حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

انبیاء الہٰی کے ذریعہ ابتدائے خلقت سے اخذ کئے گئے علوم و معارف ان کی تعلیم کا طریقہ اور اسی طرح اب تک خاندانِ عصمت علیھم السلام کے علوم و معارف کی تمام ترقی  پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ سب ایک نقطہ میں مشترک ہیں کہ ان میں کسی قسم کی افزائش اور تغییر وجود میں نہیں آئی۔

کیونکہ تمام انبیاء الہٰی نے لوگوں کو جو علوم و معارف تعلیم دیئے اور اسی طرح رسول اکرم ۖ اور ان کے بعد خاندانِ وحی  علیھم السلام اور اس کے بعد دانشوروں نے عام لوگوں کی تعلیم دیئے وہ دو حالتوںمیں سے ایک سے خالی نہیں ہے۔

وہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان کے مکتب سے بہرہ مند ہوتے ہیں،وہ  یا سمعی طور پر مستفید ہوتے ہیںیا بصری طور پر ۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے اب تک علم سیکھنے والوں نے یا کتابوں پر لکھنے یا پیغمبروں یا دوسروں سے سن کر علم حاصل کیا۔

البتہ علم حاصل کرنے کی دوسرے راستے بھی ہے کہ جس سے عام لوگ استفادہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔لیکن  بعض افراد  اس طریقہ سے بھی استفادہ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔

پس پیغمبروں کے زمانے سے اب تک ہونے والی علمی ترقی آنکھوں یا کانوں سے استفادہ کرنے سے حاصل ہوئی۔

اس بناء پر ممکن ہے کہ ان دو جزء سے یہ مراد ہو کہ اب تک حصول علم کے یہ ہی دو طریقے تھے اور  حضرت قائم  علیہ السلام  کے قیام سے پہلے تک بھی ایسا ہی ہوگا کہ علم سننے یادیکھنے کے ذریعے حاصل ہوگا ۔ یعنی حصول علم یا سمعی طریقے سے ہو گا یا بصریطریقہ سے ہو گا ۔

تمام لوگ عموماً انہی دو طریقوں سے علم حاصل کرتے ہیں۔لیکن عقلوں کے تکامل سے تحصیل علم کے دیگر ذرائع بھی وجود میں آئیںگے۔جو مذکورہ دو طریقوں کے علاوہ ہوں گے۔

جیسے ملائکہ کے توسط سے دلوں میں القاء ہونے کے ذریعہ،یہ نہ تو سمعی ہے نہ بصری۔بعض  روایات میں اس کی وضاحت بھی ہوئی ہے۔

اگر اس توجیہ کو قبول کریں تو اس زمانے میں ہونے والی علم و دانش کی عجیب پیشرفت سے آگاہ ہوجائیں گے۔کیونکہ روایت کے معنی کی رو سے تحصیل علم کے ذرائع تیرہ گنا زیادہ ہو جائیں گے، نہ کہ مجموعاً علوم تیرہ گنا ہوں گے۔

اب تک علم نے جو ترقی کی ہے۔اگر یہ ظہور کے زمانے میں تیرہ برابر ہوتو انسانوں کے عقلی تکامل کے لحاظ سے یہ بہت کم ترقی ہوگی۔

روایت میں دلائل،یا کم از کم ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوگا کہ اما م صادق  علیہ السلام  کی علم کے ستائیس  حرف سے علم کی ستائیس قسمیں مراد نہیں ہیں ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں پیغمبروں کے زمانے سے حضرت قائم علیہ السلام کے قیام تک علم کے دو حرف ہیں۔

اگر آنحضرت کی علم کے دو حرف سے مراد علم کے دو جزء ہوں تو پھر پیغمبروں کے زمانے سے لے کر امام زمانہ  علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک کسی بھی طرح کی علمی پیشرفت نہیں ہونی چاہیئے اور اس زمانے سے قیام امام عصر علیہ السلام تک لوگوں کو علم کے دو جزء سے بہرہ مند ہونا چاہیئے۔علمی ترقی میںتوقف اور اس میںٹھراؤہونا چاہیئے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے اب تک اور پھر ظہور کے زمانے تک علم میںہزار گنازیادہ ترقی ہوئی ہے اور دینی اور غیر دینی مسائل میں انسانوں کے علم میں ہزار برابر اضافہ ہوا ہے۔اس بناء پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد تحصیل علم کے ذرائع ہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے ظہور  کے زمانے تک انسانوں کے لئے سمعی اور بصری طریقے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ موجود نہیں ہے۔البتہ یہ انسانوں کے لئے ہے نہ کہ اولیاء خدا کے لئے۔

کیونکہ انسان پڑھنے،لکھنے یا دروس وتقاریر سننے یا کمپیوٹر ،ٹی وی،ریڈیو اور دیگر وسائل سے استفادہ کرکے علم حاصل کرتا ہے اور یہ سب سمعی یا بصری طریقوں سے خارج نہیں ہیں۔

اگر امام صادق علیہ السلام  اس زمانے میں فرماتے کہ تحصیل علم کے ستائیس طریقے ہیں اسے کتنے لوگ قبول کرتے حتی کہ اس موجودہ زمانے میں بھی کتنے لوگ اس مطلب کو پوری طرح قبول کرتے ہیں؟

ایک دوسرا بہترین نکتہ جس پر دقت کرنا ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ اکثر کتابیں کہ جس میں اس روایت کو نقل کیا گیا ہے، وہاں حرفاً یا حرفین کی تعبیرذکر کی گئی ہے اور حرف و حروف خود علم سیکھنے کا وسیلہ ہیں۔

ممکن ہے کہ حرف سے تعبیر کرنے سے امام کی مراد علم سیکھنے کا وسیلہ ہو نہ کہ حروف اور حرفین سے ایسا معنی مراد ہو کہ جو ابتداء ًہمارے ذہن میں آتاہے۔

جس طرح کبھی آیات و روایات میں کلمہ وکلمات کے دو لفظ ہمارے ذہن میں  پہلے سے موجود معنی کے علاوہ دوسرے معنی میں استعمال ہوتے ہیں  اور اس سے مراد وہ الفاظ و حروف ہیں کہ زبان کے ذریعہ جن سے تکلم کیا جاتا ہے۔ پس اگر رسول اکرم ۖاور اہلبیت اطہار علیہم السلام اور اسی طرح حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے بارے میں ''کلمة اللہ''سے تعبیر ہو تو اس کلمہ سے مراد الفاظ و حروف نہیں ہیں۔

اگر ہم کلمہ و کلمات کے ذریعے اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور کلمہ و کلام ہمارے ارادے کا مظہر ہے تو کلمة اللہ بھی ایسی چیز ہے کہ جن کے ذریعہ خدا وند تعالیٰ کا ارادہ خارج میں ظاہر ہوتا ہے۔اسی وجہ سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں ''کلمات اللہ'' سے تعبیر ہوئی ہے۔([1])

اگرچہ حروف کا بھی اوّلی معنی کچھ اور ہے کہ جو الفاظ کو تشکیل دیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں یہ دوسروں کو علم و دانش سکھانے کا ذریعہ ہیں۔

حضرت امام ہادی علیہ السلام اس آیت '' وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَام وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ ِنَّ اللَّہَ عَزِیْز حَکِیْم ''([2]) کے بارے میں  فرماتے ہیں:

'' نحن الکلمات التی لا تدرک فضائلنا ولا تستقصی ''([3])

ہم کلمات خداوند ہیں کہ ہماری فضیلتیںدرک نہیں ہوسکتیں اور ان کی کوئی انتہانہیں ہے۔

اس توضیح کی بناء پر علم کے ستائیس حرف،یعنی علم و دانش کے حصول کے ستائیس ذرائع ہیں ۔ اگرچہ انسان ظہور سے پہلے دو طریقوں سے علم حاصل کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔لیکن عصرِ ظہورمیں حصول علم کے ستائیس ذرائع مہیّا ہوں گے۔

 


[1]۔ شرح دعا ء سمات:٤١ از مرحوم آیت اللہ سید علی قاضی

[2]۔ سورہ لقمان، آیت:٢٧

[3]۔ بحارالانوار:ج٥٠ ص ١٦٦

 

 

    ملاحظہ کریں : 7498
    آج کے وزٹر : 34191
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129216802
    تمام وزٹر کی تعداد : 89732964