حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

٢۔ مختلف قوانین کوحاصل کرنے کے لئے عالم مادّہ میں حاکم مقیاس اور پیمانے (جیسے سیکنڈ، سینٹی میٹر، گرام وغیرہ) حقیقت روح ، جاذبہ، نفس، روح، عقل اور ان جیسے دوسرے اسباب کو درک کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے ۔ اس بناء پر ماہرین طبعیات کے نزدیک قوّت جاذبہ کی حقیقت مجہول ہے۔ اسی طرح الیکٹریسٹی ، مقناطیس یا توانائی (چاہے وہ ایٹمی ہو یا حرکتی یا الیکٹرک) کی حقیقت بھی مجہول ہے۔فزکس کے ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر غیر عادی امر کی حقیقت کو سمجھنے  سے عاجز ہیں حتی کہ وہ حقیقت مادہ کو نہ سمجھنے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔کیونکہ مادہ کی اصل ایٹم کی طرف ہے اور ایٹم پروٹان ،نیو ٹران اور ایک دوسری قوّت کے مجموعہ کا نام ہے کہ جدید علم ہمیشہ اس کی شناخت سے عاجز رہا ہے۔([1])

۳۔علم طبعیات اب تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ ہمارے چراغ کا نور جو کہ انرجی ہے ،وہ کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو جاتی ہے؟اگر فزکس کے علم کو اس سوال کا جواب مل جائے تو ایک ہی لمحہ میں کئی سال کا علمی سفر طے ہو جائے۔ چونکہ فزکس میں سر الاسرار یہی چیز ہے ۔ خلقت کا عظیم راز بھی اس سوال کے جواب میں مخفی ہے کہ توانائی کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ مادّہ کا توانائی  میں تبدیل ہونا ہماری نظر میں عادی ہے ۔ ہم روز وشب کارخانوں ،جہازوں، کشتیوں،  گاڑیوں، گھروں حتی کہ اپنے بدن میں بھی مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیںلیکن آج تک کوئی مادہ کو انرجی میں تبدیل نہیں کر سکا ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دنیا میں توانائی کس طرح مادہ میں تبدیل ہوتی ہے۔([2])

٤۔ہم چھبیس صدیوں کے بعد ''علم  طبعیات  اورما بعد طبعیات'' کی تمام ترقی کے باوجود فزیکل اور جسمانی لحاظ سے مبداء ِ دنیا کے بارے میں چھ سو سال قبل مسیح میں یونان کے فلسفی کے نظرئے کی حدود سے باہر نہیں نکل سکے ۔ہائیڈروجن ایٹم کے عناصر میں سب سے ہلکا عنصر ہے۔ جس میںایک الیکٹران اور دوسرا  پروٹان ہے۔الیکٹران ، پروٹان کے گرد گردش کرتے ہیں لیکن اب تک فزکس کے کسی بھی نظرئے نے اس کے علمی قانون کو کشف نہیں کیا۔یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا پہلے پروٹان وجود میں آیا تھا یا الیکٹران ،یا یہ دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے تھے کہ جن میں سے ایک بجلی کی مثبت اور دوسرا منفی توانائی رکھتا تھا؟

اکیسویں صدی سے آج تک اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ، وہ صرف ایک تھیوری ہے۔ہم مبدأ دنیا کی شناسائی کے لحاظ سے ''آناگزیمانسر''کے دور کے یونانی لوگوں سے زیادہ نہیں جانتے۔([3])

گز شتہ مطالب پر توجہ کرنے کے بعد اب ہم چند اہم نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۔ مختلف علوم ایک دوسرے سے بے ربط نہیں ہیں۔علم کے کسی ایک شعبہ میں  غلطی  نہ صرف علمی ترقی میں ٹھراؤکا سبب بنتی ہے بلکہ علوم کے دیگر شعبوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کہ جو اس علم سے مربوط ہیں۔

٢۔ غیبت کے زمانے میں بعض دانشور اور اسی طرح اس زمانے سے قبل بھی بعض دانشور اپنے شاگردوں اور عوام کے درمیان نفوز کر چکے تھے ان کے شاگرد  ان کی عظمت اور شخصیت کی وجہ سے ان کے نظریات کودل و جان سے قبول کرتے تھے۔نسل در نسل ایسا ہی ہوتا رہا ۔شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے شاگرد پہلے شخص کے نظریات کو قبول کرتے اور اسی کو ادامہ دیتے۔کبھی استاد کی شخصیت کا لحاظ اس قدر زیادہ ہوتا کہ اگر کسی کو استاد کی غلطی کا علم بھی ہوتا تو اس میں اظہار کی جرأت نہ ہوتی کہ کہیں دوسرے اس کی مخالفت و سرزنش نہ کریں اور کہیں بے جا جنجال کھڑا نہ ہو جائے کہ جس سے اس کی آبرو ریزی ہو ۔ یوں وہ اپنے صحیح افکار کا اظہار کرنے سے ڈرتے اور اس کا اظہار نہ کرتے ۔ طول تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں۔

٣۔ کبھی بعض تحریف شدہ مذاہب بے بنیاد نظریات اور علوم کی طرفداری اور پشتبانی کرتے اور لوگوں میں اپنے نفوذکی وجہ سے دوسروں سے غلط عقائد کی مخالفت کرنے کی جرأت سلب کر لیتے۔  جیسے کلیسا کی ارسطو کے نظریہ کی حمایت کرنا۔ایسے موارد میں تحریف شدہ  دین اور دانش خیالی نسل در نسل چلتی رہتی ہے جو معاشرے کو ترقی و حقیقت سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

٤۔ دانشوروں کی غلطیاں، اشتباہات اور ظالموں کا علم سے سوء استفادہ کرنا اورعلم کی محدودیت جیسے موانع کی وجہ سے علم دنیا کو آئیڈیل معاشرہ اور مدینہ فاضلہ نہیں بنا سکا۔

٥۔ ظہور کے بابرکت زمانے میں کہ جب تمام دنیا میں علم وحکمت اور دانش کا چرچاہو گا۔سب صحیح علم کے چشمہ سے سیراب ہوں گے تب نہ صرف دانش خیالی کے اظہار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی بلکہ دنیا کے واحد دین اور حکومت سے دنیا کے تمام لوگ حقیقی، سچے مکتب اور تشیع کی تعلیمات کے زیر سایہ زندگی گزاریں گے ۔پھر باطل اور تحریف شدہ مکتب کا نام ونشان مٹ جائے گا۔اس وقت سب لوگ گزشتہ لوگوں کی غلطیوںسے آگاہ ہوجائیں گے۔ اس بابرکت اور مبارک دن کی آمد پر صحیح علم و دانش کے تابناک انوار کی وجہ سے نور سے فرار کرنے والے چمگادڑوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی۔

 


[1]۔ راہ تکامل:٨٩٥

[2]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:٣٤٤ 

[3]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:١١٢

 

 

    ملاحظہ کریں : 7098
    آج کے وزٹر : 46638
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129241693
    تمام وزٹر کی تعداد : 89757859