حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بحث کے اہم نکات

بحث کے اہم نکات

اب چند نکات پرتوجہ کریں ۔

١۔ متعدد  روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  کو قضاوت کرنے کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

٢۔ بعض دوسری روایات کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو گواہوں کی ضرورت ہو گی۔

لیکن ان روایات میں دوسری روایات سے تعارض کی توانائی نہیں ہے۔

٣۔ اگر فرض کریں کہ یہ روایات دوسری روایات کے متعارض ہیں تو پھر روایات کے مابین   طریقہ جمع سے استفادہ کرنا ہوگا جس میں  مخالف روایات کو حکومت ِ امام زمانہ  کے ابتدائی دور پر  حمل کرسکتے کہ جب حکومت پوری طرح مستقر نہ ہوئی ہو۔کیونکہ حکومت کے استقرار کے بعد روئے زمین پر امام عصرعلیہ السلام کے یاور و انصار میں تین سو تیرہ افراد کو غیبی امداد حاصل ہوگی۔جس کی وجہ سے وہ جھوٹے گواہوں کی گواہی سے غلطی میں مبتلانہیں ہوں  گے اور دوسری قسم کی روایات کو امام کی مستقر حکومت سے منسلک کر سکتے ہیں۔

٤۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بارحقیقت کی بناء پر قضاوت کی،ہم ان سے کہیں گے کہ :کیا یہ معقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بار واقع کی بناء پر قضاوت کی ہو اور ان کی قضاوت اتنی مشہور ہوجائے؟

٥۔اگر فرض کریں کہ حضرت دائود علیہ السلام  نے ایک ہی بار علمِ واقعی کے مطابق عمل کیا اور ان کی قضاوت اس قدر شہرت کی حاملبنگئی،تو اما م مہدی  علیہ السلام  کی قضاوت کو حضرت دائودعلیہ السلام  کی قضاوت سے تشبیہ دینا ،فقط اسی قضاوت کی وجہ سے ہے کہ جو مشہور ہوگئی۔

٦۔ اگر ہم یہ قبول بھی کرلیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے ایک بار اپنے علم واقعی کے مطابق قضاوت کی تو پھر ان روایات کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور آل دائودگواہ کا سوال کئے بغیر قضاوت کرتے تھے۔

٧۔ جیسا کہ ہم نے رسول اکرمۖکے فرمان سے نقل کیا کہ گواہوں  کی بنیاد پر قضاوت کا خلافِ واقع ہونا ممکن ہے کہ جو ایک قسم کا ظلم ہے۔اگر ایسا ہو تو پھر یہ کس طرح حضرت مہدی  علیہ السلام   کی حکومت سے سازگار ہوسکتا ہے؟

٨۔ ان سب کے علاوہ بھی اس روایت کے مطابق کہ جس میں حضرت دائودعلیہ السلام   نے خدا سے گواہی کی بنیاد پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیروکار حکم واقعی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔لیکن ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے وقت لوگوں کی عقلی اعتبار سے تکامل کی منزل پر فائز ہوں گی۔لہٰذا اس وقت واقع کے مطابق قضاوت سے دستبردارہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔


 

 

    ملاحظہ کریں : 7147
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 86198
    تمام وزٹر کی تعداد : 129320799
    تمام وزٹر کی تعداد : 89836978