حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ظہور کا انتظار یا ظہور کا اعتقاد؟!

ظہور کا انتظار یا ظہور کا اعتقاد؟!

انتظار کا معنی صرف ظہور کے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اس کی فکر میں رہنا اور اس کی آرزو رکھنا بھی ضروری ہے۔

 ممکن ہے بہت سے افراد کے پاس مہمان کی ضیافت کے امکانات موجود ہوں لیکن نہ تو انہوں نے کسی کی دعوت کی ہو اور نہ ہی کسی کے آنے کے منتظرہوں ۔ایسے افراد کو صرف ضیافت کا امکان رکھنے کی بناء پر کسی کا منتظر نہیں کہا جاسکتاکیونکہ نہ تو انہیں مہمان کے آنے کا خیال ہے اور نہ ہی مہمان کے نہ آنے پر آزردہ  خاطرہوں گے ۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسان انتظار کے اہم مسئلہ اور اور اس دن (جب پوری کائنات سے ظلم وستم کا صفایاہوجائے گا) پر توجہ کئے بغیر اپنی ذاتی اصلاح اور خودسازی میں کمی محسوس کرتا ہے ۔کیونکہ جو شخص بھی ایساہے اس نے اپنی ایک بڑی ذمہ داری یعنی پوری دنیا سے ظلم وستم کے خاتمہ کے انتظار اور اس کے لئے کوشش کرنے کو فراموش کردیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں:اسی صورت میںخود سازی اور اصلاح نفس کا تکامل اور عروج کی منزل پرپہنچ سکتاہے جب انسان پورے عالم سے ظلم وستم کے خاتمہ کا منتظر ہو اور صرف اپنے نفس کی اصلاح کے بارے ہی میں نہ سوچے۔ پس جو اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کوشاں ہے اسے چاہئے دنیا کی اصلاح کرنے والے کا منتظر رہے اور صرف اس موضوع پر اعتقاد رکھنے پر ہی اکتفاء نہ کرے۔

 اس بناء پر جس نکتہ پر توجہ کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ظہور کا انتظارکرنے اور ظہور کے عقیدے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ تمام شیعہ بلکہ دنیاکی بہت سی دوسری اقوام کا عقیدہ ہے کہ ایسا مصلح ظہور کرے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گالیکن اس واقعیت پر عقیدہ رکھنے والے وہ سب اس کے تحقق کے منتظر نہیں ہیں !

جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہورکا منتظر ہو اسے چاہئے کہ عقیدے کے علاوہ آنحضرت کے زمانے کو درک کرنے کی امید و انتظار بھی رکھے اور انتظار و امید کی بنیاد  پر عمل کرے۔

وہ تمام روایتیں جن میں انتظار کے مسئلہ کا ذکر ہوا ہے وہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کی امید اور آپ کے زمانے کو درک کرنے کی آرزو اور امید رکھنے کے لازمی ہونے کی دلیل ہیں۔ کیونکہ اگر انتظارا ور امید نہ ہو اور انسان آنحضرت کے ظہور کے زمانے کو درک کرنے سے مایوس ہو تو وہ کیسے انتظارکی روایات پر عمل کر سکتا ہے کہ جو انسان کو انتظار و آرزو کا سبق دیتی ہیں؟!

اس بناء پر انتظار کا درس دینے والی روایات کی رو سے ظہور کے عقیدے کے  علاوہ اس زمانے کو درک کرنے کے لئے آمادگی ہر انسان کی ذمہ داری ہے اورہر ایک کا فریضہ ہے کہ ظہور کی فکر میں ہواور اپنے زمانے میں ظہور کے زمانے کو درک کرنے کی آرزو رکھتا ہواور عافیت کے ساتھ عصر ظہور کو درک کرنے کی دعا کرے۔

    ملاحظہ کریں : 218
    آج کے وزٹر : 35629
    کل کے وزٹر : 68799
    تمام وزٹر کی تعداد : 130101742
    تمام وزٹر کی تعداد : 90231050