حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
نعمتوں سے سرشار دنیا

نعمتوں سے سرشار دنیا

اب جب کہ نعمتوں سے بھرپور اور سرشار اس بے مثال زمانے کا تذکرہ ہوا ہے تو بہتر ہے کہ ہم اس بارے میں رسول اکرم ۖ   کی روایت کو نقل کریں: 

'' تنعّم امتی فی زمن المہدی نعمة لم ینعموا مثلھا قطّ،ترسل السماء علیھم مدراراً، و لا تدع الارض شیئا من النّبات الّا اخرجتہ،والمال کدوس،یقوم الرجل یقول:یامہدی اعطنی فیقول: خُذ ''  ([1])

میری امت کو مہدی  علیہ السلام  کے زمانے میں اتنی نعمتیں میسر آئیں گی کہ جو اسے پہلے کبھی نہیں ملی ہوں گی۔آسمان سے ان کے لئے مفید بارش برسے گی،زمین اپنے اندر چھپی ہر نباتات کو خارج کرے گی اس زمانے میں مال و دولت فروان ہوگی۔ایک شخص کھڑا ہوگا اور مہدی  علیہ السلام  سے کہے گا : مجھے عطا کرو۔تو کہیں گے :لے لو۔

 

یہ واضح ہے کہ روزِ نجات ،دنیا کے تمام مکاتب گمراہی سے نجات پا لیں گے۔پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائے گا۔جس کی وجہ سے اس زمانے کے تمام افراد رسول اکرمۖکی امت شمار ہوںگی۔اسی لئے رسول اکرم ۖنے اس زمانے کے لوگوں کو ''امتی''یعنی میری امت سے تعبیر کیا ہے۔رسول اکرم ۖکی امت یعنی ہماری دنیا کے لوگ اس روز خوشحال ہوں گے اور ان میں دوعمومی خصوصیات ہوں گی ۔تقوی و ایمان کہ جو اس زمانے سے پہلے کبھی موجود نہیں تھی۔سب ان دوخصوصیات کے مالک ہوں گے۔جس سے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اور لوگوں پر رحمتِ الہٰی کی بارش برسے گی۔

اس زمانے میں یہ دوعظیم معنوی خصلتیں کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوں گی بلکہ سب ان سے بہرہ مند ہوںگے۔ان دو خصلتوں کے عام ہونے کی وجہ سے دنیا سے غضبِ الہٰی اٹھا لیا جائے گا اور لوگوں پر نعمتوں اور برکات کا نزول ہوگا۔

اس مطلب کے اثبات کے لئے ہم قرآن و سنت کا رخ کرتے ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: 

'' و لینزلنّ البرکة من السماء الی الارض حتی ان الشجرة لتقصف بما یرید اللّٰہ فیھا مناالثمرة،ولتأکلن ثمرة الشتاء فی الصیف و ثمرة الصیف فی الشتاء ، وذلک قولہ تعالی''وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ وَلَکِن کَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاہُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون ''  ([2])

یقیناًآسمان سے زمین کی طرف برکت نازل ہوگی ۔حتی کہ خدا درخت سے جو پھل چاہے،پیدا کرے گا۔گرمیوں کا پھل سردیوں اور سردیوں کا پھل گرمیوں میں کھائیں گے۔اسی لئے ارشاد پروردگار ہے:

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ،لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔ 

اس آیت ا و رروایت میں بہترین نکات موجود ہیں کہ جن میں سے ہم بعض کو بیان کرتے ہیں:

١۔آیت کے اس جملے'' فَأَخَذْنَاہُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون''میں فاء تفریعہ دلالت کرتا ہے کہ حقائق الہٰی کی تکذیب ،رسول ِ اکرم ۖکے احکام پرعمل نہ کرنا اور انہیں ردّ کرنا ،لوگوں کے لئے مؤاخذہ کا سبب بنا۔ان کے عمل کی وجہ سے لوگوں پر آسمانی برکات کا نزول بند ہوجاتا ہے اور بد بختی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

اس بناء پر ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ تمام جنایت و جرائم ،قتل وغارت،فساد اور بد امنی رسول ِ خدا کے فرامین سے روگردانی ان پر ایمان نہ لانے اور تقویٰ نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔

اگر لوگ ابتدا ء ہی سے خدا کے پیغمبروں کی تکذیب نہ کرتے،ان پر ایمان لے آتے اور ایمان کی بنیاد پر تقویٰ اختیار کرلیتے تو وہ کبھی بھی مصیبتوں،غموں اور بلائوں کے گرداب میں مبتلا نہ ہوتے۔

 


[1]۔ التشریف باالمنن:١٤٩

[2]۔ سورہ اعراف،آیت:٩٦۔بحاراانوار :ج ٥٣ص ٦٣

 

    ملاحظہ کریں : 7380
    آج کے وزٹر : 39289
    کل کے وزٹر : 58112
    تمام وزٹر کی تعداد : 130224966
    تمام وزٹر کی تعداد : 90292822