حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عبادت میں نشاط

عبادت میں نشاط

اگر آپ عبادت کے جذبہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خود سے جبر و کراہت کی حالت کو دور کریں اور ذوق و شوق  اور باطنی نشاط سے عبادت انجام دیں تا کہ آپ اس کے انمول آثار درک کر سکیں اور خود کو شیاطین کے تسلط سے نجات دلا سکیں۔

حضرت پیغمبر اکرمۖ کا ارشاد ہے:

''اَفْضَلُ النّٰاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبٰادَةَ فَعٰانَقَھٰا وَ اَحَبَّھٰا بِقَلْبِہِ ،وَ بٰاشَرَھٰا بِجَسَدِہِ وَ تَفَرَّغْ لَھٰا ،فَھُوَ لاٰیُبٰالِْ عَلٰی مٰا اَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیٰا عَلٰی عُسْرٍأَمْ عَلٰی یُسْرٍ''([1])

افضل ترین لوگ وہ ہیں جو بندگی و عبادت کے عاشق ہوں اور اسے آغوش میں لے لیں اور دل و جان سے اس سے محبت کریں اور جسمی اعتبار سے عبادت میں مشغول ہوں اور فکری لحاظ سے راحت اورآرام سے عبات کریں ۔پھر اسے اس چیزکی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ دنیا میں کس طرح صبح کی ،سختی یا راحت و آرام سے۔

اس بناء پر عبادت کے خالصانہ ہونے کے علاوہ  عبادت کے اثرات کے اہم

شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ شیطان و نفس، انسان کی عبادت کے لئے محرک نہ ہوں ورنہ عبادت ریا ،دکھاوا ،غرور اور اس جیسی دوسری چیزوں کی صورت میں انجام دی جائے گی۔انسان کوچاہئے کہ وہ خود کو اس طرح سے بنائے کہ اس کا نفس اس کی عقل کا تابع ہو اور جب وہ مخلصانہ طور پر عبادت کے لئے کھڑا ہو تو اس کا نفس اس کی عقل کے تابع ہو اور اصلاح نفس کی وجہ سے نفس بھی عقل کے تابع ہونا چاہئے اور ذوق و شوق اور مخلصانہ طور پر عبادت انجام دی جائے۔

اس بناء پر تہذیب و اصلاح نفس اہم شرائط میں سے ہے کہ جو عبادت میں اہم کردار کا حامل ہے۔کیونکہ اگر انسان عقل کے حکم پر عبادت انجام دے لیکن اپنے نفس کو اپنی عقل کا مطیع نہ بنا سکے تو اس کا نفس اس کے وجود میں فعالت انجام دینا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ عبادت کو بے نتیجہ طور پر دکھاتا ہے اور اسے عبادت انجام دینے سے ہی روک دیتاہے ۔ اسی طرح کچھ دوسرے موانع مثلاً اس کے د ل میں وسوسہ پیدا کر دیتاہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان جوعبادت انجام دیتا ہے اسے اس سے کوئی روحانی لذت نہیں ملتی ۔

قرآن کریم کی آیات کے مطابق عبادت خداوند کا صراط مستقیم ہے ،انسان اس طریقے سے عبودیت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور جو مقام عبودیت تک پہنچ جائے  اس پر شیطان مسلط نہیں ہو سکتا  اور جو عبادت سے بغض و دشمنی رکھتے ہوئے مجبوراً اسے انجام دے ،وہ نہ  صرف شیطان کے تسلط سے رہائی حاصل نہیں کر سکتے بلکہ ان کا نفس شیطان کے وسوسوں سے اور زیادہ مہلک و خطرناک ہو جاتا ہے اور یوں وہ شیطان کے نفوذ کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔

جس عبادت میں انسان اپنے نفس کو اپنی عقل کاتابع قرار نہ دے سکے اور خود سازی سے عبادت انجام نہ دے، اس عبادت کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے عبادت کا نتیجہ یعنی شیطان کے تسلط سے رہائی نہیں ملتی۔

اس بناء پر ہر عبادت کو انجام دینے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے اور صلاحیت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہئے ۔یہ واضح سی بات ہے کہ جو سخت عبادات اور شرعی ریاضتیں انجام دیتے ہیں لیکن وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے ،وہ ایسے اعمال انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔انہیں چاہئے کہ وہ آمادگی کو ایجاد کرنے لے لئے اپنے دل میں عبادت کی محبت کو ایجاد کریں۔

پس سخت اور بعض کے بقول شرعی ریاضتوں کو انجام دینے کے لئے روحانی و نفسانی طور پر تیار ہونا اور اس کی صلاحیت ان کی حتمی شرائط میں سے ہے۔

یہ کتنا نیک ، پسندیدہ بلکہ ضروری عمل ہے کہ انسان ہر کام اور بالخصوص عبادی امور کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی رکھتا ہو اور انہیں معصوم ہستیوں کے بتائے گئے طریقے کے مطابق خدا کی عبادت انجام دے تا کہ مصیبتوں سے محفوظ رہے۔

گرچہ راہی است پر ازبیم ز ما تا برِ دوست

رفتن آسان بود ، ار واقف منزل باشی

عبادات کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام کی پیروی کے لئے عبادت کی شرائط کو جاننا ضروری ہے اور اسی طرح عبادات کی قبولیت کے موانع جیسے حرام خوری ، سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۵۳، اصول کافی: ج۳ص۷۳

 

 

    ملاحظہ کریں : 2138
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 78867
    تمام وزٹر کی تعداد : 136102584
    تمام وزٹر کی تعداد : 93901470