حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان منحرف افکار کو فروغ دینا

یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان منحرف افکار کو فروغ دینا

کتاب ’’تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہودیوں کے جرائم کے بہت زیادہ اثرات اور برے نتائج ہیں لیکن ان میں سے ایک اہم ترین اثر ثقافتی  اور عقیدتی تخریب کاری ہے۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان شبہات،بعض باطل افکار اور خرافات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔انہوں نے اس وقت رسول خدا ؐ کی مخالفت کی بنیاد رکھی اورتورات میں تحریف کے ذریعہ  شکوک وشبہات پیدا کئے اور بعض جھوٹی روایات نقل کیں اور پھر انہی روایات کی یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ترویج کی گئی ۔ان کا یہی ناپسندیدہ عمل یہودی عوام حتی کہ بعض مسلمانوں کی گمراہی کا بھی باعث بنا اور انہیں دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا۔

اس بناء پر یہودی سربراہوں کی طرف سے شبہات اور انحرافی افکار پھیلانے سے ذہنوں پر بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان شبہات کو لوگوں کے افکار سے اتنی آسانی سے مٹاناممکن نہیں ہے۔

یہودیوں کی مخالفانہ اور عداوت پر مبنی کاروائیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے روایات میں اسرائیلیات کو داخل کیا ، جب کہ ان میں سے اکثر روایات جعلی اور جھوٹی تھیں اور اسلام کے خلاف ثقافتی اور عقیدتی سازشیں بھی اسی کا حصہ ہیں تا کہ وہ اس کے ذریعہ  اسلام کی عظمت کو نقصان پہنچا سکیں ، اسے انسانی معاشرے میں غیر معقول شکل میں پیش کر سکیں اور اس کی ترقی   کا راستہ  روک سکیں۔

مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  انہوں دھوکہ دہی اور فریب کے ذریعہ اپنے اس منصوبے پر عمل کیا ، اور جس قدر ہو سکا اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی سے عمل پیرا رہے  اور مخصوص افراد کے ذریعہ یہودیوں اور مسلمانوں میں گمراہ کرنے والے افکار پھیلاتے رہے اور اس طرح انہوں نے ان سب کو شبہات کے سمندر میں غرق کر دیا ۔

اس بناء پر اگر رسول اکرم ؐ مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے اور ان کی کتابوں سے استنادکرنے سے منع کریں[1] تو یقیناً اس میں حکمت ہے اور یہودیوں کی طرف سے شامل کئے گئے افکار  اس کی واضح دلیل ہیں۔خاص طور پر جب عمر بن خطاب نے یہودیوں کی کتاب سے استفادہ کیا تو  رسول خداؐ کا اس کے ساتھ سخت رویہ اس بات کا شاہد ہے۔

افسوس کہ یہودیوں کے ساتھ اس کے انہی تعلقات نے اپنے اثرات دکھائے اور پیغمبر اکرمؐ کی حیات کے آخری دنوں میں اسلام اور اسلامی سرزمین کی وسعت کےباوجود مسلمانوں کے درمیان یہودیوں کی خرافات نے انتشار پیدا کر دیا اور کعب الأحبار،عبداللہ بن عمرو بن عاص اور ابوہریرہ جیسے افراد نے بڑھ چڑھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالا۔جیسا کہ عمر بن خطاب نے بھی اس زمانے میں ’’تمیم بن اوس‘‘کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے کھل کر  اپنے قصہ کہانیاں بیان کرے  ،جب کہ وہ خود کعب الأحبار کے قصہ سنا کرتاتھا۔[2]

اس بناء پر عمر کی تائید سے مساجد میں قصہ گوئی رائج ہو گئی اور انہی قصہ کہانیوں کے ذریعہ لوگوں کے درمیان خرافات اور جھوٹ عام ہوا ۔

چونکہ عوام الناس کو حیرت انگیز چیزوں میں دلچسپی  ہوتی ہے ،اس لئے وہ قصہ کہانیاں سنانے والوں کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کی جھوٹی باتیں سنتے تھے ،اس طرح سے انہوں نے لوگوں میں اسرائیلیات کو عام کر دیا۔

ڈاکٹر ابو شبہہ کہتے ہیں:قصہ گوئی کی بدعت عمر بن خطاب کے آخری زمانے میں شروع ہوئی اور پھر اسے ایک فن کے طور پر پیش کیا جانے لگااور اس میں ایسی چیزیں داخل ہو گئیں جو علم و اخلاق کے شایان شان نہیں ہیں۔[3]

اس بناء پرلوگوں میں اسرائیلیات اور انحرافی افکار کو پھیلانے میں یہودیوں کی سازشیں کارفرما رہیں ۔ نیز  عمر بن خطاب نے کھل کر ان کی حمایت کی اور قصہ گوئی کو عام کیا ،جب کہ وہ قصہ کہانیاں مکمل طور پر اسرائیلیات اور خرافات میں سے تھیں۔ پس یہودی سازشیں اور عمر بن خطاب کی طرف سے ان کی مکمل حمایت مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار اور گمراہ کن شبہات کو پھیلانے کا باعث بنی۔جس کے بہت زیادہ غیرمناسب نتائج سامنے آئے ۔انہی کاموں کی وجہ سے بہت سے اہل کتاب اپنی گمراہی و ضلالت پر باقی رہے اور کچھ کمزور ایمان کے حامل مسلمان بھی راستہ سے بھٹک گئے۔

اس بنا پر ہر زمانے میں نامناسب اور گمراہ کرنے والے افکار کی ترویج  کے اثرات نقصان دہ  ہوتے ہیں اور اس زمانے میں یہودی اس مسئلہ سے آگاہ تھے لہذا انہوں نے لوگوں میں شبہات پھیلانا شروع کر دیئے ،ان کے اس ناجائز کام کے بہت مضر اثرات تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ پیغمبر اکرم ﷺنے اپنی زندگی کا زیادہ وقت ان شبہات کو رد ّکرنے میں صرف کیا۔[4]

ایک انتہائی اہم نکتہ ؛ جس کے بارے میں اہلسنت حضرات کو بہت غور و فکر کرنا چاہئے  اور  ان کے مشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے ،اوروہ نکتہ یہ ہے :

عمر لوگوں کو پیغمبر اسلامؐ کی احادیث لکھنے اور ان کے بارے میں گفتگو کرنے سے منع کرتا تھااور کہتا تھا:رسول خدا ؐ کی احادیث کو نقل کرنے سے لوگ خدا کی کتاب سے غافل ہو جائیں گے اور اسے اہمیت نہیں دیں گے !

اگرعمر کا لوگوں کو احادیث نقل کرنے سے روکنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن کی طرف توجہ کریں  تو پھر کیوں اس نے لوگوں کو قصہ گوئی اور اسرائیلیات بیان کرنے سے منع نہیں کیا؟بلکہ اس نے توتمیم بن اوس جیسے شخص کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر لوگوں کے سامنے اپنے قصہ بیان کرے!اور قصہ گوئی کا یہ سلسلہ اسی  طرح جاری رہا ،یہاں تک کہ  ڈاکٹر ابو شبہہ کے مطابق عمر کے آخری زمانے میں قصہ گوئی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور  پھر اسے بعض افراد نے ایک فن اور پیشہ کے طور پر اختیار کر لیا !

اگر رسول اکرم ؐ کے علمی مطالب اور احادیث قرآن سے دوری کا باعث بنتی ہیں تو کیا عمر کا یہودیوں کے مطالب کو جمع کرنا ،قرآن کی طرف توجہ نہ کرنے یا کم توجہ کرنے کا باعث نہیں تھا؟!!!

جی ہاں! حق کا راستہ ہمیشہ واضح اور روشن تھا اور ہے ، لہذا اہلسنت کو چاہئے کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں اس پر غور کریں ،خاص طور پر ان کے جوانوں کوزیادہ غور و فکر کرنا چاہئے ،جو  زیادہ روشن فکر ہیں تا کہ مکمل ہوش و ہواس میں رہتے ہوئے جس چیز کا یقین ہو جائے، صرف اسی کو اخذ  کریں۔

 


۔ تفسیر القرآن العظیم٠ابن کثیر):ج۲ص۴٦۷[1]

عمربن خطاب کا اہل کتاب سے تعلق ، اور اس کے خلاف رسول اکرمؐ کے روّیہ کے بارے میں روایت نقل کرتے ہیں۔وہ کہتا ہے:میں نے یہودیوں سے کچھ مطالب پوچھے اور لکھے اور انہیں ایک جلد میں رکھ کر لایاتو رسول خدا ﷺ نے پوچھا:اے عمر! تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟

میں نے جواب دیا:اس میں ایک تحریر ہے جو میں نے یہودیوں سے اخذ کی ہے تا کہ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکوں!!

پیغمبر اکرم ؐ اس حد تک غضبناک ہوئے کہ آپ کا چہرا سرخ ہو گیا ،پھر آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا:

اے لوگو!تمہیں زندگی میں جن مسائل،احکام اور اخلاق کی ضرورت تھی ،میں نے وہ سب خوبصورت اور مختصر شکل میں بغیر کسی آزردگی  کے تمہارے لئے بیان کر دیئے ہیں جو سب واضح و روشن ہیں۔پس گمراہ نہ ہوجاؤ اور گناہ و معصیت نہ کرو ،نیز کوئی پست اور گناہگار انسان بھی تمہیں دھوکہ نہ دے۔

پس میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا:میں راضی ہوں کہ خداوند متعال میرا ربّ،اسلام میرا دین اور آپ میرے نبی ہوں!!

[2]۔ التفسیر المفسرون فی ثوبة القشیب:ج۲ص۱۲۲

[3]۔ اسرائیلیات والموضوعات فی  کتب التفسیر:٨٩ اور ١٢٣

[4]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:١٤٨

 

    ملاحظہ کریں : 2480
    آج کے وزٹر : 14763
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131500855
    تمام وزٹر کی تعداد : 91171746