حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
جہمیّہ

جہمیّہ

 اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار  اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!

 ''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل  اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!

 اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!

اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔

     وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں   کوئی کمی  واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!

     اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔

     شہرستانی کہتے ہیں:([1])اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔

     اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ  جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے  تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں  کرتا!

     وہ کہتا تھا:([2])ایمان ایک  قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں  مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے  اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!

     اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور   نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔

     وہ کہتا تھا:([3])ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی  ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔

     وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔

     اشعری کہتا ہے:([4])یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں  بلکہ  حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔

 وہ کہتا تھا:([5]) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔ ([6])

 


[1] ۔  الملل و النحل:٨٠١، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج١ص١٩٨

[2]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج٤ ص٢٠٤

[3]۔ الملل و النحل:ج١ص٨٠، مقالات الاسلامیّین: ج١ص١٩٨

[4]۔ مقالات الاسلامیّین: ج١ ص٣١٢، الفرق بین الفرق:١٢٨ ، الملل و النحل: ج١ص٨٠

[5]۔ الملل والنحل: ج١ص٨٠

[6]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:٧٩

 

 

    ملاحظہ کریں : 2307
    آج کے وزٹر : 17302
    کل کے وزٹر : 153472
    تمام وزٹر کی تعداد : 139983205
    تمام وزٹر کی تعداد : 96530633