حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عبادت میں کراہت

عبادت میں کراہت

عبادت کی کیفیت کے بارے میں خاندان وحی علیھم السلام کی رہنمائی اور اس کی باطنی و قلبی جہات کی طرف توجہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوں اور ان کے آثار و اثرات کو درک کریں ۔ان کو انجام دینے سے انسان میں تبدیلی ایجاد ہو  ورنہ  اگر عبادت کا کوئی اثر نہ ہو اور یہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے راستہ سے دور ہو تو اس عبادت کا کیا فائدہ ہے؟کیا ایسی عبادتوں کا زحمت، تکلیف اور رنج کے سوا کوئی اور فائدہ ہے؟!

اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: 

''اِیّٰاکُمْ وَ الْجُھّٰالِ مِنَ الْمُتَعَبِّدِیْنَ وَالْفُجّٰارِ مِنَ الْعُلْمٰائِ فَاِنَّھُمْ فِتْنَةُ کُلِّ مَفْتُوْن''([1]) 

عبادت کرنے والے جاہل افراد سے پرہیز کرو  اور بے عمل و فاجر علماء سے درو رہو کیونکہ یہ ہر دلباختہ شخص کے لئے فتنہ ہیں۔

کبھی ایسے افراد کی اصل عبادت صحیح نہیں  ہوتی اور یہ لوگ غیر عبادت کو عبادت کے طور پر قبول کرکے انجام دیتے ہیں۔کبھی ان کا عمل شریعت میں وارد ہوتا ہے ،لیکن وہ اسے انجام دیتے وقت بندگی و عبادت کی حالت کے بجائے جبراً اور مجبوری کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی وہ خود کو کامل اور ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔

ایسی عبادت کبھی دوسرے لوگوں کی بددلی کا باعث بنتی ہے حالانکہ عبادت سے انسان کے دل میں نشاط و فرحت کی حالت پیداہونی چاہئے نہ کہ کراہت و نفرت ۔  ایسی عبادات کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔

اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تَکْرَھُوا اِلٰی اَنْفُسِکُمْ اَلْعِبٰادَةَ''([2])

اپنے نفسوں کو عبادت کے لئے مجبور نہ کرو۔

بلکہ رغبت اور شوق سے عبادت انجام دوتا کہ عبادت کے انمول آثار آپ کے وجود میںپیدا ہو سکیں۔

شاید بعض لوگ یہ کہیں:اس صورت میںتو بہت سے عبادت کرنے والوں کو اپنی عبادت ترک کردینی چاہئے کیونکہ عبادت کے وقت نہ  تو ان میں خشوع و خضوع اور توجہ کی حالت ہوتی ہے بلکہ وہ مجبوراً عبادت انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کا نفس عبادت کو انجام دینے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

ان سے ہم یہ کہتے ہیں:ایسا طرز تفکر مکتب اہلبیت علیھم السلام سے صحیح طور پر آشنا نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔خاندان نبوت علیھم السلام کے ارشادات پر غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ خدا نے انسان میں جو منفی حالات اور صفات پیدا کی ہیں جیسے حسد،کینہ،کراہت وغیر ہ۔ان سب کو خدا کے دشمنوں سے استفادہ کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔لہذا انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ(جو ایک منفی صفت ہے) دیتا پھرے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو فریب دے  اور پھر تلقین اور نرم زبان سے کراہت کی حالت کو ختم کرے اور خود کو عبادت کی طرف مائل کرے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''خٰادِعْ نَفْسَکَ فِ الْعِبٰادَةِ وَارْفِقْ بِھٰا وَلاٰ تَقْھَرْھٰا''([3])

عبادت میں اپنے نفس کو فریب دو اور اس کے ساتھ دوستی کرو اور اسے (عبادت کے لئے )مجبور نہ کرو۔

 

اس بناء پر جوکوئی بھی عبادت  کو مجبوری سے انجام دیتا ہو اسے چاہئے کہ وہ عبادت کو ترک کرنے کے بجائے اپنے نفس سے کراہت کی حالت کو برطرف کرے نہ کہ اپنی عبادت کو ہی چھوڑ دے۔کیونکہ عبادت ذوق و شوق اور فرحت و نشاط سے انجام دینی چاہئے نہ کہ مجبوری اور کراہت سے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''لاٰ تُبَغِّضْ اِلٰی نَفْسِکَ عِبٰادَةَ رَبِّکَ''([4]) 

اپنے نفس کو خدا کی عبادت کا دشمن قرار نہ دو۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۰٦

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۳،اصول کافی:ج۲ص۸٦

[3]۔ بحار الانوار:ج۳۳ص۵۰۹،نہج البلاغہ ،مکتوب:٦٩

[4] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۴،اصول کافی:ج۲ص۷۸

 

 

    ملاحظہ کریں : 2134
    آج کے وزٹر : 21556
    کل کے وزٹر : 112715
    تمام وزٹر کی تعداد : 134680977
    تمام وزٹر کی تعداد : 93118360