حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
معاشرے میں مرجئہ کا کردار

معاشرے میں مرجئہ کا کردار

 گمراہ کرنے والے اشعار،شراب نوشی اورجنسی برائیاںکچھ ایسے امور تھے جوفکر کو گمراہ کرنے والے مرجئہ جیسے فرقے کے رواج پانے کے نتیجے میں لوگوں میں پھیلے۔

نوجوان بلند اہداف و مقاصد کی جستجو کرنے کی بجائے عشق و عاشقی کی طرف مائل ہو گئے اور دین و دینداری سے دور ہو گئے۔زندقہ اور بے دینی رواج پا گئی اور لوگ خدا اور رسولۖ  کو بھول گئے۔

مرجئہ کے پیشواؤں کا اس میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف دعوت دی اور ان سے حیا و غیرت سلب کر لی اور اس کی جگہ بے شرمی تھما دی۔

مرجئہ کے عقیدے کی وجہ سے لوگ شرم کا احسان نہیں کرتے تھے اور ولید بھی عقیدۂ جبر کی برکت سے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔بہت سے جوان موسیقی، بیہودہ اشعاراور عیاشی میں لگ گئے اور انہوں نے اپنا سارا مال اسی عیش و عشرت کی زندگی میں تباہ کر دیاتھا۔

 ڈاکٹر خلیف لکھتے ہیں:اوباش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں کہ جس میں بہت سی اداکارائیںشرکت کرتی تھیں،جس میں متعدد عیاش اور بے شرم گروہ برہنہ رقص کرتے تھے ور جس میں اموی و عباسی بھی  شرکت کرتے تھے تا کہ دوسروں کو ذلت محسوس ہو۔

ایسی ذلت جس نے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے اور نئے آنے والوں اور اس کی طلب کرنے والوںکو آغوش میں لے لیا اور انہیں تاریک کھائی میں پھینک دیااور پروانوں کی طرح آگ کی طرف بڑھنے والے جوانوں کو نگل لیا ۔ جس قدر اس کھائی کا اندھیرا زیادہ ہوتاگیا اتنا ہی اس میں گرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا۔

 اس طرح ان کی مستی اور لہو و لعب کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے اور ان کی عیاشی کو ان سے جوڑنے والے شاعروں نے گمراہی کا انتظام کیا؛جو سب کے سب فاسق،عیاش اور شراب سے مست تھے۔اس لہو لعب اور عیاش مکتب نے عورتوں اور مردوں کی صفوں میں عاشقانہ اشعار پڑھنے کی راہ بھی ہموار کی۔

اس مکتب میں رومانوی افسانے پڑھنا ،عشق و عاشقی کے نغمہ گانا عام تھا۔ اس مکتب کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں کنیزوں اور گانے والی عورتوں میں اضافہ ہوا اور اس مکتب کے کندھوں پر ہی زندقیت پھیلی جس نے اپنی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور دیر کے اشعار رائج ہو گئے۔([1])

 ولید بن عقبہ (اپنے عیسائی دوست ابوزبید نصرانی کے ساتھ)وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے عثمان بن عفان کے زمانے میں اس کام کے لئے زمین ہموار کی اور ان کے لئے وسائل فراہم کئے۔دیر کے اشعار اور گانے والی کنیزوں کے ساتھ اموی حکومت نے اپنے آخری دن گزارے اور پھر یہ سماجی آفت عباسی حکومت کے سپرد کر دی۔اس حکومت میں بھی غلاموں کی تعداد بڑھی۔ مختلف اقوام، ثقافت، تمدن اور مختلف مذاہب سے کنیزیں اور غلام بچے فراہم ہوئے اور یہ نکتہ حاکموں اور ان کے بیٹوں پر اثرانداز ہوایہاں تک کے ان کے محلوں کی اکثر کنیزیں ایسی تھیں جنہوں نے گلے میں صلیب  آویزاں کی ہوتی تھی۔ ([3]،[2])

 


[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة: ٦٣٣ اور ٦٣٤

[2]۔ العصر العباسی الأوّل:٢١

[3]۔ ازژرفای فتنہ ھا:ج ٢ ص ٤٩٤ 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2138
    آج کے وزٹر : 1938
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139952480
    تمام وزٹر کی تعداد : 96499906