حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: 

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْھٰا''([1])

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

 

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔

اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے ۔میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے ۔

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔([2])

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے۔

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

[2] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

 

    ملاحظہ کریں : 2293
    آج کے وزٹر : 24332
    کل کے وزٹر : 112715
    تمام وزٹر کی تعداد : 134686518
    تمام وزٹر کی تعداد : 93123910