حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کائنات کے امیر کی جانب

کائنات کے امیر کی جانب

یقین رکھیئے!جو بھی سچائی سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی جستجو کرے اور حضرت کی راہ میں خدمت کرے اورآپ کے ظہور میں تعجیل کے لئے کوشش کرے گا تو  بالآخر وہ راستہ اسے ایسی جگہ لے جائے گاکہ جہاں اس محبوب عالم کی طرف ایک دریچہ کھلتا ہو ۔

اس بناء پرحضرت کی نسبت مدد اور فدا کاری سے ہاتھ نہ اٹھایئے کہ جن کے ہاتھوں کو عصر غیبت نے اسی طرح باندھ دیا ہے جیسے دشمنوں نے اولین مظلوم ہستی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے گلے میں ریسمان ڈالا اور ان بزرگوار کے ہاتھوں کو باندھ دیا تھا ۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کے لئے کوشش کر کے کم از کم غیبت کی رسی کا ایک تارضرور تو ڑ دیں ۔

اطمینان رکھیئے !اگر کوئی حضرت  کی راہ میں فداکاری کرے اور کسی فریب کاری کی فکر میں نہ ہو تو اس پرآنحضرت کی عنایت ہوگی اورآپ ایک کلام یا پیغام،یا ایک نگا ہ کے ذریعہ ضرور اس کے دل کو مسرورکریں گے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی حقیقی تلاش میں ہو اور اس کے لئے کوشش کرے اور آخر میں اسے اپنے مکمل مقصدیا اس میں سے کم از کم کچھ حصہ بھی نہ ملے ۔

 امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

من طلب شیئاً نالہ او بعضہ۔ [1]

جو کسی چیز کی تلاش میں ہووہ اسے پوری طرح یا اس کا کچھ حصہ ضرور پالے گا ۔

آپ اطمینان اور یقین رکھیں کہ اگر چہ یہ غیبت سیاہ اور تاریک دورہے اورابھی  تک حضرت بقیة اللہ عجل اللہ تعالٰی الشریف کی ولایت کے ظاہر ہونے کا زمانہ نہیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت دائرہ امکان کے محور اور کائنات کے امیرہیں اور آپ کی ولایت مطلقہ نے ساری کائنات کو اپنے اندر احاطہ کیاہوا ہے ۔

ہم آنحضرت کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یٰا قُطْبَ الْعٰالَمِ۔

 اے عالم ہستی کے محور! آپ پر ہمارا سلام ہو۔

اس کائنات کی ہر شیٔ غیبت کے تاریک دور میں اسی طرح ظہور کے نورانی زمانے میں اس مقدس وجود کے نور کے زیر سایہ اپنی حیات کو جاری رکھے ہوئے ہے اورجاری رکھے گی اور حضرت کی امامت اور رہبری کی ممنون کرم ہے، اور نہ صرف اس عالم کے مادی  ذرات بلکہ جومسیحا نفس ہیں وہ بھی ان بزرگوار کے حکم کے تابع ہیں بلکہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دم مسیحائی بھی آنحضرت اور آپ کے آباء و  اجداد طاہرین علیہم السلام کے طفیل میں حاصل ہے اور صرف ظہور کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس وقت بھی آنحضرت کی امامت کے پرچم کے زیر سایہ  فرائض کو انجام دینے میں مشغول ہیں ۔

ہم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت میں پڑھتے ہیں :

اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا اِمٰامَ الْمَسِیْحِ ۔

اے مسیح !کے امام آپ پر سلام ہو ۔ 

یہ امامت و رہبری امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  کے ظہورکے پرشکوہ زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس وقت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے اس عظیم مقام کے باوجود آنحضرت کی امامت و رہبری کا اتباع اور ان کے نقش قدم پر گامزن ہونے پرافتخار کرتے ہیں ۔

تمام نجیب ونقیب افراد اور اولیائے خدا اتباع نفس سے دست بردار ہو گئے ہیں، ان کی پروردگار عالم کے نزدیک اتنی قدرو اہمیت ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں عالم ہستی کے نور کی نورایت کی طرف راہ یا دریچہ پالیا ہے اورامام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف انہیں برتر افراد کی موجودگی سے غیبت کی غربت و تنہائی کی تلافی کرتے ہیں۔

ہم روایت میں  پڑھتے ہیں:

ومابثلاثین من وحشة۔ [2]

 (حقیقی محبوں میں سے)تیس افراد کے ہونے کے بعد آنحضرت تنہائی محسوس نہیں کریں گے۔

 گزشتہ مطالب کے بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ نہیںہے کہ غیبت کے زمانے میں موجودات عالم سے حضرت بقیة اللہ ارواحنافدا ہ کی غیبی مدد کو اٹھالیا گیا ہے اور آنحضرت کسی کی دستگیری نہیں فرماتے اور نہ ہی غیبت کے سیاہ و تاریک دور میں کسی کو نور ونورانیت کا دریچہ ملتا ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیاکہ وہ افراد جوصداقت کے ساتھ آنحضرت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور امام کے معارف کے  بحر بیکراں سے مستفید ہونے کے لئے اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے پرشکوہ دور کے آنے کے لئے ایک ایک لمحہ شمار کر رہے ہیں، وہ حضرت کے پیغام یا ایک نگاہ کے ذریعہ اپنے قلب کو استوار سے استوار تر کر لیتے ہیں۔

جی ہاں !اس طرح کے افراد کسی حیلہ ومکر کی فکر میں نہیں ہیں اوروہ ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں ۔

«فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُویٰ»۔[3]

اپنے جوتے اتار دو اور دیکھو ابھی تک اپنے پائوں کو کس طرح تکلیف دی اوراس طرح امیر عالم ہستی اورعالم امکان کے محوو تک پہنچنے سے باز رہے ہیں !

افسوس! ہم میں سے بعض افراد نہ صرف حیلہ ومکر کوخودسے دور نہیں کرتے بلکہ دوسروں میں بھی یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں بھی اذیت دیتے ہیں اس طرح کے افراد نیش زبان سے اپنے دوستوں کے دل میںڈنگ مارتے ہیںکیونکہ شیطانی القائات کی بنا پر ہر ایک کو راہ راست سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔گویاوہ نہیں جانتے کہ آنحضرت کی راہ کی مخالفت، آنحضرت کے واقعی دوستوں سے دشمنی،آپ  سے دشمنی ہے۔

 کیا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں نہیں فرمایا ہے:

أَصْدِقٰاؤُکَ ثَلاثَة،وَأَعْدٰاؤُکَ ثَلاٰثَة؛

فَأَصْدِقٰاؤُکَ صَدِیْقُکَ،وَصَدِیْقُ صَدِیْقِکَ،وَ عَدُوّ عَدُوِّکَ،وَأَعْدٰاؤُکَ عَدُوِّکَ،وَعَدُوّ صَدِیْقِکَ،وَصَدِیْقِ عَدُوِّکَ۔ [4]

تمہارے تین دوست ہیں اور تین ہی دشمن ہیں ۔

تمہارے دوست یہ ہیں:

١۔خود تمہارے دوست                    ٢۔تمہارے دوست کے دوست                                 ٣۔تمہارے دشمن کا دشمن۔

اور تمہارے دشمن یہ ہیں: 

١۔خود تمہارا دشمن                   ٢۔ تمہارے دوست کے دشمن                    ٣۔تمہارے دشمن کا دوست۔

لہٰذا کیا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دوستوں سے دشمنی کرنا آنحضرت کی مخالفت نہیں ہے ؟!

اس گفتگو کو ترک کریں کیونکہ یہ سب کو اچھی نہیں لگے گی اس وقت ریگ اور ریگزار زیادہ ہیں اور تپتے ہوئے بیا بانوں میں ریگ گرم قابل شمار نہیں ہے اور قحط وخشک سالی نے اپناکریہہ چہرہ ہر ایک پر ظاہر کر دیا ہے اور بارش کی فکر نے ہر ایک کوپریشان کر رکھا ہے اور کچھ نماز استسقاء پڑھنے کے لئے چل پڑے ہیں ۔

لیکن آب رحمت کی غیبت کو سیکڑوں سال گذر چکے ہیں اور لوگ اس کے مادّی و معنوی فائدے سے محروم ہیں لیکن وہاں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ بارش کی فکر میں ہیں جب کہ بارش آنحضرت کے وجود بابرکت کی بنا پر ہوتی ہے ۔

کیا ہم زیارت جامعہ میں نہیں پڑھتے ہیں:

بکم ینزّل الغیث۔

آپ کے وسیلہ ہی سے باران رحمت برستیہے۔

لیکن ہم ایسے ہی تھے اور ایسے ہی ہیں کہ ہم اصل کو بھلا دیتے ہیں اور فرع کی تلاش میں رہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہم مسبب الاسباب کو فراموش کردیتے ہیں اور اسباب کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔

 


[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ، ص ۳۰۵

[2] ۔ بحار الأنوار :ج۵۲، ص ۱۵۳

[3] ۔ سورۂ طہ،آیت:١٢

[4] ۔ نہج البلاغہ،حکمت:٢٩٥

    ملاحظہ کریں : 205
    آج کے وزٹر : 29199
    کل کے وزٹر : 68799
    تمام وزٹر کی تعداد : 130088881
    تمام وزٹر کی تعداد : 90224620