حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
انتظار

انتظار

اجتماعی عادت کے برخلاف حضرت بقیة اللہ ارواحنا فدا ہ کے ظہور سے غفلت کی قید و بند سے آزاد ہونا انسان کو بافضیلت ترین مقامات پر پہنچا دیتا ہے اور حضرت امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے انتظارکے زیر سایہ نہ صرف آنحضرت کے سلسلہ میں غفلت کی قید وبندسے آزاد ہو جائیں گے بلکہ غیبت اس کے لئے مشاہدہ کی طرح ہو گی ۔

اب اس بہترین روایت پر توجہ کریں کہ حضرت امام سجادعلیہ السلام نے ابو خالد کابلی سے فرمایا :

تمتدّ الغيبة بوليّ اللَّه الثاني عشر من أوصياء رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم والأئمّة بعده.

 يا أبا خالد؛ إنّ أهل زمان غيبته ، القائلين بإمامته ، المنتظرين لظهوره أفضل أهل كلّ زمان ، لأنّ اللَّه تعالى ذكره أعطاهم من العقول والأفهام والمعرفة ما صارت به الغيبة عندهم بمنزلة المشاهدة وجعلهم في ذلك الزمان بمنزلة المجاهدين بين يدي رسول اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم بالسيف ، اولئك المخلصون حقّاً وشيعتنا صدقاً والدعاة إلى دين اللَّه سرّاً وجهراً .

 وقال عليه السلام : انتظار الفرج من أعظم الفرج .[1]

اے ابو خالد!سچ یہ ہے کہ ان کی غیبت کے ز مانہ کے جوافراد ان کی امامت کے معتقد ہوں گے اور ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے، وہ ہر زمانہ کے افراد سے بر تر ہیں۔

کیونکہ پروردگارعالم نے انہیں اس درجہ عقل وفہم اور معرفت عنایت کی ہے کہ ان کے لئے مسئلہ غیبت مشاہدے کی منزلت رکھتا ہے اور پروردگارعالم نے انہیں اس زمانہ میں ایسے لوگوں کی جگہ پر قرار دیاہے کہ جنہوں نے رسول خداﷺکے ہمراہ شمشیر سے جنگ کی ہے، وہ حقیقت میں صاحبان اخلاص ہمارے سچے شیعہ اور پوشیدہ و آشکار طور پردین خدا کی طرف دعوت کرنے والے ہیں۔

نیز حضرت سجاد علیہ السلام نے فرمایا :

ظہور کا انتظار،ظہور کے لئے سب سے بڑی راہ ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام نے اس روایت میں زمانۂ غیبت میں زندگی بسر کرنے والے ان لوگوں کو ہر زمانہ کے لوگوں پر افضل قرار دیا ہے جنہیں غیبت نے غفلت کی قید و بند میں گرفتار نہ کیا ہو اورجو آنحضرت کے ظہور کے منتظر رہیں کیونکہ انہوں نے نہ صرف پروردگار عالم کی عطا کی ہوئی عقل وفہم کی بنا پرخود کو امام عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نسبت معاشرے کی غفلت کی عادت سے محفوظ رکھا ہے بلکہ انہوں نے ذاتی طور پر اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کی ہے کہ ان کے لئے مسئلہ غیبت بھی مشاہدہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اس طرح کے افراد اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سچے شیعہ اور خاندان وحی علیہم السلام کے سچے پیروکار ہیں ۔

ہم اگر سچے اور واقعی شیعوں کے مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہی راستہ طے کرنا ہوگا جو انہوں نے طے کیا ہے اور اسی راستہ پر گامزن رہنا پڑے گا جس پر وہ گامزن رہے اور جس طرح انہوں نے خود سے غفلت کی عادت کو دور کیا اسی طرح ہم بھی غفلت کی عادت کو خود سے دور کریں اورخود کو توجہ اورظہورکے انتظارسے آراستہ کریںکیونکہ انتظار فکر ساز ،قوت بخش اور باعث عمل ہے ۔اسی بناء پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

افضل جھاد امتی انتظار الفرج.[2]

ہماری امت کا افضل ترین جہاد انتظار فرج ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام بندوں کی عبادت کے قبول ہونے کی ایک شرط حضرت قائم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی حکومت کے انتظارکو قرار دیتے ہیں اور اس موضوع کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

إنّ لنا دولة يجيئ اللَّه بها إذا شاء ، ثمّ قال : من سرّ أن يكون من أصحاب القائم فلينتظر وليعمل بالورع ومحاسن الأخلاق وهو منتظر ، فإن مات وقام القائم بعده كان له من الأجر مثل أجر من أدركه ، فجدّوا وانتظروا هنيئاً لكم أيّتها العصابة المرحومة.[3]

ہماری حکومت ہوگی جب بھی خدا چاہے گا اسے قائم کرے گا۔

پھر فرمایا : جو بھی دوست رکھتا ہے کہ حضرت قائم کے اصحاب میں ہو اسے چاہئے کہ ظہور کا منتظر رہے اور اپنے اندرپرہیز گاری و اچھے اخلاق پیدا کرے چونکہ صراط انتظار پر قدم رکھ رہا ہے۔

چنانچہ اگرایسی حالت میں اس کو موت آجائے اور قائم اس کے بعد قیام کریں تو اس کی جزا ایسے فرد کی ہے جوآنحضرت کے حضور میں ہو ، لہٰذا کو شش کرو اور منتظر رہو تمہیں مبارک ہو، تم ایسی جماعت ہو ، جس پر خدا کی رحمت ہے ۔

  امام صادق علیہ السلام ایک دوسری روایت میں امام عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانہ میں لوگوں کے فرائض کے متعلق فرماتے ہیں :

وانتظر الفرج صباحاً ومساءاً .[4]

صبح و شام ظہور کے منتظررہو ۔

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام انتظار کی حالت کو اہل بیت علیہم السلام کے محبوں کی صفات میں سے قرار دیتے ہیں  اور خاندان وحی  علیہم السلام کے پرستاروں کو صبح و شام انتظار کی صفت سے آراستہ بتاتے ہیں ۔

آنحضرت فرماتے ہیں :

  إنّ محبّينا ينتظر الرَّوْح والفرج كلّ يوم وليلة .[5]

بلا شبہ ہمارے دوست  روز وشب آسائش و سکون کے دن اور ظہور کے منتظر ہیں ۔

 حضرت امام ہادی علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے ایک شخص نے آپ سے ا مام عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانہ میں شیعوں کے فرائض کے متعلق سوال کیا :

کیف تصنع شیعتک؟ قال علیہ السلام:علیکم بالدعاء و انتظار الفرج .[6]

غیبت کے زمانہ میں آپ کے شیعہ کیا کریں ؟

امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا: تمہارا فریضہ ہے کہ دعاکرو اور فرج کاانتظار کرو ۔

لہٰذا جس طرح روایت میں وارد ہوا ہے کہ مصلح عالم کے ظہور کا انتظار لوگوں کے اعمال کے قبول ہونے کی شرط اور خاندان رسالت علیہم السلام کے پرستاروں کی صفت ہے ۔

پسجو بھی خود کو صالح سمجھتا ہے اسے مصلح عالم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کا منتظر ہونا چاہئے اور مصلح کے ظہور کا انتظار کرنے والوں کو بھی نیک و صالح ہونا چاہئے۔

ہم اس جگہ حضرت امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عالمی حکومت کے انتظار کے وجوب کے متعلق حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے گرانقدر کلام کے ذریعہ گفتگو کی اہمیت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام فرماتے ہیں :

دخلت علی سیّد محمد بن علی علیہما السلام وأنا ارید أن أسألہ عن القائم، أہو المہد، أوغیرہ؟ فبدأن، فقال علیہ السلام :

يا أباالقاسم؛إنّ القائم منّا هو المهديّ الّذي يجب أن ينتظر في غيبته ويطاع في ظهوره وهو الثالث من ولْدي،والّذي بَعَث محمّداً بالنّبوّة وخصّنا بالإمامة أنّه لو لم يبق من الدّنيا إلّا يوم واحد لطوّل اللَّه ذلك اليوم حتّى يخرج فيملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما ملئت جوراً وظلماً وإنّ اللَّه تبارك وتعالى يصلح أمره في ليلة كما أصلح أمر كليمه موسى عليه السلام ليقتبس لأهله ناراً فرجع وهو رسول نبيّ .

 ثمّ قال عليه السلام:أفضل أعمال شيعتنا إنتظار الفرج .[7]

میں اپنے مولاحضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااورمیرا ارادہ تھا کہ میں آنحضرت سے قائم آل محمد علیہم السلام کے متعلق سوال کروںکہ کیا وہی مہدی ہیں یا کوئی دوسرا ہے؟ قبل اس کے کہ میںکچھ کہتا حضرت نے فرمایا:

 اے اباالقاسم! آل محمد  علیہم السلام کے قائم وہی حضرت مہدی  ہیں  جن کی غیبت کے زمانہ میں ان 

کاانتظار اور ظہور کے زمانہ میں اطاعت واجب ہے۔

وہ ہماری نسل میں تیسرے فرد ہیں۔

 اس ذات کی قسم! جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کونبی مبعوث فرمایا او رمقام امامت کوہم سے مخصوص کیا اگر دنیا صرف ایک روز کے لئے باقی بچے تو پروردگار عالم اس دن کو طولانی کردے گاکہ وہ ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

 پرور دگار عالم اپنے امر کی اصلاح ایک شب میں کرے گا بالکل اسی طرح جیسے اپنے کلیم حضرت موسی علیہ السلام کے امر کی اصلاح فرمائی وہ اپنے اہل و عیال کے لئے آگ لینے گئے لیکن جب پلٹے تو ان کے پاس مقام نبوت و رسالت تھا ۔

اورپھر اس وقت حضرت محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :

 ہمارے شیعوں کا سب سے  بافضیلت عمل انتظار فرج ہے۔

اس روز کی امیدمیں جب اس کی دلربا آواز کائنات میں گونجے گی اور افسردہ  و غمگین دلوں کو حیات نو بخشے گی اور بزرگان الٰہی کہ جن کی توصیف میں خدا نے فرمایاہے :

«اَیْنَمَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعاً» .[8]

اس بزرگوار کی طرف تیزی سے بڑھیں اور...۔

 


[1] ۔ بحار الأنوار :ج ۵۲ ، ص۱۲۲

[2] ۔ بحار الأنوار :ج ۷۷ ، ص۱۴۳

[3] ۔ بحار الأنوار :ج ۵۲ ، ص۱۴۰

[4] ۔ بحار الأنوار :ج ۵۲ ، ص۱۳۳

[5] ۔ بحار الأنوار :ج ۲۷ ، ص۱۲۱ اور ج ۶۸ ، ص ۳۸

[6] ۔ مہیج الدعوات ،  بحار الأنوار سے نقل :ج ۹۵ ، ص ۳۳۶

[7] ۔ بحار الأنوار :ج ۵۱ ، ص۱۵۶

[8] ۔ سورۂ بقرہ،آیت:١٤٨۔جہاں کہیں بھی ہو گے خداوند تم سب کو لے آئے گا۔

    ملاحظہ کریں : 239
    آج کے وزٹر : 107657
    کل کے وزٹر : 151540
    تمام وزٹر کی تعداد : 138031430
    تمام وزٹر کی تعداد : 94871197