حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
روایت میں موجود نکات

روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

١۔ روایت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا: ''لاسخّرنّ لہ الریاح ولذ لّلنّ لہ السحاب الصعاب ، ولا رقّینّہ ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرتۖ کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی ۖکی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرتۖ کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

٢۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرمۖسے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

٣۔ اس روایت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

ب:  ولذلّلنّ لہ السحاب الصعاب

یقیناََ سحاب صعاب اور سخت بادلوں کو ان کے تابع کروں گا۔ہواؤں کے علاوہ نوری بادلوں اور ان کی حیرت انگیز قدرت کا ہونا واضح ہے۔

ج:  ولا رقینّہ ف الاسباب:

حتماََ وسائل میں اسے اوپر لے جاؤں گا۔قابل توجہ یہ ہے کہ اس جملہ میں ''فی'' سے استفادہ کیا گیا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ آنحضرت خلائی وسائل میں جائیں گے اگر اسباب سے مراد سحاب صعاب ہوتا تو بھی کلمہ''علی''استعمال کیا جاتا۔کیونکہ بادلوں پر سواری کی جاتی ہے نہ کہ بادلوں میں۔

٤۔ روایت میںموجود دیگر فراوان نکات کے علاوہ اس اہم نکتہ پر بھی غور کریں کہ خداوند کریم اس حدیث قدسی میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھانے کے بعد رسول اکرم ۖکے لئے بیان کرنے والے تمام مطالب کو ''لام اور نون '' کے ساتھ تاکید کیا ہے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں جن واقعات کی تصریح ہوئی ہے جیسے آنحضرت  کا خلائی ذرایع سے آسمانوں پر جانا...

ان تمام واقعات کا ظہور کے زمانے میں واقع ہونا سو فیصد یقینی ہے۔جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

٥۔ روایت سے ایک اور بہتریں نکتہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ تمام صعاب بادلوںکا تسخیر ہونا  اورخلائی وسائل  فقط آنحضرت  کے ذاتی استعمال کے لئے نہیں ہیں۔بلکہ یہ وسائل فراوان ہوں گے جو اس چیز کی دلیل ہے کہ اصحاب و انصار اور آنحضرت  کے محبّ بھی ان سے استفادہ کریں گے۔ جیسا  کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے اصحاب جیسے سلمان علیہ السلام  کو آسمانوں پر لے گئے اور آسمانوںپر ان کا صعود اس حد تک تھا کہ جہاں سے زمیں اخروٹ کے برابر دکھائی دے رہی تھی۔ ([1])

یہ بھی واضح ہے کہ ان کا آسمانوں کی طرف صعود کرنے کا فاصلہ چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ سے زیادہ ہو گا ۔یعنی وہ چاند سے بہت دور آسمانوں میں صعود کریں گے۔کیونکہ چاند زمین سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اخروٹ سے بڑا دکھائی دیتا ہے۔پس ان کا زمین تک فاصلہ چاند اور زمین کے مابین  موجود فاصلے سے بہت زیادہ  ہے۔

٦۔ ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یوں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی آفاقی حکومت پوری کائنات پر ایک عالمی عادل حکومت ہے۔ کیونکہ خدا وند متعال پہلے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ زمین کا مشرق و مغرب ظہور کے زمانے میں آنحضرت  کے زیر تسلط اور تحت ولایت قرار دیا جائے گا اور اس کے بعد مختلف ذرائع  سے خلائی سفرکو بیان فرمایا ہے ۔ اس بناء پر ظہور کے زمانے میں ملکوت آسمانی کے علاوہ اس روزمُلک و مادّی لحاظ بھی سب کچھ آنحضرت  کے اختیار میں ہو گا۔

٧۔ اس روایت سے استفادہ کیا جانے والا اہم نکتہ یہ ہے کہ آسمانوں اور خلاء کی کشادگی اور کائنات کے نظام خلقت کی عظمت کے لئے روایت میں لفظ اسباب السما وات استعمال کیا گیا ہے یہ اس چیز کی محکم دلیل ہے کہ اس زمانے میں آسمان کی بلندیوں کو طے کرنے والے خلائی وسائل کی سرعت نور سے زیادہ ہونی چاہیئے ۔ پس اسباب السما وات (آسمان کی بلندیوں کو طے کرنے والے وسائل) کی تعبیر ، نور سے زیادہ خلائی ذرائع کے وجود کو ثابت کرتی ہے ۔ یعنی جو مکان جاذبہ مادہ اور زمان کی محدودیت میں مقید نہ ہو،یہ خود خلائی ترقی کا بنیادی اصول ہے۔

 


[1] ۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے  افراد بھی  آنحضرت کی بساط پہ بیٹھے اور وہ ہواؤں کو حکم دیتے کہ ان کی بساط کو تمام افراد کے ساتھ  ہوا میں اوپر لے جائے ۔یہ واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔

 

 

    ملاحظہ کریں : 7359
    آج کے وزٹر : 34869
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129074879
    تمام وزٹر کی تعداد : 89627447