حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
واحد عالمی حکومت

واحد عالمی حکومت

یہاںہم ایک ایسا مطلب بیان کرتے ہیں کہ جو ظہور کے زمانے کے منتظرین کے لئے بہت دلچسپ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے عالمی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت پوری کائنات میں حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت نہیں ہوگی ۔ ساری دنیا کی واحد حکومت آنحضرت کی حکومت ہوگی۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت کے مقابل میںکوئی اور قدرت نہیں ہوگی پوری دنیا پر امام عصرعلیہ السلام کی واحد حکومت حاکم ہوگی۔ اس کے علاوہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت دنیا والوں کے لئے ایسی نعمتیں فراہم کرے گی ۔ مادّی و معنوی لحاظ سے حیرت انگیز ترقی اور اس کے علاوہ پوری دنیا میں علم و دانش کی نعمت فراوان ہوگی۔دنیا کے بڑے بڑے شہروں سے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں تک ہر کوئی ان نعمتوں سے مستفیض ہوگا۔پوری دنیا میں علم و دانش عام ہوگا۔زمین کے ہر خطے میں علمی فقدان ختم ہوجائے گا۔

سب کو آرام ، سکون، راحت اورتمام سہولتیں فراہم ہوں گی ۔ سب لوگوں میں ثروت مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔

ان سہولتوں کا عام ہونا اور معاشرے کے تمام افراد کا ان نعمتوں اور سہولیات سے استفادہ کرنا ظہور کے زمانے کی خصوصیات میں سے ہے۔اس مہم مسئلہ کے روشن ہونے کے لئے ہم اس کی مزید وضاحت کئے دیتے ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ غیبت کے زمانے میں دنیا کے تمام ممالک کے تمام لوگوں کو مال ودولت ، علم و دانش ،قدرت اور ظاہری سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک کے بعض لوگوں  کے پاس مال و دولت تھا اور اب بھی ہے۔اکثر لوگ مال کے نہ ہونے یا اس کی کمی کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔

پوری دنیا میں طبقاتی نظام موجود ہے ۔ خاص طبقہ سہولیات سے استفادہ کر رہا ہے۔ لیکن معاشرے کے اکثر افراد بنیادی حقوق اور سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔ لیکن ظہور کے پُر نور زمانے میں ایسا نہیں ہوگا۔

اس زمانے میں طبقاتی نظام اور قومی تبعیضات ختم ہوجائیںگی ۔ علم وحکمت عام ہوگی ۔ طبیعی  دولت معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگی ۔ دنیا کے تمام خطوں میں عدالت اور تقویٰ کا بول بالا ہوگا۔دنیا کے سب لوگ عادل اور تقوی ٰ دار ہوں گے۔

ہم نے جو کچھ عرض کیا ۔ اب اس کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں پوری دنیا کے لوگ علم و دانش و حکمت، اچھائیوں اور نیکیوں کے مالک ہوں گے۔ہر کوئی ان سے مستفیض ہوگا۔

اس دن غیبت کے زمانے کی طرح نہیں ہوگا کہ ایک طبقہ زندگی کی ہر سہولت اور ہر جدید صنعتی وسائل سے مستفید ہورہاہولیکن دوسرے افراد زندگی کی بنیادی سہولیات کو بھی ترستے ہوں۔

اس بناء پر ظہور کے زمانے کی علمی ترقی لوگوں کو ہرجدید اور اہم وسیلہ فراہم کرے گی ۔ جوظہور سے پہلے والے وسائل کی جگہ لے لیں گے۔پوری دنیا میں سابقہ وسائل ناکارہ ہوجائیں گے اور لوگ ظہور  کے زمانے کی جدید ایجادات سے استفادہ کریں گے۔

اگر فرض کریں کہ اس بابرکت اور نعمتوں سے بھرپور زمانے  میں کچھ صنائع اپنی خصوصیات برقرار رکھ سکیں تو ان سے استفادہ کرناواضح ہے۔کیونکہ وہ زمانہ دنیا کی تمام اقوام کے لئے خوبیوں کا زمانہ ہوگا۔ اس بناء پر ہم جدید صنعت کو کلی طور پر محکوم نہیں سمجھتے۔لیکن موجودہ صنعت غیبت کے زمانے سے مناسب ہے نہ کہ یہ ظہور کے پیشرفتہ زمانے کے مطابق  ہے۔

اب تک جو کچھ کہا وہ ان کا نظریہ ہے کہ جو  ظہور کے بارے میں خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کے فرامین سے آگاہ ہوکر عقلی تکامل اور روشن زمانے کے اسرار و رموز کو جانتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ان کے مقابل میں محدودسوچ کے مالک افراد بھی ہوں کہ جو گمان کرتے ہوں کہ وہ دنیا کی تمام ایجادات سے واقف ہیں ۔ ایسے افراد نہ صرف آج بلکہ گزشتہ زمانے میں بھی موجود تھے۔ڈیڑھ صدی پہلے کچھ افراد کا گمان تھا کہ جن چیزوں کو ایجاد کرنا ممکن تھا، انسان نے  وہ سب ایجاد کر لی ہیں ۔ یہاں ہم ایسے ہی کچھ افکار سے آشنا ئی کرواتے ہیں۔

١٨٦٥ء میں امریکہ میں  نئی ایجادات کرنے والوں کا نام اندراج کرنے والے دفتر کے سربراہ نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اب یہاں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اب ایجاد کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

امریکہ کے ماہر فلکیات نے ریاضی کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ جو چیز ہوا سے وزنی ہو وہ پرواز نہیں کرسکتی ۔ لیکن جہاز کی پہلی پرواز کے باوجود بھی وہ اپنی غلطی ماننے کو  تیار نہیں تھا۔بلکہ اپنی غلطی کی غلط توجیہات کرنے لگا کہ جہاز سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔

١٨٨٧ء میں ''مارسلن برتولو'' نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا:

''اب کے بعد دنیا کا کوئی راز باقی نہیں رہا''

جو زمانۂ ظہور کو غیر معمولی ترقی کا زمانہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ وہ ایسے افراد کی طرح ہی سوچتے ہیں۔

ہم نے یہ جو ذکر کیا ہے وہ ایسے لوگوں کا ایک نمونہ تھا۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ علم و صنعت کے لحاظ سے دنیا اپنے عروج پر ہے۔یعنی دنیا ترقی کی آخری سیڑھی پر قدم رکھے ہوئے ہے۔

جی ہاں! یہ توہمات گزشتہ صدیوں میں موجود تھے اور اب بھی بعض گروہ انہی میں مبتلا ہیں ۔ ان باطل نظریات میں مزید اضافہ ہو نا بھی ممکن ہے۔

 

 

    ملاحظہ کریں : 7210
    آج کے وزٹر : 34390
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129217201
    تمام وزٹر کی تعداد : 89733363