حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

 برطانوی بادشاہ''اوفا''(OFFA)

 تاریخ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ گذشتہ صدی میں برطانوی بادشاہ ''اوفا''کا نام سامنے آیا کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا ۔لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آئی۔

''اوفا''کون تھا؟

 اس نے کب حکومت کی؟

 اس نے کیوں اسلام قبول کیا؟

 اس کے مسلمان ہونے کی خبر کو کیوں چھپایا گیا؟

 مذکورہ سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے  برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائیکلوپیڈیا (لاروس) کی طرف رجوع کریں۔ان دونوں انسائیکلوپیڈیا میں ''اوفا''(OFFA)کے بارے میں یوں ذکر ہواہے:

 اوفا''انگلوساکسونی ''(Anglo-Saxon) بادشاہ تھاجس نے انتالیس سال  (٧٥٧ ء سے ٧٩٦ء )تک برطانیہ پر حکومت کی۔اس زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔

 پہلے وہ مارسیا(Mercia)یا وسطی برطانیہ(Middle England) کا بادشاہ تھا ۔یہ مملکت سات ملکوں کا حصہ تھی۔اس بادشاہ نے چھوٹے ملکوں جیسے Saxons,W اور Welshکو فتح کرکے اپنے ملک کو وسعت دی۔

 اس نے اپنی بیٹیوں کی شادیWessexاورNorthrmbiaکے حکمرانوں سے کی اور یوں اس نے اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو مزید پھیلایاکہ جس میں  برطانیہ کے تمام حصے شامل تھے۔

 اس نے فرانس کے بادشاہ''شارلمان''اور پاپ ''اندریان اوّل''سے معاہدہ بھی کیا۔

 اس کے زمانے کے باقی بچنے والے آثار میں سے دیوار اور ڈیمہے جو مارسیا (Mercia) اور ولش(Welsh)کے درمیان بنایا گیاور جو اب تک ''دیوار اوفا''OFFA DYKE''کے نام سے مشہور ہے۔

 یہاں تک تو ایک عام مسئلہ تھا لیکن ١٨٤١ئ(١٢٢٧) میں مؤرخین کے لئے ایک سوال پیدا ہوا ۔ اس سال سونے کا ایک سکہ ملاجو اس طاقتور بادشاہ کے زمانے کا تھا۔اس سکے پر کون سی ایسی چیز تھی کہ جس نے سب کو حیران کر دیا۔یہ سکہ اب بھی برطانیہ کے عجائب گھر میں قدیم سکّوں کے حصہ میں موجود ہے۔

حیران کن چیز یہ تھی کہ اس سکے کے دونوں طرف کلمہ شہادت ''اشھد أن لا الہ الاَّ اللّٰہ ، و اشھد أن محمّداً رسول اللّٰہ''اور عربی زبان میں قرآن کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔

 یہ تو تھا اس سکہ کا واقعہ:

 سکہ کے ایک طرف عربی زبان میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے: ''اشھد أن لا الہ الاَّ اللّٰہ ، وحدہ لا شریک لہ ''اور سکہ کے حاشیہ میں '' محمّد رسول اللّٰہ''اور پھر'' أَرْسَلَہُ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ''([1])لکھا ہوا تھا اور درمیان میں انگلش میں یہ جملہ ''OFFA-REK''( یعنی بادشاہ اوفا )نقش تھا۔حاشیہ میں عربی میں یوںلکھا ہوا تھا:''بسم اللہ،یہ دینار ١٥٧ میں بنایا گیا۔

 ''اوفا''بادشاہ کے دستخط سے یہ تشخیص دی جاسکتی ہے کہ یہ سکہ  ٧٥٧ء سے ٧٩٦ ء کے درمیان بنایا گیا کہ جب ''انگلوساکسونی''پر ''اوفا''حکومت کر رہا تھا۔   ١٥٧ھ وہی ٧٧٤ء بنتا ہے۔

 اس بارے میں بہت سے تقریریں کی گئیں اور دسیوں مقالے لکھے گئے ،ہم اس موضوع کے بارے میںمؤرخین کے فرضیات اور تھیوریوں کو یوں خلاصہ کر سکتے ہیں:

 پہلا فرضیہ:''اوفا''بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔

 دوسرا فرضیہ:اس نے مفہوم و معنی کو سمجھے بغیرخوبصورتی کے لئے عربی کے ان کلمات اور آیت سے استفادہ کیا۔

 تیسرا فرضیہ:اس نے یہ سکہ اپنے ملک کے حجاج (جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں)کی مدد کے لئے بنوایاتا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور ان کے لئے سفر کی سختی آسان ہو جائے ۔گویااس کا یہ کام ایک سیاسی پہلو رکھتا تھا۔

 چوتھا فرضیہ:اس نے ٧٨٧ء میں پاپ ''اندریان''سے معاہدہ کیا کہ بادشاہ سالانہ مالیات ادا کرے اور ممکن ہے کہ یہ سکہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔

 محققین میں سے ایک کا کہنا ہے:یہ واضح ہے کہ آخری تین فرضیہ منطق اور انسانی عقل سے سازگار نہیں ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی بادشاہ خوبصورتی کے لئے سکہ پر کوئی جملے لکھے کہ اسے جس کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔جب کہ یہ جملات ''شہادت ''ہیں کہ جن میں اسلام کے عقائد کا خلاصہ کیا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ کے کچھ بادشاہوں پر اسلامی تمدن اثرانداز ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں اپنا نام سکوں پر چھپوایاتھا۔

 ان میں سے ایک''الفانسو ہشتم ،فاسیلی دیمتریش'' اور کچھ ''نورمان''حکمرانوں میں سے تھے کہ جن میں ''ویلیم راجر''شامل ہے ۔حتی کہ سلطنت جرمنی کے حاکم''ہنری چہارم''نے عثمانی خلیفہ'' المقتدرباللہ''کا نام اپنے ملک کے سکہ پر نقش کروایا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ''اوفا''کی طرح کلمۂ توحید سکہ پر نقش نہیں کیا تھا۔

 تیسرے فرضیہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرضیہ بہت مبہم ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاپ بادشاہ ''اوفا''سے یہ تقاضا کرے کہ سکہ پر کلمۂ شہادتین نقش کروائے اور اسے مالیات کے طور پر ادا کرے؟

 کیا اس میں کوئی منطق نظر آتا ہے؟کیا یہ ناممکن نہیں ہے ؛جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاپ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے۔لہذا یہ فطری امر ہے کہ وہ سکہ پر دشمن کا شعار و عقیدہ دیکھ کر اس کی مخالفت کرے گا۔چاہے سکہ پر یہ خوبصورتی کے لئے ہی نقش کئے گئے ہوں۔

 چوتھے فرضیہ  کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمزور فرضیہ ہے ۔یہ ماننا مشکل ہے کہ بادشاہ ''اوفا''نے یہ سکہ اس لئے بنوایا تھا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کے لئے جانے والے اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر ے ۔ کیونکہ اس زمانے میںجو عیسائی مقدس شہروں کو دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور اسلامی ملکوں میں ان کی رفت و آمد تھی۔

 شاید یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت سکہ نہ بنا سکتی ہو لہذا اس نے اپنا سکہ کسی عربی ملک سے بنوایا ہو۔ لیکن یہ احتمال ضعیف ہے اور یہ وار نہیں ہوتا۔

کیونکہ برٹش انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے نوادرات میں سے نئی طرز کے کچھ سکے ہیں کہ جن پر بادشاہ اور سکہ بنانے والے کا نام نقش ہوا ہے۔کئی صدیوں تک انہیں سکوں سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ جن پر بادشاہ ''اوفا''اور اس کی بیوی ملکہ کانثریز(Cynethyth)کی تصویر بنی ہوئی تھی۔انگلینڈ میں سکہ بنانے کا نظام متعدد زمانوں میں رائج تھا۔

 ممکن ہے کہ اس بادشاہ کے زمانے میں رائج سکوں کے کچھ اور نمونے برٹش انسائیکلوپیڈیا میں سکّوں (Coins) یا بادشاہ کے حالات زندگی کی بحث میں مل سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ احتمال انتہائی ضعیف ہے کہ بادشاہ اپنے ملک میں سکّہ نہیں بنا سکتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ''اوفا''بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی اور ان سکّوں کے علاوہ کوئی اور مدرک بھی موجود نہیں ہے۔

ہمارے پاس اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کے بارے میں معلومات کیوں نہیں ہیں؟مؤرخین اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہبرطانیہ کے کلیسانے اس بادشاہ  کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں تمام مدارک مٹا  دیئے تھے!

کیا صرف یہ بادشاہ ہی مسلمان ہوا تھا یا اس کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار بھی مسلمان ہوئے تھے؟ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔

 ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس کی زیارت  کے وقت کچھ مسلمانوں اور ان کے علماء سے ملاقات کی ہو اور اس دوران اسلام قبول کرکے  اسلام کا معتقد ہوا ہو۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائی کلوپیڈیا (لاروس)نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ نہیں کیابلکہ اسے کلی طور پر ان دیکھا کر دیا ہے۔اس سے کچھ لوگوں کے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ ان انسائیکلوپیڈیا میں علمی غیرجانبداری کا  لحاظ نہیں کیاگیا۔([2])

 


[1] ۔ سورۂ توبہ ، آیت:٣٣ (ھُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ  بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ)

[2]۔ اسلام و غرب:٢٢

 

 

    ملاحظہ کریں : 2117
    آج کے وزٹر : 29041
    کل کے وزٹر : 162091
    تمام وزٹر کی تعداد : 143002856
    تمام وزٹر کی تعداد : 98689647