حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

نظام کائنات اور مخلوقات جہان کے با رے میں تفکر انسان کے دل میں ایمان و یقین کو تقویت دیتا ہے ۔ پھر اس کا وجود باری تعالیٰ اور تمام مذہبی عقائد پر اعتقاد مزید محکم ہو جاتا ہے ۔ کہکشانوں میں موجود اربوں ستاروں اور اس کے علاوہ آسمان پر موجود انگنت ستاروں کی خلقت اور پھر ان کا ایک منظم نظام کے تحت رواں و دواں رہنا ، ایک مدبر و قادر خالق کے وجود کی بہت واضح اور بڑی دلیل ہے۔ انسان کی فکر کائنات کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے ۔ دنیا بھر کے محققین کو خلقت کائنات کے بارے میں تحقیق کے دوران ایسے ایسے اسرار و رموز کا سامنا ہوا کہ انہوں نے ان کی حقیقت کو درک کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پا یا ۔ لیکن انہوں نے واضح آیا ت و نشانیوں کا مشاہدہ کیا کہ جو صاحبان عقل کے دلوں کو احیاء و جلا بخشتی ہے ۔ جی ہاں ! اس کائنات کی عظمت کے بارے میں  تفکر کرنا   خالق کائنات  قادر و مہربان کے وجود پر یقین و ایمان  میں  اضافہ کا سبب ہے ۔

عالم ملکوت سے لو لگانا اولیاء خدا کی صفات میں سے ہے وہ غور و فکر کے ذریعہ کائنات کے رموز واسرار کو کشف کرتے ہیں ۔ وہ نہ صرف عالم ملکوت کی طرف رخ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو بھی اسی چیز کی سفارش و تلقین کرتے ہیں ۔

حضرت لقمان کی اپنےبیٹوں کو کی گئی وصیت میں ذکر  ہوا ہے :

''اطل التفکر فی ملکوت السمٰوٰت و الارض والجبال و ما خلق اللّٰہ فکفیٰ بھذا واعظاً لقلبک ''([1])

اپنی فکر کو آسمانوں ، زمین ، پہاڑوں ، اورخدا کی دیگر خلق کردہ اشیاء کے بارے میں طولانی کرو۔ ایسی سوچ و فکر تمہارے قلب کو وعظ و نصیحت کے لحاظ سے کفایت کرے گی  ۔

ملکوت کے بارے میں تفکر (  جس کے بارے میں لقمان نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی) کے بہت سے اثرات ہیں کہ اگر انسان ان کو انجام دینے کی توفیق پیدا کرے تو اس کے مستقبل میں بہت عظیم تحولات رونما ہوتے ہیں ۔ کیو نکہ ملکوت و آسمانوں و زمین اور خدا کی دیگر مخلوقات کے بارے میں تفکر سے اعتقاد ایجاد ہو تا ہے ۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوند ہے :

''ا ِنَّ فی خَلْقِ السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّہارِ َلآیاتٍ ِلأُولِی اْلأَلْباب،الَّذینَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیامًا وَ قُعُودًا وَ عَلی جُنُوبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُونَ فی خَلْقِ السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ ہذا باطِلاً سُبْحانَکَ فَقِنا عَذابَ النّار ''([2])

بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل ونہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اور ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں کہ پرور دگار تو نے یہ سب بیکار خلق نہیں کیا ہے ۔ پرورگار تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما ۔

ان کا آسمان و زمین کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرنا صرف ملکی پہلو سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ  ملکوتی پہلو کو بھی شامل کر تا ہے ۔ وہ کائنات کی مادی و ملکوتی خلقت میں تفکر کے ذریعہ اپنے ایمان ویقین میں اضافہ کر تے ہیں ۔

 


[1] ۔ بحار الانوار:ج ١٣ ص ٤٣١

[2]۔ سورہ آل عمران آیت: ۱۹۰  اور  ۱۹۱

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 7609
    آج کے وزٹر : 29626
    کل کے وزٹر : 40551
    تمام وزٹر کی تعداد : 133377133
    تمام وزٹر کی تعداد : 92296758