حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عظمت

اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں

امام زمانہ عجل اللہ  تعالیٰ فرجہ الشریف کی عظمت

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عظمت سے واقفیت انتظار کی راہ پر چلنے کابہت ہی مؤثر ذریعہ ہے لہذاہم اس کے متعلق وضاحت کر رہے ہیں :

 اہل بیت علیہم السلام سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی شخصیت و عظمت کے متعلق وارد ہونے والی روایات  اس قدر اہم اور لرزا دینے والی ہیں جن سے آدمی سکتہ میں آجاتاہے!

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ روح کی گہرائی پراثر انداز ہونے والے ان تمام کلمات کے باوجود ہمارے معاشرے نے ’’طاؤوس بہشت‘‘کی بجائے زاغ و زغن کو دل سے لگالیا ہے؟

اتنی غفلت کیوں ؟اور یہ سب فراموشی کس وجہ سے ہے؟

کیا علماء اوربزرگان دین نے اس راہ میں کوئی شائستہ کام انجام دیا ہے ؟

کیا خود کوآنحضرت  سے وابستہ سمجھنے والے صاحبان قدرت اور حکام نے آپ کے لئے کو ئی خدمت انجام دی ہے؟

کیاشیعہ ثروتمندوں اور قوت رکھنے والوں نے دین کے اس بنیادی اور حیاتی ترین عمل کے لئے کوئی کوشش کی ہے ؟

کیا لوگوں نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی دردناک حالت تبدیل کی ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ عوام کا ہر گروہ اس غفلت میں کم و پیش شریک رہا ہے (اگرچہ  علماء اور غیر علماء میں سے کچھ ایسے افراد تھے اور ہیں کہ جنہوں نے اپنی توفیق اور توانائی کے مطابق دینی احکامات کودل وجان سے زندہ رکھنے کی کوشش کی)خیر اس موضو ع سے قطع نظر کرتے ہیں کیونکہ حقیقت تلخ ہے جو خود پسندوں کے دل کو تکلیف پہنچائے گی۔

اب ہم خاندان وحی علیہم السلام کے کچھ فرمودات کو پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ انہوں نے آخری حجت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  کو کن الفاظ سے یاد کیا ہے؟اور لوگوں کو آنحضرت کی طرف متوجہ کرنے کی کس طرح کوشش کی ہے ؟

کس طرح لوگوں کو آنحضرت  کے احترام کا درس دیا ہے ؟

١۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

میرے ماں باپ ان پر قربان ! وہ میرے ہم نام اور میری شبیہ ہیں۔

 اس کلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے افسوسناک زمانے کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

''...سَیَکُوْنُ بَعْدِی فِتْنَة صَمّاء صَیْلَم یَسْقُطُ فِیْہٰا کُلُّ وَلِیْجَة وَبَطانة، وَذٰلِکَ عِنْدَ فُقْدٰان شِیْعَتکَ الْخٰامس مِنَ السّابع مِنْ وُلْدِکَ، یَحْزُنُ لِفَقْدِہِ أَھلُ الْأَرْضِ وَالسَّمٰاءِ، فَکَمْ مُؤْمِن وَمُؤْمِنَة مُتَأَسّف مُتَلھّف حیران عِنْدَ فَقْدہ۔

ثمّ أطرق ملیّاً ثمّ رفع رأسہ وقال:

بِأَبِی وَأُمِّی سَمّی وَشَبیہی وَشَبیہِ مُوسی بن عمران عَلَیہ جلابیب النُّور یَتَوَقّد مِنْ شُعاعِ الْقُدْسِ.[1]

میرے بعد ایسا فتنہ پیدا ہوگا کہ جو لوگوں کو بہرا کردے گااوریہ بہت ہی سخت مرحلہ  ہوگا اس میں ہر برگزیدہ اور رازدار شخص گرپڑے گا اور یہ وہ وقت ہوگا جب تمہارے شیعہ تمہارے فرزندوں میں ساتویں امام کی اولاد میں پانچویں کو گم کر دیں گے اور ان کے غائب ہونے سے اہل آسمان وزمین غمگین ہوں گے، بہت سے باایمان مرد اور خواتین ایسے ہوں گے  جو ان کی غیبت کے وقت محزون اور غمزدہ ہوں گے ۔

اس کے بعد آنحضرت نے آہستہ سے اپنا سر جھکا لیا اور پھرسراٹھاکر فرمایا :

میرے ماں باپ ان پر قربان!

وہ میرے ہم نام ہیں اور میری اور موسیٰ بن عمران کی شبیہ ہیں۔ ان پر نورکے پیراہن ہیں جو شعاع قدس سے جلاء حاصل کرتے ہیں ۔

٢۔ امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا :

میری جان ان پر قربان!

علامہ مجلسی نے اس کلام کی نسبت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف دی ہے اور فرمایاہے:

امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام سے منسوب شعری دیوان میں آپ نے فرمایا :

فَثَمَّ یَقوم القٰائِم الحَقّ مِنْکُم                     وَبِالْحَقِّ یَاْتِیْکُمْ وَبِالْحَقِّ یَعْمَل

سَمِّی  نَبِّی  اللّٰہ  نَفْسِ  فِدٰاؤُہ                      فَلا تَخْذُلُوْہ  یا بُنَیّ  وَ   عَجِّلوا١[2]

پس اس وقت (ناشائستہ حکومتوں کے بعد)تم میں سے حق کو قائم کرنے والا قیام کرے گا اور تمہارے لئے حق کوفراہم کرے گا اور اس پر عمل کرے گا ۔

وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم نام ہے ہماری جان اس پر قربان! پس اے میرے بیٹو!اس کی مدد کو ترک نہ کرنا اور اس کی نصرت میں عجلت کرنا ۔

٣۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام:

میرے پدر اس بہترین کنیز کے فرزند پر قربان جائیں ۔٢[3]

اولین مظلوم عالم امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے جسمانی اوصاف کو بیان کرنے کے بعد ایک جملہ کے ذریعہ اپنے عظیم قلبی اشتیاق کا اظہار فرمایا ہے ، جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔

 اس روایت کو جابر جعفی نے نقل کیا ہے جوحضرت امام محمد باقر علیہ السلام  اور حضرت امام صادق علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے۔

 اس روایت میں حضرت امیر المؤ منین علیہ السلام نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نیک جسمانی صفات بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور آنحضرت کے معنوی خصائل اور ملکوتی قدرت کو بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ ایسے شخص سے گفتگوکر رہے تھے جو عالم خلقت میں تمام تباہی و فسادکی جڑ اور بنیادی علت ہے ۔

اب اس روایت پر توجہ کریں :

جناب جابر جعفی کہتے ہیں: ہم نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا :

ساير عمر بن الخطّاب اميرالمؤمنين‏ عليه السلام فقال: أخبرني عن المهديّ ما اسمه؟

 فقال : أمّا اسمه فإنّ حبيبي عهد إليّ أن لا احدّث باسمه حتّى يبعثه اللَّه،قال: فأخبرني عن صفته .

 قال:هو شابٌّ مربوع حسن الوجه حسن الشعر ، يسيل شعره على منكبيه ، و نور وجهه يعلو سواد لحيته ورأسه ، بأبي ابن خيرة الإمآء .[4]

ٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰ عمر بن خطاب ، امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے ساتھ چل رہا تھا۔

آپ سے عرض کیا: مجھے مہدی کے بارے میں خبر دیجئے، ان کا نام کیا ہے ؟

حضرت نے فرمایا :لیکن میرے حبیب نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ ان کا نام کسی کونہ بتاؤں ،یہاں تک کہ پروردگارعالم انہیں مبعوث کرے ۔

اس نے عرض کیا :پس مجھے ان کی صفت کے بارے میں بتائیے؟

حضرت نے فرمایا :وہ ایساجوان ہے کہ چہار شانہ خوشرو حسین ہے، ان کے بال خوبصورت اور ان کے بال شانوں پر بکھرے ہوں گے اور ان کے چہرے کا نور ان کے بال اور داڑھی کی سیاہی پرظاہرہوگا،پس اس بہترین کنیز کے فرزند پرمیرے باپ قربان ہو جائیں!

٤۔حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام :

میرے پدراس بہترین کنیز کے فرزند پر قربان جائیں!

اس کلام کو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے پھر دہرایا ہے اور حارث ہمدانی نے اسے امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے ۔

آنحضرت نے اس روایت میں شمشیر انتقام ( جوحضرت بقیة اللہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دست قدرت میں ہو گی)سے ظالموں کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے :

وہ ،وہ ہیں کہ جو دنیا کے تمام ظالموں اورستمگروں کے حلق میں زہر کا کڑوا جام انڈیلیں گے۔

 اب آنحضرت کے اس کلام پر غور کریں کہ جو غمزدہ  لوگوں کے دلوں کو شاد کردیتا ہے:

بأبي ابن خيرة الإماء - يعني القائم من ولده عليه السلام - يسومهم خسفاً،ويسقيهم بكأس مصبرة،ولايعطيهم إلّا السيف هرجاً .[5]

بہترین کنیز کے فرزند پرمیرے پدرقربان جائیں!

یعنی حضرت قائم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، جو آنحضرت کی اولاد سے ہیں، وہ انہیں ذلیل وخوار کریں گے اور وہ ظرف جو صبر(بہت ہی کڑوی دو ا) سے بھراہوگا ان (ستمگروں ) کو پلائیں گے اور انہیں فتنہ و آشوب کی شمشیر کے سوا کوئی چیز عطا نہیں کریں گے ۔

ہاں !یہ وہ دن ہے کہ جب سقیفہ میں بیٹھنے والوں اور ان کے وارثوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگا اور وہ سب زہر کا تلخ جام پیئیں گے ۔

٥۔حضرت امیرالمومنین علیہ السلام :

میرے پدر بہترین کنیز کے فرزندپر قربان جائیں !

حضرت علی علیہ السلام نے یہ جملہ ایک مرتبہ اور اپنے خطبہ میں ارشادفرمایا :

فانظروا أهل بيت نبيّكم فإن لبدوا فالبدوا و إن استنصروكم فانصروهم ، ليخرجنّ اللَّه برجل منّا أهل البيت ، بأبي ابن خيرة الإماء لايعطيهم إلّا السيف هرجاً هرجاً موضوعاً على عاتقه ثمانية .[6]

اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف دیکھو! اگر وہ چین سے بیٹھ جائیں تو تم بھی چین سے بیٹھ جائو اور اگر تمہیں مدد کے لئے بلائیں تو ان کی مدد کرو۔ یقینا پرور دگار عالم ہم اہل بیت علیہم السلام سے ایک شخص کوپیدا کرے گا ۔

’’بہترین کنیز کے فرزند پر میرے باپ قربان جائیں !‘‘انہیں سوائے شمشیر کے کچھ نہ دیں گے ، کیا معرکہ ہوگا ! کیا آشوب ہوگا!آٹھ مہینے اپنے دوش پر شمشیر رکھیں گے ۔

اس خطبہ میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام دنیا کی اصلاح، دنیا سے ستمگروں اور ظالموں کی نابودی کی خوشخبری د ے رہے ہیں اور فرماتے ہیں آٹھ مہینے اس زمین پر ستمگروں سے جنگ ہو گی اورپھر پورے عالم میں صلح و محبت کی حکمرانی ہو گی ۔

٦۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام :

آہ!  میں کس درجہ ان کے دیدار کا مشتاق ہوں۔

 حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے یہ کلام حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نیک خصائل کو یاد کرنے اور فتنہ و فساد کے تذکرہ کے بعد فرمایا:

هاه - وأومأ بيده إلى صدره - شوقاً إلى رؤيته.[7]

آہ ! (اور پھراپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا )ہم کس حد تک ان کی زیارت کے مشتاق ہیں۔

کیونکہ آنحضرت کو اپنے وسیع علم کی بنا پر معلوم تھا کہ سقیفہ میں جمع ہونے والوں نے فتنہ کاجو بیج بویا تھاوہ فتنہ ایسے ہی جاری رہے گا، اس کی آگ طویلعرصہ تک پورے عالم کواپنی لپیٹ میں لئے رہے گی،یہ تاریکی و بدبختی دنیا کے تمام لوگوں کا احاطہ کرلے گی اور یہ ظلم و ستم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک منتقم آل محمد امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اپنے ان ٣١٣ساتھیوں کے ساتھ قیام نہ کریں گے جنہوں نے تہذیب واصلاح نفس کے ساتھ امر ولایت کو اپنی روح میں بسا رکھا ہے اوروہ ظالموں سے دنیا کے تمام مظلوموں کا بدلہ لیں گے۔

اگر سقیفہ کے تاریک ایام میں اپنی جان کی بازی لگانے والے مددگارکائنات کے سب سے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ ہوتے تو دشمن خانہ وحی کو آگ نہیں لگا سکتے تھے۔ عالم ہستی کے امیر کے گلے میں رسی نہیں ڈال سکتے تھے اور ماہ عالم کے چہرے کو نیلا نہیں کرسکتے تھے ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :

'' فَنَظَرْتُ فَاِذٰا لَیْسَ لِي مُعین اِلاّٰ أَھْل بَیْتي فَضَنَنْتُ بِھِمْ عَنِ الْمَوْت، وَأَغْضَیْتُ عَلی الْقَذی، وَشَرِبْتُ عَلی الشَّجیٰ، وَصَبَرْتُ عَلی أَخْذِ الْکَظْمِ، وَعَلی أَمرّ مِن طَعْمِ الْعَلْقَمْ.[8]

(جب مخالفین نے خلافت کو غصب کر لیاجو کہ ہمارا حق تھاتو اپنے امر اور کام میں) میں نے فکر کی تودیکھا کہ میرے اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی میرا مددگار نہیں ہے ۔میں اس پر راضی نہیں ہوا کہ وہ قتل ہوں اور وہ آنکھ جس میں تنکا چلاگیا تھا اسے بند کرلیا ، جب کہ میرے گلے کی ہڈی کو جکڑ رکھا تھا لیکن میں نے وہ جام تلخ پی لیا (شدید غم واندوہ کی وجہ سے)سانس لینا مشکل تھا (جام تلخ)کے ذائقہ سے بھی زیادہ کڑوی چیزوںپر ہم نے صبر کیا ۔

جی ہاں !اس کائنات کی مظلوم ترین ذات خود پر ہونے والے مظالم کو بیان کرنے کے بعد مستقبل میں ہونے والے فتنوں کو بیان کرتی ہے اورتمام ظلم و ستم ختم کرنے والے  کے نام کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہے۔

آہ !میں اس کے دیدارکا کس قدر مشتاق ہوں ۔

٧۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

اگر میں اس زمانہ میں رہا تو اپنی جان اس صاحب امرسے مخصوص کر دوں گا ۔

یہ کلام ان سے صادر ہواہے جنہوں نے سارے عالم میں علم و حکمت کی گرہ کشائی کی اور جو کائنات کی خلقت کے تمام اسرار سے واقف ہیں ،وہ ذات جس کے لئے مستقبل اور مستقبل میں آنے والے ،ماضی اور ماضی میں رہنے والے سب ایسے  ہی ہیں جیسے آپ کے سامنے حاضرہوں ۔

آنحضرت نے جب مستقبل اور مستقبل میں آنے والوں کا تذکرہ کیاتوحضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور سے پہلے ہونے والے قیام کے متعلق یوں بیان فرمایا :

''...اَما اِنِّي لَوْأدرکتُ ذٰلِکَ لاَ سْتَبقَیت نَفْسِي لِصاحِب ھٰذا الأَمر.[9]

آگاہ رہو! اگر میں اس زمانہ میں رہا تو اپنی جان کو اس صاحب امر سے مخصوص کر دوں گا۔

 مرحوم آیت اللہ شیخ محمد جواد خراسانی اپنی کتاب میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے کلام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس زمانے سے آنحضرت کا مقصود وہ زمانہ ہے ، جب’’شیلا‘‘سے ایک گروہ حق کے حصول کے لئے قیام کرے گا ۔

٨۔امام محمدباقر علیہ السلام :

میرے ماں باپ اس پر قربان جائیں!وہ میرے ہم نام ہیں اور ان کی کنیت میری کنیت ہے۔

میرے باپ اس پر قربان! جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح  بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی ۔

اس روایت کو ابو حمزہ ثمالی   نے نقل کیا ہے جو حضرت کے بزرگ اصحاب میں سے ہیں، وہ کہتے ہیں: ایک دن میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا جب لوگ آنحضرت سے رخصت ہو کر چلے گئے تو مجھ سے فرمایا :

یٰاأبا حَمْزَة، مِنَ الْمَحتوم الّذي حَتَمہ اللّٰہ قیام قائمنا، فمَن شَکَّ فیما أَقول لَقی اللّٰہ وھوبہ کافر.

 ثمّ قال:بأبي واُمّي المُسَمّٰی بِاِسمي وَالْمُکَنّٰی بِکُنْیتِي،السابع مِن وُلدي،بأبي مَن یَمْلأ الأرْضَ عَدلاً  وَقِسطاًکَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً.

یاأباحَمْزَة، مَنْ أَدْرَکہ فَیسلّم لہ ما سَلَّم لِمُحمّد وَعَلّ فَقَد وَجَبت لَہ الجَنّة، ومَن لَم یُسَلّم فَقَد حَرَّم اللّٰہ عَلَیْہ الجَنّة وَمٰأوٰاہ النّٰار وَبِئْس مَثْوَی الظّٰالِمِیْن.[10]

اے ابوحمزہ !جن چیزوں کوپروردگار عالم نے حتمی قرا ردیا ہے ان میں سے ایک ہمارے قائم کا قیام ہے اور ہم نے جو کچھ کہا اگر اس میں کوئی شک کرے تو وہ کفر کی حالت میں پروردگار عالم سے ملاقات کرے گا۔

پھر فرمایا :ہمارے ماں باپ ان پر قربان !ان کا نام میرے نام پر ہے اور ان کی کنیت میری کنیت پر رکھی گئی ہے وہ میری اولاد(نسل) میں سے ساتواں ہے ۔

میر ے باپ ان پر قربان!جو پوری زمین کو  عدل و  انصاف سے اسی طرح  بھر دے گاجس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہو گی۔

اے ابو حمزہ! جو بھی ان کے زمانے میں ہو بالکل اسی طرح ان کے حکم کے سامنے تسلیم ہو جائے جیسے محمد ۖ اورعلی علیہ السلام کی بارگاہ میں تسلیم تھا تو اس پر جنت واجب ہے اور جو ان کے حکم کے سامنے تسلیم نہ ہوتوپروردگار عالم اس پرجنت حرام کردے گااو راس کا ٹھکانہ آتش(جہنم) ہو گا جو ظالموںکے لئے بدترین ٹھکانہ ہے۔

٩۔امام صادق علیہ السلام :

اگرمیں ان(امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کے زمانہ میں ہوا تو جب تک زندہ رہا ان کی خدمت کرتا رہوں گا۔

  امام صادق علیہ السلام نے یہ کلام تب ارشاد فرمایاجب آپ سے حضرت بقیة اللہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے متعلق سوال کیا گیا:

ھَلْ وُلِد القائم؟

قال:لا، وَلَو أَدْرَکْتُہ لَخَدمْتُہ أَیّامَ حَیاتِي.[11]

 کیا حضرت قائم کی ولادت ہو گئی ہے ؟

آپ نے فرمایا :نہیں ۔اگر میں انہیں درک کر لوں تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت کروں گا۔

 

١٠۔امام صادق علیہ السلام:

  میں نے نور آل محمدعلیہم السلام کے لئے دعا کی ۔

عباد بن محمد مدائنی کہتے ہیں :امام صادق علیہ السلام نے ظہر کی نمازکے بعد دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور دعا فرمائی۔

 ہم نے کہا :ہماری جان آپ پر قربان ہو !آپ نے اپنے لئے دعا کی ؟ 

فرمایا :

دَعَوْتُ لِنُور آل مُحَمّدعلیہم السلام وَسٰائِقِھِمْ وَالْمُنْتَقم بِأَمْرِاللّٰہِ مِنْ أَعْدٰائِھم.[12]

میں نے نور آل محمد علیہم السلام کے لئے دعا کی جو غائب ہے اورجوخدا کے حکم پر ان کے دشمنوں سے انتقام لے گا۔

البتہ خاندان وحی علیہم السلام کے تمام ائمہ نور ہیں اور ان کی معرفت، معرفت خدا کی نورانیت کی طرح  ہے لیکن اس روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے بیان کے مطابق آنحضرت نور الأنوار ہیں۔

١١۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام :

میرے والد اس پر قربان جائیں! جس پر خدا کی راہ میں ملامت کرنے والوں کی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی۔

 میرے والد اس پر قربان جائیں!جو خدا کے حکم سے قیام کرے گا ۔

یحییٰ بن فضل نوفلی کا بیان ہے :

حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام نے عصر کی نمازکے بعد اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرکے ایک دعا پڑھی۔

 ہم نے آنحضرت سے عرض کیا :آپ نے کس کے لئے دعا فرمائی؟

قال: ذلِک المَہدّي من آلِ مُحَمّد علیھم السلام۔

قال:بِأَبِي المُنبدح البَطن،المَقْرون الحاجِبَیْن،أَحْمَش الساقَیْن، بَعید مابَیْنَ المنکَبین،أَسْمَراللَّون، یعتادہ مَع سمرتہ صفرة من سھر اللیل،بِأَب مَن لَیْلہ یرعی النُّجُوم ساجداً وراکِعاً، بِأَبي مَنْ لا یَأْخُذْھ ف اللّٰہ لَوْمَة لائِم، مِصْباح الدُّجیٰ، بِأَبي القائم بِأَمرِ اللّٰہ.[13]١

حضرت نے فرمایا : مہدی آل محمدعلیہم السلام کے لئے۔

پھرفرمایا:میرے والد اس وجود پر قربان جائیں! جس کی ابرو ملی ہوئی ہیں، پنڈلیاں پتلی ہیں، چارشانہ قوی ہیکل اور گندم گوں ہے اور تہجد وشب زندہ داری کی وجہ سے اس کا رنگ زرد ہے۔

میرے والد اس پر قربان! جو راتوں کوسجدہ ورکوع کی حالت میں ستاروں کے غروب ہونے کا انتظار کرتا ہے ۔

میرے والد اس پر قربان! جو خدا کے حکم سے قیام کرے گا ۔

 ١٢۔حضرت امام رضاعلیہ السلام :

میرے ماں باپ ان پر قربان! جوہمارے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمنام ہیں،جومیری اور حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے شبیہ ہیں۔

 حضرت امام رضا علیہ السلام نے یہ کلام امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانہ میں برپا ہونے والے شدید فتنہ کو ذکر کرنے کے بعدارشاد فرمایا :

یہ فتنے اس حد تک شدید اور تباہی پھیلانے والے ہیں کہ نہایت ہوشیار اورچالاک افراد کو بھی اپنے جال میں گرفتار کر لیں گے ۔

اگرچہ وہ دین اور دینداری کے دعویٰ دار ہیں لیکن ان کی گمراہی کی وجہ سے غربت و تنہائی اس طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو گھیر لے گی کہ آسمان و زمین اور ہر آگاہ اور درد دل رکھنے والا انسان آنحضرت کے لئے گریہ کرے گا ۔

اب حضرت امام رضا علیہ السلام کے کلام پر توجہ فرمائیں :

''لابدّ مِنْ فِتْنة صَمّاء  صَیْلَم یَسْقُط فیہا کُلّ بطانة وَ وَلِیْجَة، وذلکَ عِنْد فُقْدان الشّیعة الثالث مِن وُلدي،یبکي عَلَیْہ أَھل السماء و أَھل الأرض،وَکُلّ حرّ وَحَرّان وَکُلّ حَزین وَلَھْفان۔

 ثمّ قال علیہ السلام:بِأَبي وَأُمِّي سمِّي جَدّي  وَشَبیہ وشَبیہ مُوسَی بن عِمْران علیہ السلام، عَلَیہ جُیوب النّور یَتَوَقّد مِن شُعاع ضِیاء القُدْس.[14]١

 نہایت ہی سخت اور سنگین فتنہ ضرور واقع ہوگا ،جس میں ہر رازدار اور منتخب فرد گر پڑے گا اور یہ اس وقت ہوگا کہ جب شیعہ ہمارے فرزندوں میں تیسرے فرزند کو کھودیں گے، اس پر اہل آسمان وزمین گریہ کریں گے اور تلاش و جستجومیں رہنے والا ہر مرد و عورت اور ہر غمگین و حسرت زدہ شخص اس پر گریہ کرے گا۔

پھر فرمایا :ہمارے ماں باپ اس پر قربان! جو ہمارے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا ہمنام اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی شبیہ ہے اس پر نورانی پیراہن ہے کہ جوقدس کی شعاعوں سے ضیاء  حاصل کرتا ہے ۔[15]١

 امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آنحضرت خراسان میں اپنی ایک نشست میں لفظ ’’قائم ‘‘کے ذکر کے وقت خود کھڑے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھے اور کہا:

’’أللّٰھمّ عَجِّلْ فرجہ و سَہِّل مخرجہ‘‘

 اور پھرلوگوں سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی حکومت کی خصوصیات بیان فرمائیں۔

مرحوم محدث نوری کتاب ’’نجم الثاقب‘‘ میں فرماتے ہیں:حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا نام اوربالخصوص آنحضرت کا مخصوص لقب سننے کے بعد لوگوں کا تعظیم میں کھڑے ہو جانا تمام ممالک میں سارے شیعوں کی روش و سیرت ہے۔عرب، عجم، ترک، ہند،دیلم حتیٰ اہل سنت بھی اس سیرت حسنہ پر عمل کرتے ہیں ۔[16]

مرحوم علامہ امینی’’الغدیر ‘‘میں لکھتے ہیں :

روایت ہوئی ہے کہ جب دعبل نے امام رضا علیہ السلام کے لئے قصیدہ پڑھا اور حضرت حجت  عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو یاد کیا :

فلولا الّذي أرجوہ في الیوم أو غدٍ                        تقطّع نفس اثرھم حسراتي

خروج  اِمام لا  محالة    خارج                          یقوم علی اسم اللّٰہ والبرکاتِ

جس کی مجھے آج یا کل امید ہے اگر وہ نہ ہوتا تو میرا نفس حسرت کی وجہ سے قطع ہو جاتا۔

اور وہ امام کا خروج ہے کہ جو ضرور خروج کرے گا اور پروردگار کے نام اور خدا کی برکتوں سے قیام کرے گا۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سر پر رکھ کر تعظیم فرمائی اور ساتھ ہی آنحضرت کے ظہورکے لئے دعا فرمائی۔[17]

٭٭٭٭٭

کتاب کے مقدمہ کو’’تنزیة الخاطر‘‘ میں آنے والی اس روایت پر تمام کرتا ہوں :

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ جب حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے القاب میں سے لفظ ’’قائم‘‘  کا ذکر ہو تو اس وقت کھڑے ہونے کی کیا وجہ ہے ؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

اس وجہ سے کہ آپ کی غیبت بہت طویل ہے اور آنحضرت بہت ہی محبت کے ساتھ اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ جو آپ کو اس لقب سے یاد کرے کہ جو آپ کی حکومت اور غربت کے متعلق حسرت پر دلالت کرتا ہے ۔ وہ بندہ جو اپنے آقا کے لئے خضوع سے پیش آتاہے،اسے اس طرح تعظیم کرنی چاہئے کہ جب اس کاصاحب جلال آقا اپنی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھے تو اس کے سامنے اٹھ کر کھڑا ہو جائے۔

پس جو بھی یہ نام زبان پر جاری کرے اسے کھڑا ہوجانا چاہئے اور پروردگار عالم سے آپ کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنی چاہئے ۔[18]

پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے حقیقی شیعوں میں قراردے تاکہ ہم عملی طور پران بزرگ ہستیوں کے پیروکار بن سکیں۔

                                                                                                                                                                                                     وماتوفیقی الا باللہ

           سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 


[1] ۔کفایة الاثر :١٥٨،بحار الأنوار :ج ۳۶ ، ص ۳۳۷ ، اور ج ۵۱ ، ص ۱۰۹

[2]۔ بحار الأنوار : ج ۵۱ ، ص ۱۳۱

[3]۔حضرت نرجس خاتون علیہاالسلام روم کی شاہزادی تھیں ۔خاندان وحی علیہم السلام سے ملحق ہونے کی غرض سے آپ نے کنیزوں کا لباس پہنا اوران میں چلیں گئیں اورپھرآپ کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی ماں ہونے کا افتخار حاصل ہوا۔کنیزوں کا لباس پہنن کر اسیر ہونے کی وجہ سے انہیں روایات میں بہترین کنیز کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔

[4] ۔ بحار الأنوار : ج ۵۱ ، ص ۳۶

[5] ۔ الغیبةمرحوم نعمانی : ٢٢٩

[6] ۔ بحار الأنوار : ج ۵۱ ، ص ۱۲۱

[7]۔ بحار الأنوار : ج ۵۱ ، ص ۱۱۵

[8]۔ نہج البلاغہ، خطبہ: ٢٦ص ٩٢

[9]۔الغیبة،مرحوم نعمانی :٢٧٣

[10]۔ بحار الأنوار :ج۵۱، ص۱۳۹ ، ج ۲۴، ص ۲۴۱ ،ج ۳۶ ، ص ۳۹۴

[11]۔ الغیبة،مرحوم نعمانی :٢٧٣ ،بحارالأنوار:ج ٥١ ، ص١٤٨

عقدالدرر میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی اس روایت اور کچھ دوسری روایات کی حضرت  امام حسین علیہ السلام سے نسبت دی گئی ہے ۔اس اشتباہ یا بھول کی وجہ دونوں اماموں کی مشترک کنیت ہو سکتی ہے۔

[12]۔ فلاح السائل: ١٧٠

[13]۔ بحار الأنوار : ج ۸۶ ، ص ۸۱

[14]۔ الغیبة(مرحوم نعمانی ):١٨٠ ،کمال الدین :٣٧٠ ،بحار الأنوار :ج١٥ ،ص١٥٢،الزام الناصب :ج ۱ ، ص ۲۲۱

[15]۔ ہم اس روایت سے مشابہ روایت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرچکے ہیں ۔

[16] ۔ الزام الناصب :ج ۱ ، ص ۲۷۱

[17] ۔ الغدیر :ج ۲ ، ص ۳۶۱،ایسی ہی ایک روایت علامہ مجلسی نے بحار الأنوار:ج ۵۱ ، ص ۱۵۴ میں نقل کی ہے۔

[18] ۔ الزام الناصب :ج ۱ ، ص ۲۷۱

    ملاحظہ کریں : 263
    آج کے وزٹر : 111796
    کل کے وزٹر : 151540
    تمام وزٹر کی تعداد : 138039667
    تمام وزٹر کی تعداد : 94875335