حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ایک اہم اور قابل مطالعہ تحقیق

ایک اہم اور قابل مطالعہ تحقیق

کتاب « چگونه عقل ما كامل شود»میں لکھتے ہیں :

شاید اعتقادی لحاظ سے یہ کوئی نئی بات نہ ہو کیونکہ یہ ہمارا محکم عقیدہ ہے،لیکن تجرباتی لحاظ سے یہ بات نئی ہے  کہ ہم امام رضا علیہ السلام کی ضریح مقدس سے جس قدر نزدیک ہوتے جائیں ، وہاں کی ہوا اور حرم کے در و دیوار میں جراثیموں کا تناسب صفر کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ 

ہم اپنی اس کتاب میں سنہ ۱۹۹۰ ء میں ہونے والی تحقیق کی عبارت ہی ذکر کرتے ہیں جسے «طرح‏بررسى ميكروبى حرم مطهّر امام رضا عليه آلاف التحيّة والثّناء» کے عنوان سے بیان کیا گیا تھا تا کہ ان کی ولایت مطلقہ کی مخالفت کرنے والے دل کے اندھے لوگ یہ جان لیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ خود عین عصمت ہیں اور ان کی تعلیمات عصمت پرور ہیں ، بلکہ ان کے حرم کے در و دیوار اور ضریح مقدس سے جس قدر نزدیک ہوتے جائیں گے ، وہاں آلودگی اور جراثیموں کا تناسب کم ہوتا جائے گا اور اس کا تناسب اپنی کم ترین ممکن حد تک پہنچ جائے گا ۔

ایران کی ’’وزارت ثقافت و اعلیٰ تعلیم اور  ایران کی سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم ‘‘ نے سنہ ۱۹۹۰ء میں حوالہ نمبر 1454/79/301 کے ذیل ایک خط لکھا اور تین محققین کو معین کیا تا کہ وہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم میں جراثیموں کی موجوگی کے احتمال کے بارے میں تحقیق کریں  اور اس  خط میں آستان قدس رضوی سے  حرم کے مختلف  مقامات اور بالخصوص مرقد مطہر سے نمونے لینے کے لئے تعادن کی درخواست کی گئی تھی ۔

محققین کی تحقیق مکمل ہونے کے بعد اسے  ایک مضمون کی شکل میں ’’زیست شناسی‘‘ نامی رسالے میں شائع کیا گیا اور اب ہم حضرت امام رضا علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والوں کی خدمت میں وہ تحقیق پیش کر رہے ہیں :

اس مضمون میں واضح طور پر یہ بات بیان کرتے ہیں :

مذہبی عقائد کے لحاظ سے معصومین علیہم السلام اور پاک و برجستہ افراد ہر قسم کی آلودگی سے دور ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی برائی اور فساد نہیں پایا جاتا ، حتی موت کے بعد بھی خدا کے فرمان کی رو سے وہ ہر قسم کی آلودگی سے دور ہوتے ہیں  اور ان کا بدن مطہر اسی طرح صحیح و سالم  رہتا ہے ۔ جناب حر بن یزید ریاحی اور ابن بابویہ کا صحیح و سالم بدن اس بات کی تائید کرتا ہے کہ جو موجودہ صدیوں میں اتفاقی طور پر ان کی قبر سے خارج ہوا ۔

نیز مکان کے لحاظ سے بعض بزرگ ہستیوں کے محل دفن کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ وہ جنت  کی خاک ہے  اور شفا بخش ہے ۔ مذکورہ روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی دوسری کرامات بھی واضح ہو جاتی ہیں ، جیسے خاک کربلا یا خاک طوس ۔

امام محمد تقی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے :

طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے جسے جنت سے لایا  گیا ہے اور جو اس میں داخل ہو گا وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔

اگرچہ مافوق طبعیات اور تجرباتی علوم میں بہت فرق ہے، لیکن ہمیں کم از کم تحقیق کے عنوان سے مائیکرو بیالوجی کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے ، لہذا ہم نے مندرجہ ذیل  صورت کے مطابق تحقیق کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا ۔

اس منصوبے کے تحت ہم نے حرم مطہر کا مکمل نقشہ حاصل کیا اور پھر ضریح مقدس کو مرکز قرار دیتے ہوئے حرم کے اطراف میں مختلف چوراہوں سے مرکز (یعنی ضریح) تک کی حدود کو دائرے کی صورت میں معین کیا  اور پھر اس دائرے میں مختلف مقامات کو معین کیا۔ہم نے سال کے مختلف موسموں اور دن رات کے مختلف اوقات میں ان معین شدہ مقامات سے نمونے اخذ کئے  اور اس تجرباتی تحقیق کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہم ضریح مقدس سے  جس قدر نزدیک ہوتے جائیں  گے ، اتنا ہی جراثیموں کا تناسب کم ہوتا جائے گا ۔ [1] 

 


[1] ۔ چه كنيم عقل ما كامل شود: ۲۷۴.

    ملاحظہ کریں : 157
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 87466
    تمام وزٹر کی تعداد : 131461305
    تمام وزٹر کی تعداد : 91136965