حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خارجی کتابوں کا ترجمہ

خارجی کتابوں کا ترجمہ

     بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ  مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔

 لیکن ظاہراً خارجی  کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔

 کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں:

 جاحط نے ''البیان و التبیین''([1])میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔

 ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''([2])میں  لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد      ٨٥ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔

صلاح الدین صفدی سے نقل ہوا ہے کہ ترجمہ کا آغاز کرنے والا مأمون نہیں تھا بلکہ اس سے بہت پہلے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔

 یحییٰ بن خالد نے ''کلیلہ و دمنہ''کو فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے لئےیونانی کتابوں''مجسطی''کا ترجمہ کیا گیا۔

 نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ  وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔

کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔

 ''کشف الظنون''([3])میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔

 سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں  ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔

 ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھر

خالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا۔([4])

 قفطی کی کتاب''اخبار الحکماء''میں ذکر ہواہے کہ ابن السندی نے قاہرہ کے کتابخانہ میں  تانبے کا ایک  سکّہ دیکھا جس پر امیر خالد بن یزید کا نام لکھا ہوا تھا۔

 اس طرح ابن خلدون کا وہ نظریہ ردّ ہو جاتا ہے کہ جس میں اس نے خالد کو بدویّت سے نزدیک اور علوم و صناعات اور بالخصوص کیمیا(جس کے لئے طبایع سے آشنائی ضروری ہے)سے دور قرار دیا تھا۔

 ابن الندیم (جو ابن خلدون کی بنسبت خالد کے زمانے سے نزدیک ہے)کاکہنا ہے کہ خالد کے زمانے میں کیمیا رائج تھا۔

 کتاب''تاریخ آداب اللغة العربیة''([5])میں ذکر ہواہے کہ مروان کے زمانے میں 'ماسرجویہ'' کے نام سے ایک طبیب (جس کا تعلق سریانی یہودی مذہب سے تھااور جو بصرہ میں رہتا تھا)نے ایک پادری امرون بن اعین کی لکھی ہوئی کتاب''کُناش''کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنا تو اسے وہ کتاب خزانے میں ملی۔کچھ لوگوں نے اس کی تشویق کی کہ اسے باہر نکالا جائے تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کریں ۔عمر بن عبدالعزیز نے وہ کتاب باہر لانے اور اسے لوگوں کے اختیار میں دینے کے لئے چالیس دن تک استخارہ کیا۔

کتاب''شفاء الغلیل''میں  ذکرہوا ہے کہ ''کُناش''(غُراب کے وزن پر)ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی تذکرہ کا مجموعہ ہے۔حکماء کی کتابوں میں یہ کلمہ بہت زیادہ

نظر آتا ہے ۔([6])

 یہ ظاہر سی بات ہے کہ کہ مریانس رومی اور اسطفار رومی (جن کے خالد بن یزید سے تعلقات تھے)جیسے عیسائیوں کے افکار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے افکار پر اثرانداز ہوتے ہوں گے ۔ بالخصوص خالد بن یزید پر کہ جو یزید کا بیٹا اور میسون مسیحی کا نواسہ تھا۔

 اگرچہ خالد بن یزیدغاصبانہ خلافت پر تخت نشین نہیں ہوا تھا  لیکن اس کے بعد مروان اور کچھ دوسرے اور ان کے بعد بنی العباس جیسے منصور و مأمون (جو خلافت کے دعویدار تھے) نے اسی راہ کو جاری رکھا ۔اس کام سے حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے ذہنوں میں اہم سوال جنم لیتا ہے۔

 وہ سوال یہ ہے:اگر خلافت کے دعویدار اور خود کو رسول خداۖ کا جانشین اور خدا کا خلیفہ سمجھنے والے ان جیسے افراد کا دعویٰ جھوٹا تھا تو مسلمان ان کا احترام کیوں کریں ؟انہیں خدا کا خلیفہ کیوں سمجھیں ؟ اور اگر یہ خدا کے خلیفہ تھے تو انہیں دوسروں پر کوئی امتیاز اور فوقیت کیوں نہیں تھی؟یہاں تک کہ حصول علم کے لئے بھی انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟

 


[1]۔ البیان والتبیین: ج١ص١٢٦

[2]۔ شرح نہج البلاغہ: ج٣ص٤٧٦

[3]۔ کشف الظنون: ج١ص٤٧٧

[4]۔ الفہرست:٢٤٢ اور ٢٤٤

[5]۔ تاریخ آداب اللغة العربیة: ج١ص٢٣٣

[6]۔ نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام:٣٣٣

 

    ملاحظہ کریں : 2494
    آج کے وزٹر : 6070
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139960744
    تمام وزٹر کی تعداد : 96508170