حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
قضات، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے قضاوت سیکھیں

قضات، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے قضاوت سیکھیں

اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام  نے شریح قاضی کی سرزنش اور مذمت کی تھی کہ اس نے تحقیق کئے بغیر منکرین کے قسم کھانے کے بعد ان کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔

'' یا شریح، ھیھات! ھکذا تحکم فی مثل ھذا؟ '' ([1])

اے شریح افسوس کہ تم ایسے مورد میں اس طرح حکم کرتے ہو؟

مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی چودہویں جلد میں اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ چالیسویں جلد میں نقل کیا ہے۔

ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان گریہ وزاری کر رہا ہے اور کچھ افراداس کے ارد گرد جمع ہیں۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس کے بارے میں سوال پوچھا۔

اس نے کہا!شریح نے ایک مورد میں ایسے قضاوت کی ہے کہ جس میں میرے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام  نے پوچھا کہ واقعہ کیا ہے؟

نوجوان نے اپنے پاس کھڑے افراد کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا!یہ لوگ میرے باپ کے ساتھ مسافرت کی غرض سے گئے تھے۔یہ تو سفر سے واپس آگئے ،لیکن میرا باپ واپس نہیں آیا۔میں نے ان سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مر گیا ہے۔پھر جب میں اپنے باپ کے  پاس موجود مال کے بارے میں پوچھا تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں ہے؟

شریح نے ان سے کہا کہ تم لوگ قسم کھاؤ کہ تم اس کے مال سے بے خبر ہو۔انہوں نے قسم کھالی تو شریح نے مجھ سے کہا کہ اب تم اپنے موقف سے ہاتھ اٹھالو حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام  نے قنبر سے فرمایا!لوگوں کو جمع کرو اور شرطة الجمیس کو حاضر کرو۔ ([2])

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام بیٹھ گئے۔ان  لوگوں کو بلایا اور نوجوان بھی ان کے ہمراہ تھااس نے جو کچھ کہا حضرت امیرالمؤمنین  علی  علیہ السلام   نے اس کے بارے میں سوال پوچھے۔نوجوان نے اپنا ادّعا دوبارہ  بیان کیا اور رونا شروع کردیا اس نے کہا:

اے امیرالمؤمنین  !خدا کی قسم میں انہیں اپنے باپ کی موت کے بارے میں متہم سمجھتا  ہوں۔کیونکہ یقینا یہ حیلہ و مکاری سے میرے باپ کو شہر سے باہر لے گئے،جب کہ ان کی نظریں میرے باپ کے مال پر تھیں۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام  نے ان سے سوال کیا تو ان لوگوں نے وہی کچھ کہا،جو انہوں نے شریح سے کہا تھا کہ اس کا باپ فوت ہوگیا ہے اور ہمیں اس کے مال کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان کے چہرے پر نگاہ کی اور فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ کیا میں نہیں جانتا کہ تم لوگوں نے اس جوان کے باپ کے ساتھ کیا کیا؟ اگر ایسا ہو تو گویا میں بہت کم علم رکھتا ہوں۔

پھر حکم دیا کہ انہیں مسجد کی مختلف جگہوں پر جدا جدا بٹھادیا جائے اور اپنے کاتب عبیداللہ ابن ابی رافع کو بلایا اور فرمایا۔بیٹھ جائو۔پھر ان چند افراد میں سے ایک شخص کو بلایا اور کہا کہ اب مجھے یہ بتائوکہ تم لوگ کب گھر سے نکلے اور کیا اس جوان کا باپ تمہارے ساتھ تھا؟

اس نے کہا کہ میں فلاں روز سفر کے لئے نکلا۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے ابن ابی رافع سے فرمایا کہ یہ لکھ لو   پھر فرمایا کہ کس مہینے میں سفر پر گئے تھے ۔اس شخص نے مہینے کو تعین کیا۔

حضرت  نے فرمایا: اسے بھی لکھ لو۔

پھر فرمایاکہ کس سال سفر پر گئے تھے؟

اس نے فوت ہونے کا سال بتایا اور عبیداللہ ابن ابی رافع نے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا۔

پھر فرمایا کہ وہ کس بیماری کے سبب فوت ہوا؟

اس نے مرض کا نام بتایا۔

فرمایا کس جگہ فوت ہوا؟

اس نے جگہ کا بتایا۔حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے فرمایا کہ اسے غسل و کفن کس نے دیا؟اس نے کہا، فلاں نے اسے غسل و کفن دیا۔

فرمایا!کس چیز کا کفن دیا گیا ؟اس نے کفن کو تعین کیا۔

فرمایا!اس پر نماز جنازہ کس نے پڑھی؟

کہا!فلاں نے نماز جنازہ پڑھی۔

فرمایا!کس نے اسے قبر میں اتارا؟اس نے اسے قبر میں اتارنے والے شخص کا نام بتایا۔

عبیداللہ ابن ابی رافع نے ان سب کو قلمبند کر لیا۔

جب اس شخص نے دفن کا اقرار کیا توحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام  نے بلند آواز سے تکبیر کہی کہ جسے تمام اہل مسجد نے سنا۔

پھر حکم دیا کہ اس شخص کو اس کی جگہ پر لے جائیں اور ان میں سے دوسرے شخص کو بلایا۔ پھرحضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے اس سے بھی وہی سوال کئے کہ جو حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے پہلے شخص سے پوچھے تھے۔لیکن اس کے جواب مکمل طور پر پہلے کے جوابات سے مختلف تھے۔عبیداللہ ابن ابی رافع نے اس کے بھی تمام جوابات کو لکھ لیا۔

اس سے بھی تمام سوالات پوچھنے کے بعد حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے پھر بلند آواز میں تکبیر کہی کہ جسے تمام اہل مسجد نے سنا۔

پھر فرمایا کہ ان دونوں کو مسجد سے زندان میں لے جائو اور زندان کے دروازے پر رکھو۔

پھر تیسرے شخص کو بلایا اور پہلے والے دو افراد سے پوچھے گئے سوالات اس سے بھی پوچھے۔اس نے ان دونوں کے برخلاف جواب دیے۔اس کے جوابات کو بھی تحریر کرلیاگیا۔حضرت امیرالمؤمنین  نے تکبیر کی صدا بلند کی اور فرمایا کہ اسے بھی اس کے دونوں دوستوں کے پاس لے جائو۔پھر چوتھے فرد کو بلایا گیا۔

وہ بات کرتے وقت بہت مضطرب تھا اور اس کی زبان پر لکنت طاری ہورہی تھی۔

حضرت علی  علیہ السلام   نے اسے نصیحت فرمائی اور ڈرایا تو اس شخص نے اعتراف کرلیا کہ اس نے اور  اس کے دوستوں نے مل کر اس جوان کے باپ کو مال کی خاطر قتل کیا ہے اور اسے کوفہ کے نزدیک فلاں مقام پر دفن کیا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام   نے حکم دیا کہ اسے زندان کی طرف لے جائواور پھر پانچویں فرد کو بلایا اور اس سے فرمایا!کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ شخص خود ہی مر گیا،حالانکہ یقینا تم نے اسے قتل کیا ہے؟تم نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا،وہ صحیح صحیح بتائو ورنہ تمہیں سخت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی ہو ں گی۔

اس نے بھی اس شخص کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ۔جس طرح اس کے دوست نے اعتراف کیا تھا پھر بقیہ افراد کو بلایا گیاتو انہوں نے بھی قتل کا اعتراف کیا اور انہوں نے جو کچھ کیا،اس پر انہوں نے ندامت و پشیمانی کا اظہار کیا ۔پھر سب نے اس شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال لینے کا اعتراف کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے حکم دیا کہ کوئی ان کے ساتھ اس جگہ جائے،جہاں انہوں نے وہ مال دفن کیا ہوا ہے۔انہوں نے وہ مال لاکر مقتول کے فرزند کو دے دیا۔

پھرحضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے اس جوان سے فرمایا!تمہارا ان کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اب تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا کیا ؟

نوجوان نے کہا!میں چاہتا ہوں کہ میرے اور ان کے درمیان قضاوت خداوند متعال کے نزدیک ہو۔میں اس دنیا میںان کے خون سے ہاتھ اٹھا تا ہوں۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام   نے ان پر قتل کی حد جاری نہ کی ۔لیکن انہیں سخت سزا دی۔

شریح نے حضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے کہا کہ آپ نے کس طرح یہ حکم صادر فرمایا؟

حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

حضرت دائود کچھ بچوں کے پاس  سے گزرے تھے کہ جو کھیل کود میں مصروف تھے۔ان بچوں نے ایک بچے کو '' مات الدین''کے نام سے آواز دی اور اس نے بھی دوسرے بچوں کو جواب دیا۔

دائود علیہ السلام اس بچے کے پاس گئے اور کہا کہ تمہارا نام کیا ہے؟

بچے نے کہا! میرا نام'' مات الدین''ہے۔

دائود علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ کس نے تمہارا یہ نام رکھا ہے؟

اس نے کہا کہ میری ماں نے۔

دائود علیہ السلام نے کہا تمہاری ماں کہاں ہے؟

اس نے کہا گھر میں۔

پھر دائود علیہ السلام نے کہا میرے ساتھ اپنی ماں کے پاس چلو۔جب دائود علیہ السلام بچے کے ساتھ گھر پہنچے تو بچے نے ماں کوبلایا۔

دائود علیہ السلام نے بچے کی ماں سے پوچھا ،اے کنیز ِ خدا تمہارے اس بچے کا کیا نام ہے؟

عورت نے کہا کہ اس کا نام ''مات الدین'' ہے۔

دائود علیہ السلام نے عورت سے کہا کہ اس کا یہ نام کس نے رکھا ہے؟

عورت نے جواب دیا کہ اس کے باپ نے۔

دائود علیہ السلام نے کہا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟

عورت نے کہا! وہ سفر کے لئے گھر سے نکلا اور اس کے ہمراہ کچھ لوگ تھے اور میں حاملہ تھی۔میرے شکم میں یہ بیٹا تھا۔وہ سب لوگ تو سفر سے واپس آگئے لیکن میرا شوہر واپس نہیں آیا۔میں نے ان سے اپنے شوہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مرگیا ہے۔جب میں نے اس کے مال کے بارے میں پوچھا۔تو انہوں نے کہا کہ اس نے کوئی مال نہیں چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ تمہارا شوہر کہہ رہا تھا کہ تم حاملہ ہو ۔چاہے بیٹا پیدا ہو یا بیٹی،اس کا نام '' مات الدین''  رکھنا ۔پس میں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام ''مات الدین ''رکھ دیا۔

دائودعلیہ السلام نے کہاکہ کیا تم ان لوگوں کو جانتی ہو؟

عورت نے کہا ! جی ہاں۔

دائود علیہ السلام نے کہا ،ان کے گھر جائو اور انہیں  یہاں لے آئو۔

وہ دائود علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے تو دائود علیہ السلام نے ایسا فیصلہ کیا کہ جس سے ان پر مرد کا خون ثابت ہوگیا اور ان سے مال لے لیا۔پھر عورت سے فرمایا!اے کنیزِ خدا ،اپنے فرزند کا نام ''عاش الدین''   رکھو  ۔([3])

اس رویات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ شریح کا منکرین کی قسم پر تکیہ کرنا اشتباہ تھا۔ان کی جھوٹی قسم ناحق قضاوت کا سبب بنی۔

 


[1]۔بحار  الانوار:ج۱۴ص۱۱

[2]۔ جمیس بمعنی جنگ، اور شرطة الجمیس خاص افراد کو کہا جاتا تھا کہ جن میں سے ایک اصبغ ابن نباتہ تھے۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو شرطة الجمیس کیوں کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے امیرالمؤمنین علی کے ساتھ شرط کی ہے کہ ہم ان کے لشکر میں سب سے آگے جنگ کریں گے ، یہاں تک کہ ہم قتل ہوجائیں اور امیرالمؤمنین نے ہمیں فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے۔ (بحار  الانوار:ج۱۴ص۱۱)

[3] ۔ بحارالانوار: ج٤٠ص ٢٥٩

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 7365
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 87255
    تمام وزٹر کی تعداد : 129322914
    تمام وزٹر کی تعداد : 89839093