حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عقلی تکامل اور ارادہ

عقلی تکامل اور ارادہ

یہاں تک ہم دماغ کی قدرت و توانائی سے آگاہ ہوئے اور ہم نے یہ درک کیا کہ انسان اب تک اپنے وجود کی عظیم قدرت  سے بے خبر تھا ۔ اب ہم قوّت ارادہ اور تکاملِ عقل کے بارے میں بحث کا آغاز کرتے ہیں ۔ انسان کی عقل کے تکامل کالازمہ اس کے ارادہ کا قوی ہونا ہے ۔ کیونکہ جس طرح حدیث جنودِ عقل میں نقل ہوا ہے کہ عقل کی سپاہ میں سے ایک ارادہ بھی ہے۔ عقل کے تکامل سے ارادے کی قدرت میں اضافہ ہوتا ہے، ارادے کے حرکت میں آنے اور فعّال ہونے سے انسان میں اساسی و حیاتی تحوّل کا ایجاد ہونا بالکل واضح ہے۔

اگر قوّت ارادی کامل ہو تو انسان غیر معمولی اور حیرت انگیز کام انجام دے سکتا ہے ۔ کیونکہ جب قوّت اردی اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو انسان کسی فرد یا کسی چیز میں کوئی حالت یا خصوصیت ایجاد کر سکتا ہے۔اسی طرح یہ اسے نابود یا اس میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔اعمالِ ارادہ سے انسان کسی ایسی چیز سے بھی آگاہ ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں اسے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔جیسا کہ ہم نے عرض کیاہے کہ ارادہ عقل کی قدرت کا ایک حصہ  ہے۔عقلی تکامل سے قوّت ارادی اور عقلی قدرت بھی تکامل تک پہنچ کر فعّال ہو جاتی ہیں۔اس بناء پر ظہور کے زمانے میں انسانوں کی عقل کے تکامل کے نتیجہ میں ان کی قوّت ارادہ میں بھی اضافہ ہو گا او وہ مزید قدرت مند ہو جائے گا۔ ظہور  کے زمانے میں انسان کی عقل شیطان کی قید اور نفس کی غلامی سے آزادہو جائے گی ۔ سپاہ عقل بھی ضعف و ناتوانی سے نجات پائے گی اور ان میں پوشیدہ اور مخفی طاقتیں ظاہر ہو کر فعّال ہو جائیں گی۔

غیبت کے تاریک اور سیاہ زمانے میں بہت سے انسان اپنی خواہشات اور آرزؤں کوحاصل  نہیں کر سکے ۔ لیکن ظہور کے بابرکت زمانے میں ایسا نہیں ہو گا۔اس وقت اگر کوئی کسی نامعلوم چیز سے آگاہ ہونا چاہے تو اس  سے پردے اٹھا لئے جائیں گے اوراس وقت  وہ جس چیز کے بارے میں چاہے آگاہ ہوسکتا ہے۔

ہم نے یہ حقائق خاندان نبوت علیہم  السلام سے سیکھیں ہیں ۔ ہم دل و جان سے ان معصوم ہستیوں کے ارشادات و فرمودات قبول کرتے ہیں تا کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں ہم پورے وجود سے اس حقیقت کو محسوس کر سکیں ۔ اس بناء پر عصرِ تکامل میں پہلے ارادہ انجام پائے گا اور اس کے بعد آگاہی متحقق ہو گی۔اس کی دلیل کے طور پر ہم خاندانِ وحی علیہم السلام کے فرامین میں سے سید الشہداء حضرت امام حسین  علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔ 

'' اِن اللّہ لیھب لشیعتنا ترامة لا یخفی علیھم شیء فی الارض وما کان فیھا حتّی اَنّ الرجل منھم یرید ان یعلم علم اھل بیتیہ فیخبرھم بعلم ما یعلمون '' ([1])

خدا وند متعال یقیناََ ہمارے شیعوں (زمانہ ظہور میںد نیا کے تمام لوگ خاندان نبوت علیہم السلام کے پیرو ہوں گے)کو ایسی کرامات بخشے گا کہ ان سے زمین اور اس میں موجود کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہے گی۔ حتی کہ اگر کوئی مرد اپنے اہل خانہ کے حال سے آگاہ ہونا چاہے تو پس وہ آگاہ ہو جائے گا کہ وہ جو کام بھی انجام دے رہے ہوں یہ ان سے باخبر ہو گا۔

 

اگر  انشاء اللہ ہم اس بابرکت زمانے کو درک کریں تو ان تمام حقائق کو دیکھ سکیں گے۔کیونکہ ہم نے یہ مطالب مکتب اہلبیت  علیہم السلام  کی تعلیمات سیکھے ہیں اور ہم انہیں شک و تردید کے بغیر قبول کرتے  ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان معصوم ہستیوں کے لئے ماضی حا ل اور مستقبل میں کوئی فرق نہیں ہوتا وہ تمام واقعات سے ایسے ہی آگاہ ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ہم نے یہ چیزیں خاندان عصمت  علیہم السلام   سے قبول کی ہیں اور عالم ذر سے ان کے ساتھ یہ عہد وپیمان کیاہے کہ جس طرح ہم اب ان پر پابند ہیں آئندہ بھی ایسے ہی ان کے پابند رہیں گے۔البتہ یہ بات ضرور جان لیں کہ زمانہ غیبت میں  کچھ ایسے استثنائی افراد بھی تھے کہ اگر وہ کسی چیز سے آگاہ ہونا چاہتے تو وہ اپنی قوّت ارادی سے اس سے آگاہ ہو جاتے۔ایسے افراد وہ تھے کہ جو غیبت کی تاریکی میں بھی نور تک پہنچ گئے۔ہم نے اس بحث میں نمونہ کے طور پر مرحوم سید بحر العلوم  کی زندگی کے واقعات نقل کئے تا کہ بعض افراد ظہور کے زمانے کے بعض واقعات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں۔

 


[1]۔ بحار الانوار :ج۵۳ص٦۳
 

 

 

    ملاحظہ کریں : 7150
    آج کے وزٹر : 70123
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129288662
    تمام وزٹر کی تعداد : 89804829