حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
شہادت کے عظیم امر پر توجہ کرتے ہوئے عزاداری کرنا اور کائنات پر اس کے اثرات کے بارے میں غور و فکر کرنا

شہادت کے عظیم امر پر توجہ کرتے ہوئے عزاداری کرنا  اور کائنات پر اس کے اثرات کے بارے میں غور و فکر کرنا

شیعوں کے کچھ بزرگ عزاداری کے وقت شہادت کی عظمت اور کائنات میں اس کے آثار پر غور کرتے ہیں ، جو حضرت بقیۃ اللہ الأعظم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے حضور  ان کےتقرب میں اضافہ کا باعث ہے۔اس وجہ سے دوسرے افراد کے ساتھ ان کی عزاداری اور گریہ میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے ۔  ہم یہاں مرحوم محمد کوفی اعلی اللہ مقامہ کا واقعہ ذکر کرتے ہیں ، جو بارہا  امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں شرفیاب ہوئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنہ ۱۳۳۵  میں ماہ رمضان کی اٹھارہویں رات مسجد کوفہ میں جانے کا ارادہ کیا  تا کہ میں انیسویں کی رات (شب ضربت امیر المؤمنین علی علیہ السلام) اور اکیسویں کی رات (شب شہادت  امیر المؤمنین حضرت علیہ السلام) شب بیداری کروں  اور اس جانسوز واقعہ پر غور و فکر کروں اور عزاداری کروں ۔

فرماتے ہیں :  میں نے مقامِ امیر المؤمنین علیہ السلام کے نام سے مشہور مقام پر مغربین کی نماز ادا کی  اور پھر میں افطار کرنے  کے لئے مسجد کے ایک گوشہ میں چلا گیا ، میرے پاس روٹی اور کھیرے تھے ۔ پس میں مسجد کی مشرقی طرف گیا اور جب میں پہلے طاق سے گزر کر  دوسرے طاق تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک چٹائی بچھی ہوئی ہے اور ایک شخص اپنی عبا اوڑھ کر اس پر سویا ہوا ہے ، اور ایک صاحبِ  عمامہ عالم ان کے پاس بیٹھا ہوا ہے ۔ میں نے انہیں سلام کیا ، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا : بیٹھ جاؤ ، میں بیٹھ گیا ۔

انہوں نے مجھ سے ایک ایک عالم و فاضل کے حال و احوال  کے بارے میں پوچھنا شروع کیا  اور میں انہیں بتاتا رہا کہ وہ خیر و عافیت سے ہیں ۔  پھر سوئے ہوئے شخص نے ان سے کچھ کہا ، لیکن میں نہ سمجھ سکا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ، اور دوسرے شخص نے بھی ان سے کچھ نہیں پوچھا ۔

میں نے ان سے پوچھا : یہ جو سو رہے ہیں ، یہ کون ہیں ؟

انہوں نے کہا : یہ سید عالَم ہیں ، میں نے ان کی بات کو  بہت بڑی بات سمجھا اور سوچا کہ  یہ اس شخص کو بہت بزرگ شخصیت کے طور پر متعارف کروانا چاہتے ہیں ۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ سید عالَم تو حضرت حجت ابن الحسن العسکری ارواحنا فداہ ہیں ۔

میں نے کہا : یہ سید ، عالِم ہیں ۔

انہوں نے کہا : نہیں ! یہ سید عالَم ہیں ۔

پس میں خاموش ہو گیا ، اور ان کی بات پر بہت حیران ہوا ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ دیوار پر  چراغ کے نور کی طرح کا نور ساطع ہے،حالانکہ رات کی تاریکی تھی،لیکن میں اس نور کی طرف متوجہ نہ ہو سکا کہ وہ کس کا نور تھا ، اور اس کے بقول یہ سید عالَم ہیں ۔

شیخ محمد فرماتے ہیں : جو شخص بیٹھا ہوا تھا ، انہوں نے پانی مانگا ۔ ایک شخص نے انہیں پانی کا ایک کاسہ دیا ، انہوں نے پانی پینے کے بعد بقیہ پانی مجھے دے دیا ۔

میں نے کہا : میں پیاسہ نہیں ہوں ۔ اس شخص نے مجھ سے کاسہ لے لیا اور وہ چند قدم جانے کے بعد غائب ہو گئے۔ 

پس میں اس مقام پر نماز کے لئے اٹھا اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی مصیبت عظمیٰ کے بارے میں غور و فکر کرنے لگا۔

اس شخص نے میرے مقصد کے بارے میں پوچھا ، میں نے انہیں اپنی مقصود بتائی ، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی ۔

میں نے مقام امیر المؤمنین علیہ السلام میں چند رکعت نماز پڑھی ، مجھ پر تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ ہو  گیا ، جس کی وجہ سے میں سو گیا ، اور بیدار نہ ہو سکا ، مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے دن کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی ہے ۔ میں نے اپنی بہت ملامت کی کہ میں جس مقصد  کے لئے یہاں آیا تھا ، وہ پورا نہ ہو سکا اور شب بیداری کرتے ہوئے عبادت نہ کر سکا  میں امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی مصیبت کی وجہ سے محزون تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کس چیز کی وجہ سے میں یہاں سو گیا ، حالانکہ میں یہاں شب بیداری کے لئے آیا تھا ۔

پھر میں نے ایک جماعت کو دیکھا ، جو دو صفیں بنائے ہوتے تھے اور نماز جماعت قائم ہونے والی تھی ، ان میں ایک امام جماعت بھی تھا ۔ اس جماعت میں سے ایک شخص نے کہا : اس جوان کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں ، امام جماعت نے کہا : اس کے دو امتحان ہیں ، ایک چالیس سال کی عمر میں اور دوسرا ستر سال کی عمر میں ۔

مرحوم شیخ محمد کہتے ہیں : میں وضو کرنے کے لئے مسجد سے باہر گیا ، اور جب میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ اب بھی رات کی تاریکی ہے ، اور وہاں کوئی جماعت نہیں ہے ۔ پھر میں متوجہ ہوا کہ وہ سید عالَم حجت منتظر تھے ، جو استراحت فرما رہے تھے اور دیوار پر ساطع ہونے والا نور؛ نورِ امامت تھا ، وہ دوسری مرتبہ وہی امام جماعت تھے ، اور رات انہی کے انور متجلی سے روشن اور منور ہو چکی تھی ، اور وہ جماعت حضرت کے خواص تھے ، اس شخص کا پانی لانا اور واپس لوٹ جانا حضرت کا اعجاز تھا ۔

    ملاحظہ کریں : 157
    آج کے وزٹر : 53281
    کل کے وزٹر : 64040
    تمام وزٹر کی تعداد : 130710552
    تمام وزٹر کی تعداد : 90645999