حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
مرجئہ ، اموی دور میں

مرجئہ ، اموی دور میں

مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔

لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ  کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

دوسرا بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ عقیدۂ مرجئہ کے رواج پانے سے بنی امیہ نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے علاوہ ابوسفیان اور معاویہ سے وراثت میں ملنے والے اسلام کے خلاف بغض و کینہ سے بھی استفادہ کیا اور اسلام کے نام پر مرجئہ گری کے لباس میں لوگوں کو اسلام سے دور کیا اور یہودیت و عیسائیت اور کفر کی کھینچا۔

 ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے یہ حقائق اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔وہ ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:

 اسلام کی پہلی صدی کے دوسرے حصہ میں فرقۂ مرجئہ  بنی امیہ کے دالحکومت دمشق میںکچھ مسیحی عوامل کے نفوذ سے وجود میں آیا۔

 مرجئہ کی وجہ تسمیہ:کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے لیا گیا ہے جس کے معنی  ہیں تأخیر ۔اس گروہ کا نام مرجئہ اس وجہ سے پڑھ گیا کہ مسلمان گناہگاروں کے بارے میں ان کا کوئی حکم نہیں تھا اور وہ ان کے حکم کو روز حساب پر موقوف کرتے تھے اور کسی بھی مسلمان کو اس کے کئے گئے گناہ کی وجہ سے محکوم نہیں کرتے تھے۔لیکن''فاب فلوتن''کے بقول مرجئہ کا نام اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے:

     (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّہِ ِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَییْہِمْ وَاللّہُ عَلِیْم حَکِیْم)([1])

اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

اس بناء پر کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی امید پیدا ہونا ہیں۔([2]) کیونکہ مرجئہ کہتے تھے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتاجس طرح کفر کے ہوتے ہوئے اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

مرجئہ کا اصلی و بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے ، خدا کی وحدنیت اور پیغمبرۖ کی نبوت کی گواہی د یتا ہے،وہ جس گناہ کا بھی مرتکب ہو اسے کافر قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کا انجام خدا پر چھوڑ دیں۔

 ''جہم بن صوفان''مرجئہ کے ان پیشواؤں میں سے ایک ہے جو اس بارے میں  افراط کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ایمان ،قلبی عقیدہ ہے اور جو بھی اس کا معتقد ہو وہ مؤمن ہے؛اگرچہ وہ بغیر کسی   تقیہ کے اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی شہروں میںیہودی و عیسائی دین کا پرچار کرے،صلیب کی عبادت کرے  اورتثلیث کی باتیں کرے اور اسی حالت میںمر جائے توایسا شخص خدا کے نزدیک مؤمن  اور خدا کا  دوست ہے اور اہل جنت میں سے ہے!

 ''  جہم''معتقد تھا کہ صحیح اسلام و ایمان ایک ہی ہے۔یہ طبیعی ہے کہ اس عقیدہ کے پیروکار اسلام کے عملی واجبات کی تحقیر کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں کو قرآن کے مقرر کردہ واجبات سے برتر سمجھتے تھے۔

 حقیقت میں یہ گروہ بنی امیہ کی حکومت سے راضی  اور شیعوں اور خوارج کے مخالف تھے۔اس کے باوجود اپنے عقائد میں اہلسنت کے ساتھ ایک حد تک موافق تھے ۔لیکن جیسا کہ ''فون کریمر''کا کہنا ہے کہ ان کے عقائدمیں اس حد تک نرمی تھی کیونکہ وہ کہتے تھے مؤمن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔کلی طور پر مرجئہ عمل سے زیادہ عقیدے کو اہمیت دیتے تھے۔

 مرجئہ  کے عقائد اموی درباریوں اور ان کے طرفداروں کے عقائد سے موافق تھے ،اس طرح کہ کوئی شیعہ اور خوارج ان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔عیسائی اور دوسرے غیر مسلم لوگوں کی ان کے نزدیک اہمیت تھی اوراسے اہم منصب سونپنے لگے۔یہ عیسائی اپنے مقاصد و منافع کے پابند ، زمانے کے تقاضوں سے ہماہنگ اور ہوا کے رخ پر چلنے والے تھے۔ ([3])

 



[1]۔ سورۂ توبہ، آیت:١٠٦

[2] ۔ مرجئہ  کا معنی امیدپیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ ''گناہگاروں کے بارے میں حکم کرنے میں تأخیر''کی وجہ سے ہے۔

[3]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج ۱ص۴۰۹

 

 

    ملاحظہ کریں : 2540
    آج کے وزٹر : 15062
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139978726
    تمام وزٹر کی تعداد : 96526154