حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

 اموی دور حکومت میں لوگوں کے دماغ میں فتنہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ایسی حکومت جس نے صاحبان علم سے جنگ کی اور جس نے بعثت پیغمبرۖ کے زمانے کے مشرکوں کے عقائد کو نئے اور دلکش لباس میں پیش کیا۔علماء کا اتفاق ہے کہ اموی حکومت میں قدری گری زیادہ پھیلی اور امویوں  نے اسے اپنی آغوش میں پروان چڑھایااور اس کی حمایت کی تا کہ یہ پلے بڑے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔([1])

 انہوں نے خدا کی راہوں کو مسدود رکرنے اور قضا و قدر جیسے افکار پیش کئے اور انہیں ترویج دی۔ ان کا مقصدیہ تھا کہ دنیا کو حیرت و سرگردانی اور فکری بے راہ روی میں مبتلا کریں۔اس کام کا نتیجہ شریعتوں کو مقدس نہ سمجھنا،اس کے قوانین کی پابندی نہ کرنا اورحرام اعمال کو انجام دینا تھا کہ جن سے آسمانی ادیان نے منع کیا ہے۔یہ تمام کج روی قضاء الٰہی کے بہانے سے انجام دی جا رہی تھی ۔ امویوں نے اس فکر کی پرورش کی اور پھیلایا تا کہ رسول اکرمۖ کی زبان سے ان کے بارے میں جو کچھ صادر ہوا ہے ، اسے چھپا سکیں اور یہ بیان کر سکیں کہ حاکمیت اور ان کا اقتدار خدا کی مشیت و ارادے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں اور کسی بھی طرح کی سرکشی اور ان کے خلاف کوئی تحریک ،قضاء الٰہی کے خلاف سرکشی شمار کی جائے گی۔

  جس نے سب سے پہلے  جبرکو نئے انداز میں  پیش کیا ،اس کے بارے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:''ہمیں مکمل اطمینان ہے کہجبری گری اموی دور کے آغاز میں پھیلی اور اس دور کے اختتام تک یہ ایک مکتب میں تبدیل ہو گئی۔کہتے ہیں کہ اس تفکّر کو سب سے پہلے رواج دینے والے کچھ یہودی تھے، جنہوں نے یہ افکار مسلمانوں کو سکھائے اورپھر ان کی نشر و اشاعت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے   جس مسلمان نے اس فکری تحریک کی طرف دعوت دی ،وہ جعد بن درہم تھا جس نے یہ افکار شام کے ایک یہودی سے سیکھے اورپھر اس نے بصرہ میں لوگوں میں اس کی ترویج شروع کر دی۔ پھر جہم بن صفوان نے یہ افکار جعد سے سیکھے''۔([2])

جہم صرف جبر کے عقیدے کی ہی ترویج نہیں کر رہا تھا بلکہ جنت و دوزخ اور خدا سے ملاقات وغیرہ  جیسے اپنے نظریات کی طرف بھی لوگوں کو دعوت دیتا تھا ۔([3])

اس طرح اہل کتاب سے جبر کے افکار سیکھنے کے بعد(جوامویوں کی سیاست سے ساز گار تھے)  اموی درخت کی شاخیں،اہل کتاب کے درخت کی شاخوں سے مل گئیں۔

 ظاہر ہے کہ شام اموی خلافت کا دارالحکوت  اور مختلف مذہب و نظریات کا پیروکار تھا۔امویوں نے مذاہب کے سربراہوں سے مسالحانہ روایہ رکھا ہوا تھا  اور انہوں نے قیصر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تا کہ اپنی طاقت کی حفاظت کے  لئے وقت پڑھنے پر مسلمانوں کو قتل اور ان کی سرکوبی کریں۔اس معاہدہ کے دوران احبار اپنی عمارت کو اونچاکرنے کے لئے اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال رہے تھے اور اموی بھی انہیں اپنے قریب کر رہے تھے۔تاریخی لحاظ سے یہ مطلب بھی قطعی ہے کہ سرجون مسیحی( جو معاویہ اور اس کے بعد یزید اور پھر مروان بن حکم ([4])کا مشیر اور اموی حکومت کا راز دار تھا )جبریوں میں سب سے آگے تھا۔([5])

 اس بناء  پر سب فرقوں کے علماء کے مطابق اموی حکومت نے جبری گری کو ترویج دینے اور اسے تقویت دینے کی سیاست اپنائی اور اسے اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیا کیونکہ اس کی چادر میں امویوں کے کالے کرتوت پوشیدہ تھے  اور ان کے منبر سے ان کے فقیہ ہر بندگلی سے بھی اپنے لئے راستہ نکال   لیتے تھے۔

 اگر ان سے پوچھا جاتا کہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیوں  کی؟ کیوں انہیں دشنام دیتے ہو؟کیوں حجر بن عدی کو قتل کیا؟ یااکثر کو معاویہ سے ملحق کیوں کیا اور استلحاق کی جاہلی سنت کو پھر سے کیوں زندہ کیا؟ یا امام حسین علیہ السلام کو کیوں قتل کیا؟ یاحرہ  کے واقعہ میں کیوں مدینہ پر حملہ کیا اور اسے مال غنیمت کی طرح لوٹا اور مکہ پر کیوںسنگ باری کی گئی؟کیوں خدا کے مال کو اپنا بازیچہ اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنایا؟ کیوں خدا کے دین کو باطل کیا اور نماز کو ضائع کیا؟

 ان سب سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جواب میں ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ سب خدا کی  قضاو قدر کے مطابق تھا اور اس پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر وہ جانے اور تلوار جانے!

 


[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:١٠٤-١١١ ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:٦٦

[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:١٠٤-١١١ ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:٦٦

[3]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:١٠٦

[4]۔ التنبیہ والاشراف:ج١ص٢٨٥

[5]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:٦٩

 

 

    ملاحظہ کریں : 2162
    آج کے وزٹر : 8813
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139966230
    تمام وزٹر کی تعداد : 96513656