حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۶ ۔ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے نماز توجہ

(٦)

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے نماز توجہ 

احمد بن ابراہیم کہتے ہیں : ہمارے مولا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے دیدار کی آرزو نے میرے دل میں کروٹیں لی۔ چنانچہ میں نے جناب ابو جعفر محمد بن عثمان (جونواب اربعہ میں سے تھے)سے اپنی حالت کا اظہار کیا ۔

جناب محمد بن عثمان نے فرمایا:کیایہ تمہاری دلی تمنّا ہے کہ آنحضرت کی زیارت کرو؟

 میں نے کہا :جی ہاں !

فرمایا: پروردگار عالم تمہیں اس دلی آرزو کا ثواب عطا فرمائے تمہارے انجام کو بخیر پاتا ہوں ۔ اے اباعبداللہ!آنحضرت کے دیدارکے لئے التماس نہ کروکیونکہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں آنحضرت کے دیدار کا اشتیاق تو پایا جاتا ہے لیکن ان کے دیدار کے متعلق سوال نہیں ہونا چاہئے، [1] کیونکہ یہ ارادۂ الٰہی میں سے ہے اور اس کو تسلیم کرلینا چاہئے لیکن جب بھی ان کی طرف توجہ کرنا چاہو تو اس زیارت کے ذریعہ حضرت  کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔

پہلے دو دو رکعت کی صورت میں بارہ رکعت نماز پڑھو اورہر رکعت میں سورۂ توحید  پڑھو پھر محمدو آل محمدعلیہم السلام پر صلوات بھیجو اور پروردگار عالم کے اس قول کو دہراؤ :

 «سَلامٌ عَلى آلِ ياسينَ»،ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْمُبين مِنْ عِنْدِ اللَّهِ،وَاللَّهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظيم، إِمَامُهُ مَنْ يَهْدِيْهِ صِراطَهُ الْمُسْتَقِيْم ، قَدْ آتاكُمُ اللَّهُ خِلاَفَتَهُ يَا آلَ ياسين ...۔[2]

سلام ہو  آل یاسین پر، خدا کی طرف سے یہ وہی واضح وا شکار فضل ہے،اور خدا عظیم و بزرگ فضل کا کا مالک ہے،١س کا امام و پیشوا وہ ہ ے  جو اسے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے اور بیشک اے آل یاسین خدا نے تمہیں اپنی جانشینی عطا کی ہے۔


[1]۔ یہ واضح ہے کہ محمد بن ابراہیم کا نصیب اور قسمت یہی تھی اور اس حکم میں سارے افراد شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک دوسرے شخص نے اس حاجت(امام  کا دیدار)کی درخواست کی اور اسے آنحضرت کا دیدار نصیب ہوا۔

زہری کہتے ہیں :میں ایک مد ت سے آنحضرت کی جستجو میں تھا اور اس راہ میں بہت کوشش کی اورکثیر سرمایہ بھی خرچ کیا ۔میں آنحضرت کے نائب جناب شیخ عمری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور ان کی خدمت کے لئے کمر ہمت کس لی ،میں نے ان کی خدمت میں کوئی قصر نہ چھوڑی اور ان کا خادم بن گیا ۔ایک مدت کے بعدمیں نے ان سے حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے دیدار کے متعلق سوال کیا ۔

 فرمایا : اس مسئلہ کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے ۔میں نے التماس کی اور تواضح سے اس بات پر اصرار کیا۔انہوں نے فرمایا: کل صبح آجانا۔

میں دوسرے دن صبح ان کی خدمت میں شرفیاب ہوا انہوں نے میرا استقبال کیا، ان کے ہمراہ ایک جوان تھا ،جس کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور ان سے بہترین خوشبو آرہی تھی ،ان کے لباس کی آستین تاجروں کی طرح تھی ۔جب میری نگاہ ان کے بے مثال جمال پر پڑی توشیخ عمری کے پاس  گیا۔شیخ عمری نے  اشارے سے مجھے آنحضرت کی طرف جانے کو کہا، میں نے ان کی طرف رخ کرکے کئی سوال کئے ،انہوں نے میرے ہر سوال کا جواب دیا، پھر وہ ایک کمرے میں جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے عام طور پر کوئی بھی اس کمرے میں آتا جاتا نہیں تھا۔شیخ عمری نے مجھ سے کہا:اگر اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو کہ اس روز کے بعد تم ان کا دیدار نہیں کرپاؤ گے۔ (الاحتجاج :ج ۲ ، ص ۲۹۷)۔

[2]۔ بحار الانوار :ج ۵۳ ، ص ۱۷۴۔ہم ’’باب زیارات ‘‘ میں یہ زیارت ذکر کریں گے۔

    ملاحظہ کریں : 160
    آج کے وزٹر : 35188
    کل کے وزٹر : 58421
    تمام وزٹر کی تعداد : 129658727
    تمام وزٹر کی تعداد : 90009206