حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کائنات میں اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر غور و فکر کرنا

کائنات میں اہل بیت علیہم السلام کے  مصائب پر غور و فکر کرنا

کچھ لوگ مجالس عزا میں شرکت کرتے ہیں اور مجالس عزا میں  پڑھے جانے والے مصائب اور مرثیوں کو سن کر پورے وجود سے غمزدہ ہوتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں ۔ یہ واضح سی بات ہے ان کے دل میں اس غم و حزن اور گریہ و عزاداری سے حیرت انگیز آثار پیدا ہوتے ہیں ، جس سے اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ ان کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ بذات خود ایک اہم اور عظیم معنوی حقیقت ہے  ، لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان امور کے بارے میں انسان کی معرفت اور تفکر و تعقل جس قدر زیادہ ہو گا ، اس کے آثار بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے ۔ مثال کے طور اگر کوئی شخص امام حسین علیہ السلام کی پیاس کی شدت اور آپ کے زخموں کی کثرت کی وجہ سےغمزدہ ہو  اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں اور دوسرا شخص ان امور کی وجہ سے گریہ کرے اور وہ جانتا ہو کہ پیاس کی شدت اور زخموں کی کثرت سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے کائنات پر کیسی  کیسی مصیبتیں آئیں ، آپ کی شہادت نے ہزاروں سال پہلے سے آئندہ زمانے تک دنیا کو کس حد تک متأثر کیا ہے اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام پر ہونے والے مظالم نے مخلوقات اور موجودات پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں اور انہیں بہت بڑی محرومیت سے دچار کیا ہے ، اب یہ واضح سی بات ہے کہ عزاداری سے مرتب ہونے والے آثار کے لحاظ سے ان دونوں کی معرفت میں کس حد تک فرق ہے ۔

اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ عزاداری صرف زمین تک محدود ہے اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب صرف عالم خاکی تک منحصر ہیں ،  اور دوسرا شخص  عرش پر بھی سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے باخبر ہو اور بخوبی یہ بات جانتا ہوں کہ حضرت کی مظلومانہ شہادت کی وجہ سے  عرش الٰہی پر بھی لرزہ طاری ہو گیا ،«اقشعرّت له اظلّة العرش»[1] ، پس ان دونوں کی معرفت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے ۔

نیز یہ بھی واضح ہے کہ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نشیب میں واقع قتلگاہ کے مصائب سے عرش الٰہی پر لرزہ طاری ہو گیا ،  اور وہ عالم ہستی پر حضرت کی ولایت سے باخبر ہو ، اور دوسرا شخص امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو صرف قتلگاہ تک ہی محدود سمجھے اور اس سے زیادہ نہ جانتا ہوں تو ان دونوں کی عزاداری میں بہت زیادہ فرق ہے ۔

اکثر اوقات مجالس عزا  میں ہونے والی عزاداری ، ان میں پڑھے جانے والے مصائب  اور ان پر  بہائے جانے والے آنسوؤں کا تعلق پہلی قسم  (یعنی ظاہری عزاداری) سے ہوتا ہے  اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ رونے والا ، آنسو بہانے والا ان مصائب کی گہرائی کے بارے میں غور کرے اور عالم ہستی پر ان مصائب کے اثرات کی گہرائی پر توجہ کرتے ہوئے گریہ کرے  ۔

 


[1] ۔ صحیفۂ حسینیہ ، پانچویں زیارت : ۱۵۸.

    ملاحظہ کریں : 160
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 56191
    تمام وزٹر کی تعداد : 130588594
    تمام وزٹر کی تعداد : 90531589