حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اموی دور میں معتزلہ

اموی دور میں معتزلہ

 بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔

 حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔

 ''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ  گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟

واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔

     واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔

     ''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔

 ''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبرۖ سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔([1])

 


[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳

 

 

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2151
    آج کے وزٹر : 16384
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139981369
    تمام وزٹر کی تعداد : 96528797