حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا

امویوں کی طرف سے یہودیوں کی حمایت

اس کے بعد ’’گلدزیہر‘‘نے لکھا ہے:اس زمانے میں دوسری تبدیلی مسلمانوں کی روائی سنت کے خلاف تنقیدی رویہ تھا ، جس نے  امویوں کی کامیابی کو مثبت نظر سے دیکھا۔

’’ولہاوزن‘‘ کے مطابق اموی انتطامیہ کی مدد سے ایک سلطنت کے قیام کے لئے کوشاں تھے اور یہ سب حکومتی مشینری کے ذریعہ عمل میں آیا ۔’’ہینری لامنز بلژکی‘‘  کی تحریروں میں یہ تحسین اور زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے۔

’’لامنز‘‘ (Lammens) امویوں کو شام میں عربوں کی ملّی حکومت کا بانی سمجھتے ہیں اور اسے اسلام کے زیر تسلّط نہ جانے کی وجہ سے ایک طاقتور اور کامیاب حکومت قرار دیتے ہیں۔

 اپنے آبائی ملک سے عشق و محبت کی وجہ سے اس مہاجر مؤلف نے اپنے علم و دانش کو عربی منابع کے مطالعہ میں استعمال کیا اور اپنی چاہت کے مطابق اموی حکومت کا بہت ہی مناسب چہرا دکھایا۔انہوں نے اپنی تحریروتألیف کا زمانہ لبنان میں گزاراجو تاریخی اعتبار سے شامِ کبیر کا ایک حصہ  شمار کیا جاتا تھا۔حقیقت میں ان کا کام یہ تھا کہ مختلف منابع میں امویوں کے دفاع میں مطالب جمع کریں اور اسے اسلام کی روائی سنت کے خلاف چھپے ہوئے عام تعصب کو حربہ کے طور پر استعمال کریں۔

مجموعی طور پر تقریباً کچھ عرصہ پہلے تک غربی محققین اسی طرح ان دو رویوں پر ہی عمل پیرا رہے اور گلدزیہر،ولہاوزن،لامنزاور ان کے کچھ ہم عصرجیسے ’’ک.ھ بکر‘‘اس سے آگے نہیں بڑے۔

١٩٤۰ء کی دہائی کے آخر میں امریکی محقیق D.C Dennettنے طیارے کے حادثہ میں اپنی موت سے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ولہاوزن کے تجزیے کے مطابق امویوں کے ٹیکس کے نظام پر اعتراض  وارد ہوتاہے اور جو عباسی انقلاب کی اصطلاح کے بارے میں تجزیہ پر دلالت کرتا ہے۔

دوسرے محققین نے امویوں کے زوال کے بارے میں ولہاوزن کے نتائج پر تنقید کی ہے اور وہ معتقد ہیں کہ اس نے حد سے زیادہ  عربوں کی حیثیت اورہاشمی تحریک میں ایرانی سربراہوں کے کردار پر زور دیا ہے۔اور اسی تاکید سے ایک برعکس تاکید وجود میں آتی ہے  جو اسلامی تاریخ میں عربوں کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ۔اس کی تائید کے لئے '’’ایم.اے.شبان‘‘ کے آثاربطور نمونہ پیش کیا۔

ان سب تنقیدوں کے باوجود ولہاوزن نے اموی تاریخ میں جو عمارت تعمیر کی وہ  آج بھی وسیع  بنیادوں قائم ہے ۔لیکن پھر بھی اس کے منابع میں تجزیاتی روش کو ناکارہ بلکہ شبہ آمیز سمجھا گیا ہے اور اسے قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے۔کچھ دانشوروں کو اس بارے میں شک و شبہ ہے کہ کیا اموی دور کے بارے میں کوئی تفصیلی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلےسنہ ١٩٥٠ء میں تاریخ صدر اسلام کے مرجع کے عنوان سے مسلمانوں کی روائی سنت پر مکمل طور پر اعتراض کیا گیا  جس پر گلدزیہر نے اپنے آثار میں مہر تائید ثبت کر دی اور بعد میں اس کے شاگرد ’’جی.شاخت‘‘نے زیادہ شدت کے ساتھ اپنے استاد کے فکری سفر کو جاری رکھا۔

’’شاخت ‘‘نے اسلامی شریعت کے مآخذکے بارے میں تاریخی تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا کہ اسے اپنے استاد کے نظریات کی تائید میں بہت سے شواہد ملے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی روایات پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہیں  اور ان سب سے بڑھ کران کی تشکیل پر قانونی تنازعہ اثرانداز ہوتا ہے۔!!

پھر کچھ ایسے لوگ بھی پائے گئے جنہوں نے ’’شاخت‘‘کی تحقیقات کی مدد سے  روائی سنت میں تاریخ صدر اسلام کی تحقیقات پر حملہ کیا۔

سنہ ١٩٧٣ءمیں’’اے.نٹ‘‘نے’’Untersuchungen Quellenkritische‘‘کے نام سے اپنی ایک کتاب شائع کی جس میں اس نے منابع کا تجزیہ کرنے والی’’ولہاوزن‘‘ کی بنیاد پر اعتراض کئے۔اس نے اس بات پر زور دیا کہ تاریخی روایات کو جمع اور منتقل کرتے وقت انہیں پھر سے نئی طرز پر لکھا گیاحتی کہ ابتدائے اسلام کے اخباریوں کا ابتدائی روائی سنت میں کوئی عمل دخل نہیں تھا ،جب کہ ان کی تحریروں کا خلاصہ ہمارے منابع میں موجود ہے۔بلکہ وہ بھی ایسی معلومات کو جمع و تدوین کرنے والے تھے کہ جن تک رسائی سے پہلے  یہ ابتدائی تشکیل کے مرحلہ تک ہی تھا۔

وہ معتقد تھا کہ ہم تک پہنچنے والے منابع تک رسائی نہیں ہے اور اسی طرح آٹھویں صدی عیسوی کے اخباریوں اور واضح و معین خصوصیات کے خاص مکاتب تک بھی رسائی ممکن نہیں ہے  اور ان میں سے ہرکسی کی واقعیت اور جزوی حیثیت کو الگ الگ مشخص نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو متنوع معلومات اور نظریات سے منتقل کیا گیا ہے۔

پھر’’نت‘‘نے منابع پر اشکالات اور ان کی داخلی شکل کوعلیحدہ کیا تا کہ وہ یہ دکھا سکے کہ منابع صرف ’’topoi‘‘ کا ایک مجموعہ ہے  اور تاریخی اعتبار سے اس کی بنیاد پر سوال اٹھتا ہے۔

صدر اسلام کی تاریخ کی مفصل صورت میں تعمیر نو کے لئے ان منابع سے استفادہ کرنا برا سمجھا جاتا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ’’نٹ‘‘ یہ چاہتا تھا کہ اپنی کتاب کی تألیف سے اپنی مرضی کے مطابق ابتدائے اسلام کی تاریخ سےنتائج اخذ کرے لیکن وہ اسے عملی جامہ نہ پہنانے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔تمام مؤرخین نے کم و بیش امویوں کی تاریخ لکھنے میں ولہاوزن  کی تقلید کی اور منابع پر تنقید کے ذریعہ ان کا خیال تھا  کہ صحیح تنقید سے اموی تاریخ کی تعمیر نومیں مدد مل سکتی ہے۔

جرمنی میں ’’ردوان سعید ‘‘اور ’’گرانٹ روٹر‘‘جیسے د انشوروں کا نام لیا جا سکتا ہے جن کی کوشش تھی کہ ولہاوزن کے اسی طریقہ کار سے استفادہ کریں۔لیکن وہ جدید سماجی اور اقتصادی مفاہیم کے منابع سے زیادہ استفادہ کرتے تھے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں’’ف.مک گراو دانر‘‘ (F.Mcgraw Fonner)نے فتوحات عرب کی تاریخ کو جدید انداز میں لکھا اور اس نے اپنی کتاب کی تألیف میں اپنی روش شناسی کی توجیہ کا وعدہ کیا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثر ایسی بدعت آمیز تحقیقات میں پابندی اور تعطّل کا احساس ہوتا ہے۔  ’’ورنراندہ‘‘ (Wener Ende)  اور ’’ای .ال پیٹرسن‘‘(E.L Peterssen)ایسے مؤلفین کا واضح نمونہ ہیں۔

حالیہ دنوںمیں’’پیڑیسیاکرون‘‘(Patricia Crone)کی’’Slavesson Horseses‘‘ (غلامان سوار بر اسب)نامی کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ گلدزیہر، شاخت اور نٹ کے طریقۂ کار کو قبول کرتے ہوئے اسلامی منابع میں ایک دوسری  روش سے استفادہ کیا جائے۔ ’’پیڑیسیاکرون‘‘کے مطابق یہ طریقۂ کار زندگی نامہ یا انساب کے لئے موذوں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی منابع  میں بنیادی معلومات(اسماء ،تاریخ خلفاء اور سربراہ وغیرہ) کا مستقل منابع (جیسے سکّے،نوشتہ جات اور غیر اسلامی منابع)کی طرف  رجوع کرکے تجزیہ کیا جائے تو اس صورت میں دو طرح کے یہ منابع ایک دوسرے کی باہمی تائیدسے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اس کا خیال ہے کہ اگر اسلامی معلومات میں پوشیدہ تمام معلومات کوبعد کے زمانے  کی جعلی یا ’’topoi‘‘کے نوشتہ جات کا اقتباس کہہ کر کم اہمیت دی جائے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔

کسی کے واضح ضمنی موارد جیسے کسی شخص کاسماجی مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،قبیلہ  میں ازدواج،سماجی وسیاسی روابط سے بہتر انداز میں حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جزئی دکھائی دینے والی معلومات  جیسے کسی شخص کا مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،ازدواج کے اعتبار سے کسی شخص کے تعلقات اورسماجی و سیاسی روابط حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں اور مؤرخ کوان معلومات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور اس کے بعداسے  دوسرے مراحل( جیسے قیام کرنے کے اسباب  اور تاریخ کے بڑے واقعات کے بارے میں تاریخی رپورٹ)طے کرنے چاہئیں ۔

اس نظرئے کی رو سے ’’کرون‘‘کی کتاب میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ مشترکہ یکجہتی اور مفہومی باریک بینی ہے۔اس نقطۂ نظر کے نتائج (جنہیں  اخذ کرنے میں کچھ دوسرے بھی حصہ دار ہیں یاپھر پیش پیش ہیں)میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سادہ روایت اور واضح سیاسی واقعات سے دور ہوگئے اور مختلف اداروں اور سماجی و مذہبی تاریخ میں زیادہ دلچسپی دکھانے لگے۔

’’ایم.جی.مورنی‘‘(M.G Morony)کی کتاب ایک دوسرا نمونہ ہے کہ جس میں اس نقطۂ نظر کی پیروی کی گئی ہے ۔ جدید اسلامی دنیا بالخصوص عربی دنیا میں اموی تاریخ بعض مواقع (مثل آئینہ) آج کے مذہبی اور سیاسی خدشات کی عکاسی کر سکتی ہے۔لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اموی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی تمام نئی  عربی و اسلامی کتابیں آج کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں یا اگر کسی مصنّف کے مذہبی یا سیاسی نظریات  جانتے ہوں تو اس کے بارے میں پہلے ہی سے یہ پیشنگوئی کر دیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔بلکہ اموی دور کی اہمیت مشرق وسطی کو اسلامی و عربی بنانے کے لحاظ سے ہے ۔!

اس لحاظ سے یہ واضح ہے کہ عرب یا مسلمان جو آج کی جدید دنیا میں اپنی شناخت ڈھونڈ رہے ہیں ؛ وہ اموی سلسلہ کی تاریخ میں بھی اپنی شناخت کی تلاش کر رہے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور عربی قومیت کے درمیان کسی  بھی طرح کی ممکنہ کشیدگی اموی تاریخ کے بارے میں نظریات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

عربی قومیت کی نظر میں اموی سلسلہ کوپہلی عرب سلطنت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی روائی سنت میں عام طور سے امویوں کی شدت پسندانہ اور اسلام دشمنی پر مبنی تصویر پیش کی گئی ہے اور اگر شناخت کی تلاش میں اسلام کی طرف دیکھا جائے تو اس سے عربوں کو  اپنے مسائل کا حل مل سکتا ہے ۔

 اگرشیعہ اپنے مخصوص شیعہ نظریات (یعنی تشیع کی روائی سنت سے اخذ کئے جانے والے نظریات)سے اموی تاریخ کا جائزہ لیں  تویہ ایک کلی کشیدگی اور شاید پوشیدہ و مخفی کشیدگی بھی ہے اور اگرشامی قومیت  اورعام عربی قومیت کو حاشیہ میں رکھیں تو دونوں صورتوں میں ممکن ہے کہ یہ کشیدگی ظاہر ہو کر حقیقت کوزیادہ واضح طور پر بیان کرسکے۔[1]

 


[1]۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:١٤٦

 

    ملاحظہ کریں : 2098
    آج کے وزٹر : 7477
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131679800
    تمام وزٹر کی تعداد : 91344003