امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں : 

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنھا الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''([1])

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں . لہذا انہیں ضائع نہ کریں . مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

 

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تھے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تھے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تھے ۔

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابھی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تھا ، وہ گھر کی تعمیر میں مشغول تھے گھر کے ایک حصے کو توڑ چکے تھے تا کہ جدید گھر تعمیر کر سکیں اور گھر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تھے جیسے کنویں کی کھودائی یا اس میں پتھر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تھے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا . وہ تخت پر تشریف فرما تھے اور ان کی حالت عادی تھی . وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تھے . لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تھی ۔ مجھے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹھیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجھے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پھر یہ گھر کی تعمیر کس لئے ؟

پھر میں نے بھی کچھ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چھوٹے صندوق میں پڑھی نقد رقم مجھے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچھ حصہ مجھے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکھا تھا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجھے بھیجوا یا تھا جواب بھی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تھی ، وہ ان کے نام پر تھی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکھا تھا کہ وہ زمین بھی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تھی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تھے انہوں نے جب وہ رقم مجھے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکھا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گھر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تھی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے قرآن دو انہوں نے قرآن کھو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تھی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مھر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکھیں دروازے پر لگائے بیٹھے تھے اور ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچھ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تھے ۔

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گھر میں مکاسب کا درس دیا اور پھر ان کے چھوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تھے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تھی کہ جومیری زوجہ بھی تھیں . لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تھا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچھ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تھا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تھے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تھوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹھ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچھ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کھل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا '' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹھے تھے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے پڑھ رہے تھے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تھے ۔

مجھے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تھے :بلافصل ، ھیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰہ مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء '' ([2])

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کھڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تھا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بھی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تھے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تھے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتھ راز ونیاز کر رہے تھے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تھے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تھا کہ ہم بھی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کھڑا اس ماجرا کو دیکھ رہا تھا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تھے۔ میں نے یہ بھی سنا کہ آغا کہہ رہے تھے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجھے سپرد کر دیئے اب مجھے لوٹا دو ۔

میں وہیں کھڑا ہوا تھا اور وہ بھی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹھ تھے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تھے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بھی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تھے ۔

مجھے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گھر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تھی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتھا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تھے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بھی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچھ بھی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

١ ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پھر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

٢ ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکھا تھا ۔

٣ ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنھا الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

 


[1]۔ غرر الحکم :ج٢  ص٩ ٩ ٤

[2]۔ سورہ ابراہیم آیت: ٤ ٢

 

 

 

 

    بازدید : 7469
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 83357
    بازديد کل : 133010355
    بازديد کل : 92113353