حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
احساس حضور یا معرفت کی علامت

احساس حضور یا معرفت کی علامت

زمانۂ غیبت میں لوگوں  کے فرائض مجموعی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

١۔وہ فرائض جوغیبت کے زمانہ سے مخصوص ہیں۔

٢۔وہ فرائض جو انسان پر صرف غیبت کے زمانہ میں عائد نہیں ہیں بلکہ ظہوراور امام کے حضور کے زمانہ میں بھی انجام دینا ضروری ہیں۔

دوسری قسم کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ کہ جو لوگوں کی زندگی میں بہت اثرانداز ہوتا ہے اور اگر اس کی رعایت کی جائے تو اس کی زندگی میں عظیم تبدیلی رونما ہوگی اور ثمر بخش زندگی بطور تحفہ ہاتھ آئے گی اور یہ مسئلہ حضور کا اعتقاد اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔

یعنی اگر انسان معتقد ہو کہ سبھی پروردگار عالم اور اس کے جانشینوں کے حضور میں ہیں اور وہ ان ہستیوں کے حضور یا غیبت کے زمانہ میں بھی ان کے حضور میں ہے ،نیز یہ کہ زمان و مکان ہمارے لئے

محدودیت ایجادکرتے ہیں نہ کہ ان مقدس ذوات کی نورانی منزلت کے لئے، ان کے حضور کو زمانہ یا کسی خاص مکان سے محدود یا مقید نہیں کیا جاسکتا۔

اس لئے کہ زمان و مکان مادہ کی خصوصیات میں سے ہیں اور اہل بیت  علیہم السلام کا نورانی مرتبہ جس کے متعلق امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنی حدیث نورانیت میں تشریح فرمائی ہے کہ وہ مادہ سے بلندوبرترہیں بلکہ اس پر محیط ہیں ۔اس بناء پر زمان و مکان مقام نورانیت کی نسبت کوئی تغییر یا محدودیت پیدا نہیں کرتے ۔

بحث کی مزید وضاحت کے لئے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث'نورانیت''کی طرف رجوع کرتے ہیں جسے آپ نے جناب سلمان اور جناب ابوذر سے ارشاد فرمایا۔حدیث کے طولانی ہونے کی وجہ سے ہم یہاں  اسے بیان کرنے سے گریزکرتے ہیں اور اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث کی مناسبت سے ایک دوسری اہم روایت نقل کرتے ہیں جسے حضرت امام باقر علیہ السلام نے بیان فرمایا  ہے:

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے جناب ابو بصیر کہتے ہیں:

دخلت المسجد مع أبي جعفر عليه السلام والناس يدخلون ويخرجون .

 فقال لي : سل الناس هل يرونني؟

 فكلّ من لقيته قلت له:أرأيت أباجعفر عليه السلام فيقول:لا وهو واقف حتّى دخل أبوهارون المكفوف ، قال : سَلْ هذا ؟ فقلت :هل رأيت أباجعفر ؟ فقال: أليس هو بقائم؟ قال: وما علمك؟ قال:وكيف لا أعلم وهو نور ساطع.

 قال :وسمعته يقول لرجل من أهل الإفريقيّة : ما حال راشدٍ ؟ قال : خلّفته حيّاً صالحاً يقرؤك السلام .

 قال :رحمه اللَّه،قال : مات ؟ قال: نعم ، قال : متى ؟ قال : بعد خروجك بيومين . قال : واللَّه ما مرض ولا كان به علّة ، قال: وإنّما يموت مَن يموت من مرض أو علّة . قلت : من الرجل؟ قال : رجل لنا موالٍ ولنا محبّ .

 ثمّ قال : أترون أنّه ليس لنا معكم أعينٌ ناظرة،أو اسماع سامعة، لبئس ما رأيتم ، واللَّه لايخفى علينا شي‏ء من أعمالكم فاحضرونا جميعاً وعوّدوا أنفسكم الخير،وكونوا من أهله تعرفوا فإنّي بهذا آمر ولدي وشيعتي .[1]

میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد داخل ہوا اور لوگوں کی آمد ورفت تھی ۔امام نے مجھ سے فرمایا :لوگوں سے پوچھوکیا وہ ہم کودیکھ رہے ہیں؟میں نے جس سے بھی ملاقات کی اور اس سے سوال کیا کہ کیا تم نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا؟ تو اس نے جواب دیا: نہیں؛ اتنے میں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص مسجد میں داخل ہوا ۔

امام  نے فرمایا: اس شخص سے پوچھو ،میں نے اس سے پوچھاکہ کیا تم نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے ؟

ابوہارون نے جواب دیا:کیا وہ اس جگہ نہیں کھڑے ہیں ؟

ابو بصیر نے کہا :تمہیں کیسے معلوم ہواکہ امام  یہاں کھڑے ہیں؟

ابو ہارون نے جواب دیا: ہم ان سے کیوں آگاہ اور با خبر نہ ہوں جب کہ امام واضح و آشکار نور ہیں ۔

  ابو بصیر کہتے ہیں : اس وقت میں نے سنا کہ امام محمد باقر علیہ السلام  ایک افریقی شخص سے فرمارہے

تھے کہ راشد کا کیا حال ؟اس نے جواب دیا جب میں افریقہ سے چلا تو زندہ و سالم تھا اس نے آپ کو سلام کہا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرمایا : خدا  اس پر رحمت کرے۔

 افریقی شخص نے پو چھا : کیا وہ مرگیا ؟

امام نے فرمایا :ہاں ،اس نے پوچھا: کب ؟

 امام نے فرمایا : جب تم افریقہ سے نکلے تو اس کے دو روز بعد۔

اس افریقی نے کہا : خدا کی قسم !راشد نہ مریض تھا نہ ہی اسے کسی قسم کا درد تھا۔

امام نے اس سے فرمایا :کیا جو بھی مرتا ہے کسی دردیا مرض کی بنا پر مرتا ہے ؟

ابو بصیر کہتے ہیں : ہم  نے امام سے پوچھا یہ افریقی شخص کون  ہے؟

 امام  نے فرمایا : وہ ہمارا دوست اور ہمارے خاندان کا محب ہے ۔

اس وقت امام نے فرمایا: کیا تم معتقد ہو کہ ہمارے پاس تمہیں دیکھنے والی آنکھیں اور سنے والے کان نہیں ہیں ؟  یہ عقیدہ کس قدربراہے ۔

خدا کی قسم !تمہارا کوئی بھی عمل ہم سے پوشیدہ نہیں ہے لہذا ہم سب کو خدا کے نزدیک حاضر سمجھو، اپنے نفوس کو پسندیدہ اعمال کی عادت ڈالواور نیک کام کرنے والے بنوتاکہ اس حقیقت کو پہچان سکو،اورمیں نے جو کچھ کہا اس کا اپنے فرزندوں اور شیعوں کو حکم دیتا ہوں ۔

اس روایت میں نہایت اہم مطالب موجود ہیں اور انہیں درک کرنے کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے۔

اس روایت سے استفادہ کیا جانے والا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ خاندان وحی علیہم السلام  کے حضور کا عقیدہ ہوناچاہئے اور اس واقعیت کو محسوس کرنا ممکن ہے بشرطیکہ  امام باقر علیہ السلام نے حقیقت تک پہنچنے کی جو شرائط بیان کی ہیں ،ان کی رعائت کی جائے۔

نہایت ہی اہم نکتہ  جسے آنحضرت نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے اپنے تمام شیعوں اور اپنے  فرزندوں کو اس کی تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  امام  نے جو واقعیت بیان فرمائی ہے ،ہر ایک کو اسے حاصل کرنے کی کو شش کرنی چاہئے ۔

اس روایت کی روسے ان ہستیوں میں سے ہر ایک عین اللہ ہیں جو ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں ، اذن اللہ ہیں یعنی ہماری باتوں کو بھی سنتے ہیں۔اس مقام پر امام  نے ان لو گوں کی مذمت کی ہے جنہوں نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیاہے اور فرماتے ہیں:واقعاً برا عقیدہ رکھتے ہو ،خدا کی قسم !تمہارا کوئی بھی عمل ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ان نکات کو بیان کرنے کے بعد اپنے بیان کا نتیجہ پیش کرتے ہیں اور چند نکتوں کی وضاحت کرتے ہیں:

  ١۔ہم سب کو اپنے سامنے حاضر سمجھو:

یہ فرمان اہل بیت علیہم السلام کے مقام نورانیت کی طرف اشارہ ہے چونکہ آپ زمانہ پر محیط مقام نورانیت کے مالک ہیں اور ان میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے اور ہر شیعہ چاہے وہ کسی زمانہ میں ہو اسے خود کو ان بزرگ حضرات کے حضور میں سمجھنا چاہئے۔ جس طرح  انسان خود کو خدا کے حضور میں سمجھتا ہے اسی طرح اسے خود کو اہل بیت علیہم السلام کے حضور میں سمجھنا چاہئے۔

٢۔اپنے نفوس کو نیک عمل کی عادت ڈالو اور اہل خیر بنو :

اس فرمان کے مطابق انسان کو نہ صرف برے اور نا شائستہ عمل کا عادی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے نفس کواچھے اور نیک عمل کی عادی بنایا چاہئے یعنی تہذیب نفس اور تربیت میں کوشاں رہنا چاہئے کہ نہ صرف اس کا نفس پسندیدہ کاموں کے انجام دینے سے متنفر نہ ہو بلکہ انہیں اپنی عادت بنالے۔

اس روایت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ پسندیدہ کاموں کی عادت ڈالنااس صورت میں قابل اہمیت ہے کہ جب انسان کی ذات کو ان کی عادت ہو جائے یعنی یہ اس کی ذات پر اثر انداز ہوں۔

لہذااگر انسان کی ذات پر نیک اور پسندیدہ کام اثر انداز نہ ہوں توان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے انسان معاشرے اور محل زندگی کے تضاضوں کے تحت بہت سے اچھے اور پسندیدہ کام انجام دینے کا عادی بن گیا ہو لیکن یہ اس کی ذات میں راسخ نہ ہوئے ہوںجس کے نتیجہ میں اس کی ذات اور اعمال  کے در میان کوئی ہماہنگی نہیں پائی جاتی ہے اور وہ ان کاموں کے اہل افراد میں شمار نہیں ہوتا ۔ یہ بہت دقیق نکتہ  ہے جس کی طرف پوری طرح توجہ ہونی چاہئے ۔

اس کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ پسندیدہ کاموں کا عادی ہوجانا دو صورتوں میں ممکن ہے۔

پہلی صورت:نفس کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی تربیت اور نفس کو نیک اور اچھے کاموں کو انجام دینے کے لئے مطیع بنانا ۔ اگر اس طرح انسان نیک کاموں کے انجام دینے کا عادی بنا ہو تو انسان کی ذات اور سرشت نیک کاموں کی عادی ہو جائے گی۔ لہذا اس طرح عادی ہونا انسان کی ترقی اور تکامل میں بنیادی کردار رکھتا ہے ۔

دوسری صورت: انسان نیک کاموںکا عادی ہو جائے اور پسندیدہ اعمال کو اپنی طبیعت ثانیہ بنالے اور یہ مخالفت نفس ،اپنی تربیت اور خود اس طرح کے اعمال کو انجام دینے کے لئے آمادگی کی غرض سے نہ ہو بلکہ اس کا معاشرے اور ماحول اسے ان میں سے بعض چیزوں کا عادی بنا دے۔

مثلاً وہ ایسے خاندان میں تھا کہ جس کے افرادنماز اوّل وقت یا جماعت سے پڑھنے کے عادی تھے لہٰذا اسے بھی اس کی عادت ہو گئی۔اس صورت میں چونکہ اس نے اپنے اندر یہ عادت ذاتی طور پر پیدانہیں کی ہے لہذااگر اس کے گھر کا ماحول تبدیل ہوجائے تووقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادت تبدیل ہو جائے گی اور وہ اسے چھوڑ دے گا۔

اس طرح کی عادت کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جو انسان کی ذات پر اثرانداز نہ ہوئی ہوبلکہ ماحول کا رنگ اختیار کرنے کی بناپر ہو  اور ماحول کی تبدیلی کی بناپر عادت ختم ہوجائے گی۔

لہٰذا حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

تم اپنے نفوس کو عمل خیر کا عادی بنانے کے علاوہ اس کے اہل بھی بنو؛نہ یہ کہ صرف اچھے افراد کا رنگ اختیار کرو۔کیونکہ نیک اعمال کا انسان کی ذات اور سرشت میں راسخ ہوئے بغیر صرف نیک افراد کارنگ اختیار کر لینے سے رفتار و کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اس سے حقائق کو درک کرنے میں کوئی فائدہ نہ ہوگا لیکن جب یہ انسان کی ذات میں راسخ ہو جائے تو اس سے عظیم  اور اہم حقائق درک ہوتے ہیں۔

 


[1] ۔ بحار الأنوار : ج ۴۶ ، ص ۲۴۳

    ملاحظہ کریں : 250
    آج کے وزٹر : 105099
    کل کے وزٹر : 151540
    تمام وزٹر کی تعداد : 138026322
    تمام وزٹر کی تعداد : 94868639