قاموس الرجال‘‘میں ہمارے لئے ان سے ایک فہرست  ذکر کی ہیں۔کتاب’’الفروع کافی‘‘میں ابان بن عثمان سے نقل ہونے والے موارد دوسرے محققین نے فراہم کئے ہیں۔(الشیخ الکلینی و کتابہ الکافی:٢٦٣-٢٩٩)۔ منابع تاریخ اسلام:٦٣۔

۱۔ مقالات تاریخی:٢٦٣ .

۱ ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۲۷ .

    ملاحظہ کریں : 1882
    آج کے وزٹر : 9903
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131684631
    تمام وزٹر کی تعداد : 91346428